آج کل امریکہ میں افغانستان اور پاکستان کے لیے رپورٹنگ کرنے والی خاتون برطانوی صحافی کارلوٹا گیل Carlott Gall کی تازہ کتاب The Wrong Enemy: America in Afghanistan, 2001-2014"کا خاصا چرچا ہے۔گیل معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمزسے وابستہ ہیں اور طویل عرصے تک افغانستان اور پاکستان کے لیے رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔یہ وہی صحافی ہیں جس نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ بعض افراد نے اسلام آباد کے کسی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہو کر اس کا سامان قبضے میں لے کر اسے زدوکوب کیا تھا۔اس کتاب میں کارلوٹا گیل نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان جنگ میں امریکہ کا اصل حریف اور دشمن افغانستان‘ القاعدہ یا طالبان نہیں بلکہ خود پاکستان ہے جو امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ اس کے بقول پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی اور بدامنی کا ذمہ دار ہے اور وہ یہ سب کچھ اپنے خبطی پن اور علاقہ میں اپنی بالادستی رکھنے کی خواہشات کے زیر اثر کر رہا ہے۔ پاکستان اس خطے میں چودھراہٹ قائم کرنے کے عزائم پورے کرنے کے لیے طالبان کی درپردہ حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کو اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں قیام کا بھی علم تھا۔نائن الیون کے 13سال بعد بھی‘3400فوجیوں کی ہلاکت اور ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی افغانستان ابھی تک کمزور اور اپنے ہمسایہ ممالک کی خواہشات اور مذہبی انتہا پسندوں کی کارروائیوں اور طاقت کے رحم و کرم پر زندہ ہے۔پاکستان اگرچہ نیٹو کا ساتھی اور حلیف ہے اور نائن الیون سے لے کر اب تک 23بلین ڈالر اس جنگ کے نام پر وصول کر چکا ہے‘افغانستان میں اسی طرح کی جہادی جنگ میں مصروف ہے جس طرح وہ 80کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑ چکا ہے۔ وہ جہاد سوویت یونین کے خلاف تھا اب یہ جہاد امریکہ کے خلاف ہے۔گیل نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ افغانستان کے اندر نہیں بلکہ پاکستان میں ہے جہاں سے انتہا پسندوں کو مسلسل امداد اور حمایت مل رہی ہے۔پاکستان‘ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کی حمایت کیوں کر رہا ہے۔ وہ اس کی دو وجوہ بیان کرتی ہے: ایک تو یہ کہ وہ اسامہ پر کنٹرول حاصل کر کے اس کو مختلف خطوں میں جاری اسلامی تحریک پر اثر انداز ہونے اور خاص طور پر کشمیر اور افغانستان میں مذہبی انتہا پسندوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔دوسرا یہ کہ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایک ایسی قوم کے طور پر سامنے آئے کہ جس نے اسامہ بن لادن کو امریکہ یا کسی اور ملک کے حوالے کر دیا ہو۔وہ اپنی کہانی بھی بیان کرتی ہے کہ کس طرح وہ ایک پاکستانی سے ملی تو اس نے چھوٹتے ہی کہا ''امریکہ افغانستان میں کبھی جنگ نہیں جیت سکتا۔اسے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی طرف ہی دیکھنا ہو گا۔‘‘
اس کتاب اور مصنفہ کو یہاں بہت پزیرائی مل رہی ہے۔مختلف تھنک ٹینک اور پالیسی ساز ادارے اس کے ساتھ نشستیں کر رہے ہیں۔اس کے انٹرویوز شائع ہو رہے ہیں ۔اس سارے منظر نامے کے پیچھے اصل بات یہ ہے کہ جوں جوں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے دن قریب آ رہے ہیں‘ ایسی فضا تخلیق کی جا رہی ہے جس میں اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے کہ اصل ٹارگٹ پاکستان ہے اور جنگ بھی اسی سے کی جائے۔یوں لگتا ہے کہ میدان جنگ کو افغانستان سے پاکستان کے اندر منتقل کرنے کی تیاریاں شروع ہیں۔اس مقصد کے لیے منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں منفی خبریں شائع کر کے دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں اور اداروں کو پاکستان کے حوالے سے مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا جائے۔ان مقاصد کے لیے امریکی میڈیا پورا ساتھ دے رہا ہے۔تازہ صورتحال کے مطابق ایک طرف تو بھارت نواز عبداللہ عبداللہ کو صدر بنانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور دوسری طرف امریکہ کے پالیسی ساز اداروں میں موجود بھارتی عہدیدار حکومتی سوچ
اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔اس وقت تمام کلیدی عہدوں پر مشیر اور فیصلہ ساز لوگ بھارتی نژاد ہی ہیں۔ پاکستانی جو اپنی ذاتی کوششوں اور محنت سے آگے نکل آتے ہیں اور کونسل اور سٹی کے چھوٹے موٹے عہدوں پر الیکشن لڑتے ہیں انہیں شکست ہو جاتی ہے یا ہروا دیا جاتا ہے۔پاکستانیوں کے اہم عہدوں پر نہ پہنچنے کی دو وجوہ ہیں: ایک تو ان کے اندر آگے بڑھنے کی امنگ نہیں ہے اور جو آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ان کے اپنے ہی لوگ پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ووٹ نہیں دیتے یا نہیں دلواتے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ ایسی مہم کا جواب نہیں دے پاتا۔ ہمارا میڈیا سیکشن ہے‘ لابنگ فرم ہے۔ہم پاکستان مخالف مضامین‘ کالم‘ انٹرویوز اور کتابوں کا جواب دے سکتے ہیں۔ہر فرد اور ملک کو وضاحتی بیان جاری کرنے اور مضمون لکھنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان کے سفارت خانے کو ایسے الزامات کا جواب دے کر فضا کو پاکستان کے حق میں کرنے کی کوششیں کرنی چاہیے۔ ہم لوگوں کو اتنا بھی نہیں بتا سکے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی اس نام نہاد جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستانی فوج اور معصوم عوام نے دی ہیں۔ہزاروں پاکستانی فوجی جوان اور افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بے گناہ عوام بم دھماکوں میں شہید ہو رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت تباہ ہو گئی۔
ہم ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا کوئی سرا معلوم ہے نہ کوئی مقصد۔لیکن یہ جنگ جاری ہے یہاں پر تجزیہ نگار اور سوچنے والے یہ باتیں بھی کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ کامیاب تو دور کی بات پوری طرح شروع ہی نہیں ہو پائیں گے۔ان کے نزدیک یہ بھی ایک دکھاوا ہے۔ اندر سے حکومت اور فوج ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اسی لیے مذاکرات جیسا ایشو پرویز مشرف اور اس کے بعد ایک میڈیا گروپ سے متعلق معاملات کی گرد میں چھپ کر کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔اب تو کسی کو مذاکرات یاد بھی نہیں رہے۔ایسے ایشو جان بوجھ کر تخلیق کیے جاتے ہیں اور پھر سارا زور ان پر لگا دیا جاتا ہے۔اصل ایشو دب جاتا ہے یا اسے نان ایشو بنا دیا جاتا ہے۔
سو افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی مرحلہ وار واپسی کے بعد پاکستان کا بازو مروڑنے کے لیے تیاریاں نظر آ رہی ہیں۔ لیکن ان کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت پاکستان کچھ سوچتی نظر آ رہی ہے نہ پاکستانی سفارت خانے میں کوئی سرگرمی دکھائی دے رہی ہے۔بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جو پاکستان دشمنی کے لیے مشہور ہے‘برسر اقتدار آ چکی ہے۔مودی وزیر اعظم بن رہے ہیں‘ عبداللہ عبداللہ افغانستان کے صدر بننے کی تیاریوں میں ہیں۔یہاں کی فضا کچھ اور بنتی دکھائی دے رہی ہے لیکن پاکستان میں پالیسی ساز ادارے لسی پی کر سو رہے ہیں ؎
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے