پاء جی! آ جائو…!!

میرا خیال تھا‘ 'پتایہ‘ میں لوگ اس لیے زیادہ تعداد میں ہیں کہ یہاں سمندر ہے‘ ساحل ہے اور خوبصورتی ہے۔ لیکن میرا خیال صحیح ثابت ہوا۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ کئی دفعہ میں جو کچھ سوچتا ہوں وہ بالکل صحیح ثابت ہوتا ہے‘ مثلاً میں سوچ رہا تھا کہ یہاں جتنی گرمی پڑ رہی ہے اور جس تیزی سے لوگ قدرتی لباس کی طرف راغب ہوتے جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ساحل پہ جانے سے پہلے ہمیں آنکھوں پر کھوپے چڑھانے پڑیں۔ ایسا ہی ہوا... ہمارے کھوپے ہماری جیبوں میں موجود تھے جنہیں اردو میں عینک کہتے ہیں؛ تاہم کھوپے لگانے کے باوجود جب منظر نہیں بدلا تو ہم نے اپنا رستہ بدل لیا۔ 
'پتایہ‘ کی سڑکوں پر وہی رش ہے جو اپنے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہاں بھی فٹ پاتھوں پر قبضہ ہے۔ پیدل چلنے کے لیے لگ بھگ سڑک کے درمیان میں چلنا پڑتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کے نخرے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ٹفنی شو کے لیے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کرایے کی مد میں کمی بیشی کی تکرار ہو رہی تھی تو موصوف نے فرمایا کہ ٹیکسی سٹارٹ ہوتے ہی دو سو روپے فوراً چارج ہو جائیں گے‘ باقی کا کرایہ اس کے علاوہ ہے۔ یہاں ہر ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر ایک 'باتصویر‘ کارڈ لٹک رہا ہوتا ہے جس میں سیاحوں کے لیے پُرکشش مقامات کا بائیوڈیٹا لکھا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کارڈ صرف پچھلی سیٹ پر ہی آویزاں ہوتا ہے۔ دو دن گزرے تو 'پتایہ‘ سے بھی دل بھر گیا۔ مرشد نے رات کو ہی ایک ٹیکسی ڈرائیور سے واپس بنکاک جانے کی بات کر لی۔ اس رات ہم
نے ساحل کے ساتھ ساتھ جی بھر کے گانے گائے‘ ہماری آواز میں اتنا درد تھا کہ جب ہم واپس ہوٹل کے کمرے میں پہنچے تو یہ درد ہمارے پورے جسم میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس شہرِ ننگ دھڑنگ میں یہ ہماری واحد عیاشی تھی‘ جس نے ہمیں بہت تھکا دیا۔ اصل میں اُس رات ساحل پر بھی ہوا چل رہی تھی‘ ہمیں کھانے کو کچھ بہتر انڈہ پیاز بھی مل گیا تھا‘ انڈین ریسٹورنٹ سے دہی کی لسی بھی مل گئی تھی‘ لہٰذا ایک عجیب طرح کا خمار طاری تھا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک کی گلوکاری میں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم گانا گانے کے دوران مسلسل واک بھی فرما رہے ہیں۔ گانے ختم ہوئے تو ہمارے دانے بھی ختم ہو گئے... اگلے روز بنکاک واپسی تھی‘ مرشد اور میرا خیال تھا کہ ہم رات کو اپنا اپنا کالم 'قلم بند‘ کر لیں گے لیکن تھکن اتنی زیادہ تھی کہ جماہی لینا بھی کارِ دشوار لگ رہا تھا‘ لہٰذا ہوٹل میں پہنچ کر بستر پر ایسے گرے کہ پھر صبح ہی آنکھ کھلی۔ ٹیکسی تیار تھی۔ ڈرائیور نے سامان ڈگی میں رکھا اور ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں جلدی سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا!!!
واپسی کے سفر میں ہم نے دنیا کا ایک عظیم ترین انوکھا کام سرانجام دیا۔ جونہی ٹیکسی موٹر وے پر چڑھی‘ مرشد اور میں نے اپنا اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا۔ پوائنٹس ہم پہلے ہی نوٹ کر چکے تھے‘ لہٰذا اپنا اپنا کالم لکھنے لگے۔ کچھ پتا نہیں راستے میں کیا آیا‘ کیا دیکھا‘ کیا نہیں دیکھا... پوری توجہ کالم کی طرف تھی۔ ساڑھے تین گھنٹے بعد برادرم اجمل شاہ دین نے ٹہوکا دیا کہ ہم بنکاک پہنچ چکے ہیں۔ مرشد اور میرے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔ ہم دونوں کے کالم مکمل ہو چکے تھے لیکن دو تین دفعہ اس کی ریڈنگ بہت ضروری تھی۔ طے پایا کہ ہم کسی ہوٹل کی لابی میں بیٹھتے ہیں‘ اطمینان سے کالم کی نوک پلک سنوار کر وہیں سے ای میل کرتے ہیں اور پھر شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں۔ ہمارے پاس چار گھنٹے تھے اور اسی میں ہم نے شاپنگ مکمل کرکے بنکاک ایئرپورٹ پہنچنا تھا تاکہ پاکستان جانے والی پرواز پکڑ سکیں۔ کالم کا 'میک اپ‘ کرتے کرتے ایک گھنٹہ وہیں گزر گیا‘ ہوش اس وقت آیا جب کالم ای میل ہو گیا اور لقمان صاحب کو یاد دہانی کا مسیج کر دیا۔ سر سے ایک بوجھ اتر گیا‘ چہروں پر بشاشت آ گئی۔ اب باری تھی شاپنگ کی... ایک لمبی لسٹ تھی‘ ثمریز بیٹے کو عجیب و غریب ناموں والے کچھ 'بے بلیڈ‘ درکار تھے۔ اللہ جانتا ہے‘ مجھے آج تک اس لٹو نما چیز کی سمجھ نہیں آسکی کہ بچے اس پر کیوں دل و جان سے 
فریفتہ ہیں۔ شاپنگ کے لیے ہم ایک بڑے سے پلازہ میں داخل ہوئے اور طے پایا کہ ٹھیک دو گھنٹے بعد سب گرائونڈ فلور پر موجود کافی شاپ پر ملیں گے... اور اس کے ساتھ ہی سب مخالف سمتوں میں غائب ہو گئے۔ بنکاک میں شاپنگ آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔آپ کو ہر وہ چیز مل جاتی ہے جو پاکستان میں بھی دستیاب ہے‘ سستی چیزیں بھی ہیں اور مہنگی بھی۔ لیکن مجھے 'بے بلیڈ‘ ڈھونڈنا تھا۔ خدا گواہ ہے سات منزلہ پلازے کی ہر 'ٹوائے شاپ‘ پر میں نے منحوس بے بلیڈ ڈھونڈا لیکن وہ چیز نہ ملی جو ثمریز صاحب کو درکار تھی۔ بالآخر تھک ہار کر ایک سیڑھی پر بیٹھ گیا اور وٹس ایپ پر وڈیو کال کی۔ اپنا حال دکھایا اور پوچھا کہ بھائی اب کیا کروں؟ ثمریز نے ایک گہرا سانس لیا اور کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا 'بابا اگر بے بلیڈ نہیں مل رہا تو رہنے دیں‘۔ اس کے لہجے میں عجیب سی محبت اور حسرت تھی‘ ایک لمحے میں مجھ میں نئی توانائی بھر گئی۔ میں نے فوراً کہا 'یار ڈونٹ وری‘ میں بلیڈ لے کر ہی آئوں گا‘۔ فوراً بولا 'بابا بلیڈ نہیں‘ بے بلیڈ‘... 'ہاں ہاں وہی‘ ... میں نے جلدی سے کہا اور اگلی دکان میں گھس گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت کے بعد آخر دعائیں قبول ہوئیں اور قبلہ بے بلیڈ صاحب مل ہی گئے۔ اگلا مرحلہ مزید شاپنگ کا تھا‘ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا اور شاپنگ ادھوری تھی۔ اتنے میں کسی کی آواز میرے کانوں میں پڑی 'اوئے پاکی! شاپنگ بیگ میں تم نے بم تو نہیں ڈالا ہوا؟‘۔ میں چونک اٹھا، گھوم کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی موبائل کی دکان پر ایک انڈین لڑکا لڑکی بیٹھے تھے اور لڑکا بڑی طنزیہ نظروں سے میرے ہاتھ میں پکڑے شاپنگ
بیگ کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں نے کچھ دیر اس کی طرف دیکھا‘ پھر قریب آ کر آہستہ سے کہا 'بم نہیں‘ اس میں گائے کا گوشت ہے، گھر جا کر کھائوں گا‘۔ یہ سنتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گیا اور گالیوں کا طوفان اگلنے لگا۔ لڑکی گھبرائی ہوئی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ میں نے لڑکی سے کہا 'میں ابھی تھائی پولیس کے پاس جا رہا ہوں اور تم لوگوں کی شکایت لگاتا ہوں‘۔ یہ کہہ کر میں دوسری طرف چل پڑا۔ لڑکی تیزی سے میری طرف لپکی 'پلیز ایسا نہ کریں، یہ پاگل ہے، معاف کر دیں‘۔ میں نے اطمینان سے کہا 'بدتمیزی خود اس نے کی ہے‘ اسے کہو‘ فوراً معافی مانگے ورنہ میں پولیس بلوا لوں گا‘۔ لڑکی کو پتا تھا کہ پولیس آ گئی تو کیمروں کی مدد سے ایک منٹ میں پتا چلا لے گی کہ قصور کس کا ہے‘ لہٰذا بھاگ کر لڑکے کے پاس گئی‘ اس کے کان میں کچھ کہا۔ لڑکے نے گھور کر میری طرف دیکھا‘ خونخوار انداز میں جھومتا ہوا میرے قریب آیا اور غضب ناک آواز میں بولا... ''سوری‘‘...!!!
بنکاک سے لاہور کی پرواز میں سفر کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ وہ جگہ کتنی خوبصورت ہوتی ہے جہاں سب اپنے ہوتے ہیں‘ جہاں سے ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا‘ جہاں کے در و دیوار سے ہماری آشنائی ہوتی ہے‘ جہاں خطرے کا احساس بھی اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی گویا زندگی واپس آگئی‘ ہر طرف اپنے ہی اپنے تھے۔ اپنے چہرے‘ اپنی زبان‘ اپنی چیزیں... سب سے زیادہ لطف اُس ٹیکسی ڈرائیور کی آواز نے دیا جو ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی کانوں میں پڑی...''پاء جی! آجائو...!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں