یہ شادی نہیں ہو سکتی!

مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی، اندازہ نہیں تھا کہ بابا نور دین اتنا زندہ دل بھی ہو سکتے ہیں۔ بابا جی کافی عرصہ تک انار کلی بازار کی نکڑ پر ٹی ہائوس کے سامنے فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں بیچا کرتے تھے۔ خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن کتابیں بڑی عمدہ تلاش کرکے لایا کرتے تھے۔ ان سے بھائو تائو میں بھی مشکل نہیں ہوتی تھی کیونکہ اگر کسی گاہک کو کوئی کتاب پسند آ جاتی تو بہرحال بابا نور دین اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ اکثر آنے جانے کی وجہ سے میری ان سے دعا سلام ہو گئی۔ بابا جی کی اہلیہ وفات پا چکی تھیں اور چار بیٹے تھے جو ماشاء اللہ برسرِ روزگار تھے۔ بابا جی کاہنہ میں اپنے آبائی گھر میں رہتے تھے اور ہر اتوار کو کتابوں کا تھیلہ بس میں لاد کر ٹی ہائوس کے باہر سجا لیتے۔ اس بات کو لگ بھگ دس بارہ سال گزر چکے ہیں۔ 
ہمارے محلے میں ایک بیوہ خاتون رہتی ہیں‘ لگ بھگ 55 سال کی ہو چکی ہیں‘ اولاد کوئی نہیں۔ اچانک پتا چلا کہ ان کی شادی ہو رہی ہے۔ یقین جانئے بہت خوشی ہوئی لیکن تجسس بھی ہوا کہ آخر دولہا کون ہے؟ میں نے بیگم سے فرمائش کی کہ کسی طرح دولہا کی تصویر تو حاصل کی جائے۔ فرمائش پوری ہوئی... اور دولہا کو دیکھ کر میں اچھل پڑا... یہ بابا نور دین تھے۔ مسرت کی ایک لہر دل میں دوڑ گئی۔ بابا نور دین اور بیوہ خاتون دونوں کو ایک دوسرے کا سہارا ملنے والا تھا۔ میں نے اس شادی کے لیے خاص طور پر تیاری کی تھی‘ سوچا تھا کہ بابا نور دین کی بارات میں اپنی گاڑی میں لے کر آئوں گا اور اس خوشی میں سارے دوست گانے بھی گائیں گے۔ لیکن دو دن پہلے ہولناک اطلاع ملی کی شادی کینسل ہو گئی ہے۔ یہ اطلاع میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ شادی کیوں کینسل ہو گئی؟ دونوں خوش تھے‘ دونوں رضامند تھے‘ پھر درمیان میں اچانک کیا ہو گیا؟؟؟ اب کی بار میں نے اماں جیراں کی خدمات حاصل کیں‘ اماں کا چونکہ محلے کے سب گھروں میں بلا تکلف آنا جانا ہے لہٰذا اماں سے 'باخبر ذریعہ‘ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد اماں پوری طرح تفتیش کرکے واپس آئی اور بتانے لگی کہ 'لڑکے‘ والوں کی طرف سے انکار ہوا ہے لیکن یہ پتا نہیں کہ کیوں ہوا ہے؟‘ میں سوچ میں پڑ گیا‘ بابا نور دین کو آخر اس شادی میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں نے کسی نہ کسی طرح بابا نور دین کا ایڈریس حاصل کیا اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ پتا چلا کہ وہ حکیم صاحب کے پاس جوڑوں کے درد کی دوا لینے گئے ہیں۔ میں نے حکیم کی دکان کا رخ کیا۔ وہاں دور سے ہی بابا نور دین بیٹھے نظر آ گئے۔ میں انہیں طویل عرصے بعد دیکھ رہا تھا‘ کافی کمزور ہو گئے تھے اور سر کے باقی ماندہ بال بھی جھڑ چکے تھے۔ میں نے قریب آکر انہیں جپھی ڈالی تو وہ بوکھلا گئے۔ پھر عینک درست کرتے ہوئے غور سے میری طرف دیکھا اور خوشی سے بھرپور آواز میں بولے ''اوئے...گل نخیز‘... بابا جی ہمیشہ مجھے 'نوخیز‘ کی بجائے 'نخیز‘ ہی کہہ کر بلاتے تھے۔
اُس روز میں اور بابا نور دین دیر تک گپیں مارتے رہے‘ چونکہ ہماری ملاقات افطاری کے بعد ہو رہی تھی لہذا بابا جی نے مجھے ایک پٹھان چائے والے کے کھوکھے سے اچھی سی چائے بھی پلائی۔ میں نے باتوں باتوں میں بابا جی سے پوچھا کہ سنا تھا آپ کی شادی ہو رہی ہے؟۔ بابا جی آہ بھر کر بولے ''آہو! ہو رئی سی ! پر ہن کھوہ کھاتے پے گئی اے (ہاں ہو رہی تھی لیکن اب کھوہ کھاتے پڑ گئی ہے)۔ میں نے تفصیل پوچھی تو بتانے لگے کہ ان کی اولاد نہیں مان رہی۔ سب کہتے ہیں ہم شرم سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے کہ ہمارا باپ اس بڑھاپے میں دوسری شادی کر رہا ہے۔ میں نے حیرت سے کہا 'بابا جی! شادی تو کسی بھی عمر میں کی جا سکتی ہے ‘ یہ تو عین اسلامی کام ہے‘ آپ اپنی اولاد کو سمجھاتے کیوں نہیں؟‘‘۔ بابا نور دین بھڑک اٹھا... ''خاک سمجھائوں‘ ساری رات کھانستا رہتا ہوں‘ اولادیں اپنی بیوی بچوں میں گم ہیں‘ کوئی میری بات سنتا ہی نہیں‘ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ کوئی میرے پاس رہے‘ میں اس سے باتیں کروں‘ اپنی تنہائی سے چھٹکارا پائوں... اسی لیے شادی کا سوچا تھا‘ لیکن بچوں نے ایسا واویلا مچایا ہے کہ میں نے توبہ کرلی ہے... اب باقی زندگی ایسے ہی گزارنی ہے‘ اس عمر میں آ کر فیصلے باپ نہیں بچے کرتے ہیں‘‘۔
یہ صرف بابا نور دین کا ہی المیہ نہیں... ہمارے ہاں روایت بن چکی ہے کہ جس کے بچے جوان ہو جائیں اسے دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے۔آپ کو بے شمار لوگ ایسے نظر آئیں گے جن کی پہلی بیوی وفات پا چکی ہے‘ بچے جوان ہو گئے ہیں اور وہ خود گھر کے ایک کونے میں اجنبیوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ شادی اس لیے نہیں کرنا چاہتے کہ انہیں عورت کی خواہش ہوتی ہے... انہیں تو بس ایک ساتھ چاہیے ہوتا ہے‘ وہ ساتھ جو اِن کے ساتھ جڑا ہوا ہو‘ اِن کی نظر کے سامنے ہو۔ یقین کیجئے اِن عمر رسیدہ لوگوں کے دلوں میں بھی ہزاروں ایسی باتیں ہوتی ہیں جو یہ اپنی اولاد سے کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن اولاد ان کی ایک ہی ٹیپ کو بار بار سن کر اکتا چکی ہوتی ہے۔ یہ بولنا چاہتے ہیں لیکن کوئی سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اوپر سے معاشرے کا عجب المیہ ہے کہ ایک سو فیصد اسلامی کام‘ جس کی مذہب میں کوئی ممانعت نہیں لیکن معاشرے نے اسے بدترین طنز اور مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔ یہ جو ہم آئے روز سنتے ہیں کہ اولاد نے باپ کو گھر سے نکال دیا ‘ یا ماں کو ایدھی ہوم چھوڑ آئے... یہ وہی اکیلے ماں باپ ہوتے ہیں جن کی جوڑی ٹوٹ چکی ہوتی ہے۔ معاشرہ ان کے ہاتھ میں تسبیح تھما کر انہیں اللہ اللہ کرنے پر لگا دیتا ہے اور یہ تنہائی کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ یہ اپنے آپ ہی میں گھٹ گھٹ کے مر جاتے ہیں لیکن شرم کے احساس سے کبھی شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کرتے۔ یہ جو بڑھاپے کی شادی ہوتی ہے یہ نسل بڑھانے کے لیے نہیں اپنی بات بڑھانے کے لیے ہوتی ہے‘ کسی کی ہمہ وقت موجودگی کے لیے ہوتی ہے۔آپ نے اکثر یہ خبر بھی پڑھی ہو گی کہ کسی بابا جی نے کسی بزرگ خاتون سے شادی کر لی۔ مجھے تو ایسے بابوں کی اولادیں بہت اچھی لگتی ہیں جو خوشی خوشی دادا جی کی شادی میں شریک ہوتی ہیں۔ زندگی کا ساتھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر مل سکتا ہے۔آج اگر ہم بزرگوں کے ملاپ کو طعنہ بنانا چھوڑ دیں تو یقین کریں بزرگوں کے 90 فیصد مسائل خودبخود حل ہو جائیں۔ یہ جو بوڑھے باپ گھر کی ڈیوڑھی میں پڑے بہوئوں کو آوازیں لگاتے رہتے ہیں ان کی زندگی میں دوسرا ساتھی آجائے تو یہ کبھی کسی کے محتاج نہ رہیں۔ یہ جو محبت کے لیے ترستی بزرگ بیوہ خواتین ہیں ان کو اگر سر کا تاج مل جائے تو اِنہیں شائد کبھی اولاد کے بے وفا ہو جانے کا غم نہ رہے۔ مسئلہ بڑا سادہ سا ہے... ہم نے اپنے بزرگوں کو مجرد زندگی کا عادی بنا دیا ہے۔ نہ ہم اُن کو ٹائم دے سکتے ہیں نہ کسی اور کو ان کی زندگی میں رنگ بھرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے شادی کو صرف جوانی کا فعل قرا ر دے دیا ہے۔ بڑھاپے میں یہ کام ہمیں گناہ لگنے لگتا ہے... معاشرہ کہتا ہے کہ بزرگ لوگ صرف شادیوں میں شرکت کرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ وقت سے پہلے کسی کو مارنے کا اچھا بہانہ ہے...!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں