پیش گوئیاں

فلم بہت اچھی تھی‘ ہم سب خوش تھے کہ کافی عرصے بعد سسپنس اور تھرل سے بھرپور ایک اچھی فلم دیکھنے کو ملی۔ فلم میں قتل پہ قتل ہوتے جا رہے تھے لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ قاتل کون ہے۔ ابھی فلم شروع ہوئے بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک نئے کردار کی انٹری ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی پاس بیٹھے ہوئے ہمارے دوست بٹ صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا ''اینے آخر وچ مر جانا اے‘‘... اور اس کے ساتھ ہی فلم کا بیڑا غرق ہو گیا۔
بٹ صاحب ایسا ہی کرتے ہیں‘ ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ حضور اگر فلم آپ نے دیکھی ہوئی ہو تو کم ازکم خاموش ہی رہ لیا کریں‘ لیکن وہ عادت سے مجبور ہیں‘ بڑی کوشش کر لیں تو بھی چھ سات منٹ بعد ان کی خاموشی خطا ہو جاتی ہے۔ فلم برباد کرنے میں بٹ صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی اسی عادت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ اب ہر فلم دیکھنے سے پہلے بٹ صاحب سے احتیاطاً پوچھا جائے گا کہ انہوں نے یہ فلم دیکھی ہوئی ہے یا نہیں؟ جواب اثبات میں آیا تو بٹ صاحب کو عزت و احترام سے باہر بھیج دیا جائے گا۔ لیکن یہ طریقہ بھی ناکام ہو گیا۔ بٹ صاحب نے فلم نہ بھی دیکھی ہو تو ان کی زبان پر خارش ہوتی رہتی ہے‘ سسپنس کے ہر مرحلے پر اچھل پڑتے ہیں اور کہانی بوجھنے کی کوشش میں فلم کا ستیاناس کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بٹ صاحب فلم کے ہر اہم سین کے دوران اچانک کوئی ایسی بات شروع کر لیتے ہیں کہ نہ فلم سمجھ آتی ہے نہ بٹ صاحب کی بات۔ پچھلے دنوں ایک فلم دیکھتے ہوئے اچانک ولن نے ریوالور نکالا اور ایک شخص کے پاس جا کر بولا ''اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے باپ کو میں نے کیوں مارا تھا؟‘‘۔ بٹ صاحب فوراً چلائے ''یار یہ بندہ تامل فلموں میں بھی کام کر چکا ہے اور اس کی ایک فلم تو بڑی مضحکہ خیز ہے جس میں اس نے ہیرو کا کردار ادا کیا ہے‘ اس کا نام بھی بڑا عجیب سا ہے‘ ذہن میں نہیں آرہا...‘‘ کمرے میں دوستوں کے دانت کچکچانے کی مشترکہ آواز گونجی اور بٹ صاحب یکدم سہم گئے۔ تاہم اتنی دیر میں ولن نے جو راز بتانا تھا‘ بتا دیا اور سین گزرگیا۔ بٹ صاحب نے فوراً میری طرف رخ کیا اور آہستہ سے بولے ''ولن کیا کہہ رہا تھا؟‘‘۔ میں نے بڑی مشکل سے آنسو ضبط کیے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا ''بٹ صاحب میری بددُعا ہے‘ اللہ کرے آپ کو دال چاول سے نفرت ہو جائے‘‘۔
ایسے لوگ آپ کے علم میں بھی ہوں گے‘ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فلم کا ہر سین بُوجھ لیا جائے اور دوستوں سے داد طلب کی جائے۔ یہ سسپنس سے بھرپور فلم دیکھتے ہوئے ''شرلاک ہومز‘‘ بن جاتے ہیں اور ہر چھ منٹ بعد فلم کے بارے میں نیا انکشاف کرتے ہیں تاکہ اِن کی عقابی نظروں کی دھاک سب پر بیٹھ جائے۔ اگر انہوں نے فلم پہلے سے دیکھی ہوئی ہو تو اِن سے بڑا عذاب کوئی نہیں ہوتا۔ کئی دفعہ فلم کے سٹارٹ میں ہی بتا دیتے ہیں کہ ''یہ بندہ اصلی قاتل ہو گا‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی ناول پڑھنے کے لیے دیا جائے تو یہ سب سے پہلے اس کا آخری صفحہ پڑھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے سامنے ہر راز فوراً طشت از بام ہو جائے‘ جن چیزوں کا انہیں پتا بھی نہیں ہوتا ان کے بارے میں تمام ممکنہ اندازے ظاہر کر دیتے ہیں تاکہ بعد میں یہ کریڈٹ لے سکیں کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا ایسا ہو گا۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک صاحب نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے شک ہے کہ میں اور میرا بیٹا ولی اللہ ہیں۔ پوچھا وہ کیسے؟ فرمایا‘ وہ کہتا ہے کل بارش ہو گی‘ میں کہتا ہوں نہیں ہو گی... کبھی اُس کا کہا سچ نکل آتا ہے‘ کبھی میرا...!!!
پیش گوئیاں کرنے میں ہماری قوم بے مثال ہے۔ میرا ایک دوست گزشتہ بیس سال سے ایک ایسی پیش گوئی کرتا چلا آ رہا ہے جو ہر دفعہ سچ ثابت ہوتی ہے۔ موصوف رمضان شروع ہوتے ہی اعلان کر دیتے ہیں کہ ایک ماہ کے بعد عید ہو گی۔ تاہم سیاسی قسم کی پیش گوئیوں کے معاملے میں وہ ہمیشہ دو مختلف رائے دیتے ہیں۔ مثلاً مشرف دور میں انہوں نے کہا تھا کہ مشرف صاحب استعفیٰ دے بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ جب مشرف نے استعفیٰ دے دیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی‘ بار بار اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے جس نے انہیں مستقبل بینی کی نعمت سے نوازا۔ ایسے لوگوں کی پیش گوئی اگر غلط ثابت ہو جائے تو ان کے پاس اس کا بھی شافی علاج موجود ہوتا ہے۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو میرے دوست نے پیش گوئی کی کہ دس دن کے اندر اندر انڈیا اور پاکستان کی جنگ شروع ہو جائے گی اور بڑی تباہی ہو گی۔ جب کچھ نہ ہوا تو اطمینان سے بولا ''جنگ شروع ہونے ہی والی تھی لیکن امریکہ کی وجہ سے نہیں ہو سکی‘‘۔ ایسے لوگوں کو آپ کبھی بھی شرمندہ نہیں کر سکتے‘ ان کی پیش گوئی سچ نکلے یا جھوٹ‘ یہ ہر حال میں سرخرو نظر آتے ہیں۔
بٹ صاحب بھی پیش گوئیاں کرنے میں ماہر ہیں‘ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ ایسی باتوں کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں جن کی تصدیق کوئی مائی کا لعل نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک دن کہنے لگے ''70 سال بعد افریقہ پاکستان کا حصہ بن جائے گا‘‘۔ سب حیران ہو گئے کہ کہاں افریقہ‘ کہاں پاکستان... سوال کیا گیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو؟ اطمینان سے بولے ''نہ ہویا تے مینوں پھانسی دے دینا‘‘۔ بٹ صاحب کی مشہور زمانہ پیش گوئیاں درج ذیل ہیں ''ڈیڑھ سو سال بعد امریکہ کا صدر ایک پاکستانی ہو گا... تین سو سال بعد 15 جولائی کو ناروے اور بنگلہ دیش میں فٹ بال کا میچ ہو گا... پانچ سو سال بعد موبائل گیلی مٹی سے چارج ہوا کریں گے۔ بٹ صاحب کا دعویٰ ہے کہ کسی میں ہمت ہے تو ان کی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرکے دکھائے۔ مجھے اعتراف ہے کہ جناب بالکل درست فرما رہے ہیں۔
پیش گوئیوں کا شوق ہر کسی کو ہوتا ہے‘ فی زمانہ خواہش اور جذبات کے مکسچر کا نام پیش گوئی ہے۔ آپ بہت بڑے بزنس مین سے لے کر فقیر تک کوئی بات پوچھ کر دیکھیں‘ ایسی ایسی پیش گوئی سننے کو ملے گی کہ دماغ چکرا جائے گا۔ پہلے لوگ اندازے لگایا کرتے تھے اب سیدھی سیدھی پیش گوئی کر دیتے ہیں۔ کئی احباب تو اتنے یقین سے پیش گوئی کرتے ہیں کہ لگتا ہے‘ یہ کام ہونے والا نہیں بلکہ ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی پیش گوئیاں لوگ کیوں کرتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ اس سے فوری توجہ آپ کی طرف مبذول ہو جاتی ہے‘ آپ معتبر لگنے لگتے ہیں‘ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی بات کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ کئی لوگوں کی پیش گوئیوں کا اہم ترین سورس ''ایک شخص‘‘ ہوتا ہے۔ یہ اکثر بتاتے ہیں کہ آج میں تندور سے روٹیاں لینے گیا تو وہاں ''ایک شخص‘‘ کہہ رہا تھا کہ پولیو کے قطرے پلانے سے بچے بڑے ہو کر ماں باپ کے گستاخ ہو جاتے ہیں... پٹرول پمپ پر ''ایک شخص‘‘ بتا رہا تھا کہ ایئرپورٹ پر خلائی مخلوق نے قبضہ کر لیا ہے... سبزی والے کی دکان پر ''ایک شخص‘‘ بتا رہا تھا کہ کریلے کھانے سے کینسر ہو جاتا ہے۔ یہ ''ایک شخص‘‘ کون ہے؟ کچھ پتا نہیں‘ لیکن اس کی بات پر سب کے دلوں پر اثر کرتی ہے‘ سبھی اس کی بات آگے پھیلانا صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں۔ یہی وہ ''ایک شخص‘‘ ہے جو لوگوں کے بڑھتے ہوئے بلڈ پریشر کا ذمہ دار ہے‘ اسی ''ایک شخص‘‘ کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں عذاب بنی ہوئی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں