اور اب… پتایہ!

احباب کی خواہش ہے کہ میں 'دورہ تھائی لینڈ‘ پر مزید کچھ لکھوں... آپس کی بات ہے میری بھی یہی خواہش ہے۔ قارئین کی موصول ہونے والی رائے میں بے چینی سے ایک فرمائش کا اظہار کیا گیا ہے کہ میں بنکاک کے متعلق کچھ 'اندرونی‘ باتیں بھی بیان کروں۔ گزارش ہے کہ مجھے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن... کہاں تک سنو گے‘ کہاں تک سنائوں؟ پہلے بھی عرض کی تھی کہ صرف بنکاک ہی نہیں‘ بیشتر ممالک میں کھلی ڈلی آزادی ہے لہٰذا ذرا بنکاک سے باہر نکلتے ہیں۔ دو دن بنکاک میں قیام کے بعد احساس ہوا کہ 'اے اسی کتھے آ گئے آں‘... لہٰذا فیصلہ ہوا کہ 'پتایہ‘ چلا جائے اور 'جومیٹن‘ کا ساحل انجوائے کیا جائے۔ ہم سب اسے 'پتایہ‘ ہی کہتے ہیں لیکن مقامی لوگوں کے نزدیک اس کا اصل تلفظ‘ ثریا کے وزن پر ہے یعنی 'پتیّہ‘۔ موٹر وے سے جائیں تو یہ بنکاک سے لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ان کا موٹر وے اچھا ہے لیکن ہمارا زیادہ اچھا ہے۔ ان کے موٹر وے پر بھی دونوں جانب جنگلے لگے ہوئے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں یہ لوگ اسے 'جنگلہ موٹر وے‘ کیوں نہیں کہتے... ممکن ہے کہتے ہوں۔ بنکاک کے ٹیکسی ڈرائیور قالین بیچنے والے خان صاحب کی طرح ہیں۔ پانچ ہزار سے شروع ہوتے ہیں اور دو ہزار میں مان جاتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ اگر میں اور اجمل شاہ دین کوئی ٹیکسی ڈرائیور ہائر کرتے تو دن دیہاڑے لٹ جاتے لیکن مرشد کامل یاسر پیرزادہ کی موجودگی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔ مرشد بھائو تائو کرنے میں خواتین صفت واقع ہوئے ہیں۔ سو روپے کی چیز کا ریٹ بیس روپے کروا لینا آپ کے بائیں پیر کا کھیل ہے۔ آپ کی اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جملہ رقوم آپ کو جمع کرائی گئی تھیں تاکہ اخراجات حد سے بڑھنے نہ پائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی مواقع پر احساس ہوا کہ انسان واقعی خطا کا پتلا ہے۔ مرشد ایک ایک پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب مظلومیت کی جیتی جاگتی تصویر برادرم اجمل شاہ دین ایک خوانچہ فروش قتالہ کے پاس رکے اور کٹے ہوئے آم کا پیکٹ خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ پتا چلا کہ پیکٹ تیس باتھ کا ہے (باتھ وہاں کی مقامی کرنسی ہے) اجمل صاحب نے مرشد سے درخواست کی کہ تیس باتھ عنایت فرمائے جائیں۔ مرشد چلتے چلتے یکدم رکے‘ سلوموشن میں گردن گھمائی اور ایک نگاہِ غضب مظلوم پر ڈالی۔ اگلے ہی لمحے فضا میں ایک گرجدار آواز گونجی 'صرف بیس روپے ملیں گے‘ اور دس دس کے دو نوٹ اجمل صاحب کی طرف بڑھا دیے... ہائے... دل پر ایک خنجر سا چل گیا۔ میں نے غور سے اجمل شاہ دین کا جائزہ لیا۔ وہ بار بار کچھ کہنے کے لیے منہ کھول رہے تھے لیکن دندلیں پڑ گئیں‘ الفاظ حلق میں اٹک گئے‘ زبان تالو سے لگ گئی۔ اللہ جانتا ہے میں نے بے بسی کی ایسی تصویر کبھی نہیں دیکھی... اگر اس لمحے مرشد اور اجمل شاہ دین کی تصویر کھینچ لی جاتی تو بلاشبہ تصویر کا عنوان ہوتا... وہ ظالم تھا‘ میں مجبور تھی۔ کیسا دردناک منظر تھا۔ مرشد مجھے اس وقت خزانے کے سانپ لگے۔ میں نے تھوڑی جرات کا سوچا اور بسم اللہ پڑھ کر مرشد سے گزارش کی کہ دس باتھ سے کیا فرق پڑتا ہے‘ بیس کی بجائے تیس دے دیں تو... بس اتنا ہی کہا تھا کہ میری اپنی گھگھی بندھ گئی‘ مرشد نے اپنے ڈیلے میری طرف گھمائے اور خوفناک انداز میں مسکرانے لگے۔ میں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور اسی وقت ہتھیار ڈال دیے۔ خوانچہ فروش مسماۃ منتظر تھی کہ اسے تیس باتھ عطا کیے جائیں تاکہ وہ آم کا پیکٹ ہمارے حوالے کر سکے۔ اجمل صاحب نے کپکپاتے ہاتھوں سے دونوٹ اس کے سامنے کیے اور منہ دوسری طرف کر لیا... شاید آنسو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی لمحے ایک عجیب کام ہوا۔ خوانچہ فروش لڑکی نے بیس روپے وصول کیے اور آم کا پیکٹ اجمل صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی... Its ok...!!! میں 'چیونگم بدنداں‘ رہ گیا۔ جس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا وہ ہو گئی تھی۔ یقینا وہ رحمدل بی بی سمجھ گئی تھی کہ 'دادا حضور‘ بہت سخت گیر ہیں۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ مظلومیت کو کسی زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ مرشد جب پاکستان میں ہوتے ہیں تو فضول خرچی کی پروا نہیں کرتے البتہ غیر ملکی سفر کے دوران انہیں انجان سیاحوں کی طرح بیوقوف بننا کسی صورت قبول نہیں۔ اب ذرا یہ واقعہ ذہن میں رکھیے اور واپس آئیے بنکاک کی 'سکووتھ روڈ‘ پر جہاں مرشد ایک ٹیکسی ڈرائیور کو روکے 'پتایہ‘ جانے کی بات کر رہے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے دو ہزار باتھ مانگ لیے اور مرشد کے دل کی کلی کھل گئی۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ مرشد کو جب بھی کبھی ایک دریا کے بعد دوسرے دریا بلکہ سمندر کا سامنا ہوتا ہے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں‘ یکدم ریلیکس ہو جاتے ہیں اور ساری تکان اتر جاتی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور بیچارہ بے خبر تھا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ مرشد اطمینان سے اس کی ٹیکسی کی کھڑکی کے قریب آئے اور خوشی سے مخمور آواز میں بولے 'پانچ سو ٹھیک ہیں؟‘... یہ سنتے ہی میں اور اجمل شاہ دین یکدم سہم گئے۔ ہمارا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا مزید نیچے ہو گیا۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ رقم سن کر یقینا ٹیکسی ڈرائیور پہلی فرصت میں ہم پر حملہ آور ہو گا‘ ہو سکتا ہے اس نے سوچا بھی ہو لیکن مرشد کا اعتماد تو بڑے بڑوں کا پتّا پانی کر دیتا ہے‘ ان کے سامنے اِس پستہ قد پھینے کی کیا اوقات تھی۔ دھوپ بڑی تیز تھی لہٰذا میں اور اجمل شاہ دین قریب کھڑی ایک نیک بخت کے سائے میں چلے گئے جس نے اپنے سائیکل پر چھتری لگا رکھی تھی۔ ہمیں پتا تھا کہ مرشد کی یہ میٹنگ کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ ضرور چلے گی لہٰذا یہ سوچ کر سائے میں آ گئے کہ 'شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو‘۔ تاہم دو منٹ بعد ہی ایک حیرت انگیز اطلاع ہماری منتظر تھی۔ مرشد نے 13 سو باتھ میں ٹیکسی ڈرائیور کو نہ صرف منا لیا بلکہ یہ بھی طے کروانے میں کامیاب رہے کہ موٹر وے پر راستے کا ٹول ٹیکس بھی وہی ادا کرے گا... اللہ اللہ... میں نے غور سے ٹیکسی ڈرائیور کی طرف دیکھا‘ اس کے دائیں گال پر لکھا نظر آیا... 'کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی‘... مرشد پھر کامیاب رہے تھے اور ٹیکسی میں بیٹھ کر اے سی کا رخ اپنی طرف کرکے بار بار ہمیں سمجھا رہے تھے کہ کمبختو! پیسے بچانا سیکھو۔ ان کی کفایت شعاری کی رفتار دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ جب ہم پاکستان واپس لوٹیں گے تو ہمارے پاس یقینا اپنے پیسوں کے علاوہ پندرہ بیس ہزار مزید شامل ہو چکے ہوں گے۔ 'پتایہ‘ کب آیا‘ پتا ہی نہیں چلا۔ ایک دم سے ٹیکسی ڈرائیور نے مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے ایک سڑک پر ٹیکسی موڑی... اور... سامنے پانی اور انسانوں سے بھرا سمندر تھا... ساحل پر کھڑی گیلی مخلوق کو دیکھ کر یکدم آنکھوں میں تراوٹ اور ٹانگوں میں تھکاوٹ اُتر آئی۔ ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے گوڈے گٹے جواب دے گئے تھے۔ ٹیکسی رکی تو مرشد نے ایک ہولناک خبر سنائی کہ انہوں نے 'پتایہ‘ کے کسی ہوٹل میں کوئی بکنگ نہیں کروائی۔ ایک دم سے یوں لگا جیسے ہم نے ٹنڈیں کروائی ہوئی ہیں اور مسلسل اولے برس رہے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ مرشد اتنا رش ہے‘ ویک اینڈ ہے‘ بغیر بکنگ کے کمرہ کیسے ملے گا؟ مرشد نے ایک ہنکارہ بھرا‘ عینک لگائی اور ٹیکسی سے باہر نکلتے ہوئے انتہائی متانت سے فرمایا 'ہاں! ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ہم واپس بنکاک چلے جائیں گے‘‘۔ یہ سنتے ہی میرے قریب بیٹھے ہوئے شخص کی باریک سی چیخ نکل گئی۔
(نوٹ: یہ درد بھری داستان جاری ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں