1986ء کا ایک منظر

سب لڑکے بہت پرجوش ہیں۔ آج جمعرات ہے، سکول سے آدھی چھٹی ہوچکی ہے اور کل جمعہ کو پوری چھٹی ہوگی۔ طے پا چکا ہے کہ شام کو کرائے پر وی سی آر لایا جائے گا۔ وی سی آر اور رنگین ٹی وی کا کرایہ ایک سو روپے ہے جس کے ساتھ چار فلمیں بھی ملتی ہیں۔ سب نے اپنے اپنے پیسے ملائے ہیں لیکن پتا چلتا ہے کہ ٹوٹل 80 روپے بنے ہیں۔ بیس روپے کس سے لیے جائیں؟ماموں سے پوچھا تو انہوں نے دس روپے ملانے کی حامی بھری۔ باقی کے دس روپے خالوسے اینٹھ لیے، آخر وہ بھی تو فلمیں دیکھیں گے۔
دل ہے کہ خوشی سے جھوم رہا ہے! لیجیے سب لڑکے ہجوم کی شکل میں 'اشفاق وڈیو سنٹر‘ پہنچ گئے ہیں۔ لیکن یہ کیا...دکان تو بند ہے۔ ساتھ والے دکاندار سے پوچھتے ہیں تو وہ بتاتاہے کہ اشفاق بھائی ظہر کی نماز پڑھنے گئے ہے۔ سب بے چینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں، لہٰذا سب ایک لائن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دس منٹ کے 'طویل‘ انتظار کے بعد سامنے سے اشفاق بھائی سر پر رومال باندھے‘ منہ میں کوئی وظیفہ پڑھتے ہوئے آتے دکھائی دیتے ہیں۔ سب کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ اشفاق بھائی قریب آکر لاپروائی سے سب کی طرف دیکھتے ہیں اور پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ سب انتہائی تابعداری سے تھڑا خالی کر دیتے ہیں۔ اشفاق بھائی جھک کر دکان کا تالہ کھولتے ہیں اور شٹر اوپر اٹھانے کے لیے زور لگاتے ہیں لیکن شٹر ڈیڑھ فٹ تک ہی اوپر اٹھ پاتا ہے۔ اشفاق بھائی پھر زور لگاتے ہیں لیکن بات نہیں بنتی۔ سب لڑکے ایک لمحے میں اشفاق بھائی کی مشکل سمجھ جاتے ہیںاور جلدی سے اشفاق بھائی کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ مل کر زور لگتاہے اور شٹر اوپر اٹھ جاتاہے۔ سامنے دکان کے شیشے پر نظر پڑتے ہی روح سرشار ہوجاتی ہے۔ انیل کپور کی نئی فلم 'جانباز‘ کا بڑا سا پوسٹر لگا ہوا ہے، جس میں ڈمپل کپاڈیہ کا خوبصورت چہرہ بھی عیاں ہے۔ اشفاق بھائی شیشے والا دروازہ کھول کر دکان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی سب لڑکے بھی جلدی سے پیچھے پیچھے اندر کی طرف لپکتے ہیں۔اشفاق بھائی کائونٹر کے پیچھے جاکر اپنا وظیفہ مکمل کر کے دکان کے چاروں کونوں پر پھونک مارتے ہیں اور سوالیہ نظروں سے لڑکوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ سب کے چہروں پر صاف لکھا ہوا ہے۔۔۔۔ 'وی سی آر‘ ٹی وی اور چار فلمیں‘۔ سب کی متلاشی نظریں اشفاق بھائی کی چھوٹی سی دکان میں اِدھر اُدھر گردش کر رہی ہیں لیکن نہ وی سی آر نظر آرہا ہے نہ ٹی وی۔ اتنے میں اشفاق بھائی کی چبھتی ہوئی آواز کانوں میں پڑتی ہے: 'وی سی آر اور ٹی وی ماسٹر الیاس کے گھر ہے‘۔ ایک دم سب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ جاتا ہے، زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں، ارمانو ں پر مٹی پڑجاتی ہے۔ لیکن اسی اثناء میں اشفاق بھائی کی آواز پھر سنائی دیتی ہے: ''اُن کا لڑ کا کل لے کر گیا تھا لیکن کمینہ ابھی تک واپس نہیں دے کر گیا، تم لوگوں کو چاہیے تو ماسٹر الیاس کے گھر سے لے آئو‘‘۔ سب کے چہرے دمک اٹھتے ہیں، امید کی نئی کرن جذبوں کو توانا کر دیتی ہے۔ ساری بارات ماسٹر الیاس کے گھر کی طرف لپکتی ہے۔ وہاں سے سائیکل کے کیریئر پر ٹی وی اور اس کے اوپر وی سی آر چھ لڑکے اپنا اپنا ہاتھ رکھ کر بڑی احتیاط سے اشفاق بھائی کی دکان پر لاتے ہیں۔ اب مرحلہ ہے فلموں کی سلیکشن کا۔ کائونٹر پرتین البم پڑی ہیں، جن میں پاکستانی‘ انگلش اور انڈین فلموں کی تصاویر اور کاسٹ لکھی ہوئی ہے۔ سب لڑکے آپس میں بحث کر رہے ہیں کہ کون سی فلم لینی چاہیے۔ چونکہ فلم گھر میں سب نے دیکھنی ہے اس لیے احتیاطاً ہر فلم کے بارے میں اشفاق بھائی سے پوچھ لیا جاتاہے کہ 'صاف ہے ناں؟‘...اور اشفاق بھائی جیب سے پان نکال کر منہ میں رکھتے ہوئے اطمینان سے سر ہلا دیتے ہیں۔آدھے گھنٹے کی سلیکشن کے بعد چار فلمیں منتخب کی جاتی ہیں، جن میں ایک ڈرائونی فلم 'پرانا مندر‘ بھی شامل ہے۔ اتنے میں ماموں کا لڑکا سب کو کن انکھیوں سے اشارہ کرتا ہے اور سب بظاہر فلموں کے پوسٹرز دیکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ اشفاق بھائی سے کچھ کھسر پھسر کرتا ہے‘ اشفاق بھائی سر ہلاتے ہوئے نیچے جھکتے ہیں اور دراز میں سے کچھ نکال کر ماموں کے لڑکے کو تھما دیتے ہیں جسے وہ جلدی سے قمیص کے اندر کرکے لاپروائی سے ہماری طرف گھوم جاتا ہے۔ 
وی سی آر اور رنگین ٹی وی سے لدا سائیکل اپنی گلی میں داخل ہوتاہے اور محلے داروں کی آنکھیں پھیل جاتی ہیں۔ فخر کا ایک احساس ہے جو ہر لڑکے پر طاری ہے۔ گھر کے صحن میں چھڑکائو ہو چکا ہے‘ چارپائیاں اور کرسیاں لگائی جا چکی ہیں‘ بچوں کے لیے بیٹھنے کے لیے ٹی وی کے آگے چادر بچھا دی گئی ہے۔ ماموں کا لڑکا انتہائی مہارت سے ٹی وی کو میز پر رکھتاہے‘ وی سی آر لگاتا ہے اور خود بھی پاس ہی بیٹھ جاتاہے تاکہ کوئی 'ایسا ویسا‘ سین آجائے تو اسے آگے کر سکے۔ وی سی آر میں فلم ڈالی جاتی ہے اور Play کا بٹن دبایا جاتا ہے۔ سب دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں، فلم کا ہر لمحہ دیکھنے والوں کے چہروں پر لکھا ہوا آرہا ہے۔ فائٹنگ شروع ہوتی ہے تو سب کے عضلات تن جاتے ہیں‘ کسی مزاحیہ جملے پر سب کا قہقہہ گونجتا ہے‘ تھوڑے سے بولڈ سین پر گہری خاموشی چھا جاتی ہے ۔ فلم تو اچھی ہے لیکن گانے مزیدار نہیں، لہٰذا جونہی کوئی گانا آتاہے‘ آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں 'اینوں فارورڈ کردے‘۔ اچانک فلم رک رک کر چلنا شروع ہو جاتی ہے، سکرین پر'لہریں‘ آنے لگتی ہیں۔ ماموں کا بیٹا جھٹ سے وی سی آر کا 'ڈھکن‘ کھول کر جیب سے ایک روپے کا نوٹ نکالتا ہے اور اس پر پٹرول لگا کر 'ہیڈ‘ صاف کرتا ہے۔ فلم دوبارہ لگاتاہ ے اور فاتحانہ نظروں سے سب کی طرف دیکھتاہے، پرنٹ بالکل صاف آرہا ہے۔ تین گھنٹے بعد ایک فلم ختم ہوتی ہے‘ ہلکی ہلکی تھکن ہونا شروع ہوگئی ہے لیکن ابھی تین فلمیں باقی ہیں۔۔۔۔!
پھر دوسری فلم شروع ہوتی ہے۔ رات کے بارہ بج چکے ہیں‘ سب جماہیاں لے رہے ہیں‘ سونا چاہتے ہیں لیکن یہ خوف بھی موجود ہے کہ اگر باقی کی دو فلمیں نہ دیکھیں تو کل کیا منہ دکھائیں گے، لہٰذا جیسے تیسے کرکے بیٹھے رہتے ہیں۔ اسی دوران چائے بھی آجاتی ہے‘ چائے کی وجہ سے مزید پندرہ منٹ جاگنے میں کچھ مدد مل جاتی ہے۔ لیکن نیند ہے کہ حاوی ہوئی جا رہی ہے۔ خواتین بمشکل آدھی فلم ہی دیکھ پاتی ہیں اور چادروں پر آڑھے ترچھے سوئے ہوئے بچوں میں سے اپنے بچے تلاش کرکے گود میں اٹھاتی ہیں اور سونے کے لیے رخصت ہو جاتی ہیں۔ اگلے تین گھنٹے بعد دوسری فلم بھی اختتام کو پہنچتی ہے اور ماموں کا لڑکا تیسری فلم اٹھاتا ہے۔ آدھے سے زیادہ تماشائی اونگھ رہے ہیں‘کئی ایک ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ تو یونہی مذاق میں سو رہے تھے۔ تیسری فلم کے آغاز میں ہی یہ گہری نیند سو جاتے ہیں۔۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ تیسری فلم کی کہانی کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو رہا ہے۔ چوتھی فلم تک پہنچتے پہنچے آدھی سے زیادہ کرسیاں اور چارپائیاں خالی ہوچکی ہیں لیکن لڑکے ہوشیار باش ہیں کیونکہ چوتھی فلم بھی ختم ہونے والی ہے۔۔۔۔!
صبح کسی میں ہمت نہیں کہ وہ وی سی آر واپس کر کے آئے۔ سب بے سُدھ پڑے ہیں۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے، ماموں آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولتے ہیں۔ اشفاق بھائی کا بھیجا ہوا اگلا گروپ وی سی آر لینے آچکا ہے۔۔۔۔۔!کہانی ختم ہوتی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں