واجب القتل

میں خوابوں اور خیالوں میں کچھ لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہوں‘ مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔ یقین کیجئے یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں... لیکن ایک منٹ... میں پہلے آپ کو ان کے ''کرتوت‘‘ بتاتا ہوں۔ یہ لوگ پاکستان میں پیدا ہوئے‘ یہاں تعلیم حاصل کی‘ لیکن روزگار نہیں ملا تو پاکستان سے باہر چلے گئے۔ میری مستند معلومات کے مطابق باہر کے ممالک میں جاتے ہی ان کو بوریوں میں بھر کر نوٹ پیش کیے گئے اور رہنے کے لیے بہترین محلات دیئے گئے۔ اب یہ لوگ باہر عیش کر رہے ہیں۔ مزے سے رہتے ہیں‘ لمبے نوٹ کماتے ہیں اور سکون کی نیند سوتے ہیں۔ خود ہی بتائیے کیا ایسے مالدار لوگوں سے کوئی میرے جیسا غریب آدمی چار پانچ لاکھ روپے مانگ لے تو بری بات ہے؟ آخر کیوں یہ لوگ ہم جیسوں کو دھتکار دیتے ہیں۔ میں ایسے ہی بے حس لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے پتا چلا ہے کہ غیر ممالک میں رہنے والے ہمارے ان پاکستانی بھائیوں کے گھروں میں جو درخت لگے ہوئے ہیں ان پر بھی نوٹ لگتے ہیں۔ اس کے باوجود پتا نہیں یہ باہر جاکر اتنے کنجوس کیوں ہو جاتے ہیں؟ یہ تو اتنے پتھر دل ہیں کہ ان کو اگر کوئی یہ بھی بتائے کہ میں نے تین ماہ کا کرایہ نہیں دیا اور مالک مکان میرا سامان باہر پھینکوانے لگا ہے تب بھی ان کا دل موم نہیں ہوتا۔ آگے سے ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ اللہ توبہ! کہتے ہیں ہم پردیس میں محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ایک کمرے میں چھ چھ بندے سوتے ہیں‘ بارہ بارہ گھنٹے کھڑے ہوکر کام کرنا پڑتا ہے... سب بکواس! مجھے پتا ہے یہ وہاں بادشاہوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں‘ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ان کی جیبیں ہر وقت ڈالروں‘ پائونڈوں‘ یورو اور ریالوں سے بھری رہتی ہیں... لیکن خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ پیسہ آتے ہی انہوں نے اپنے ہم وطنوں سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ بہانے بناتے ہیں کہ ہم اگر ڈالر میں کماتے ہیں تو خرچ بھی ڈالر میں ہی کرتے ہیں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی‘ بھئی ڈالر میں کماتے ہو تو تمہیں چاہیے پاکستانی کرنسی میں خرچ کرو تاکہ بچت ہو۔ ہمیں بیوقوف بناتے ہو؟ ہمیں سب پتا ہے تم وہاں برانڈڈ سوٹ پہنتے ہو‘ پب میں جاتے ہو‘ تمہاری تنخواہیں کروڑوں میں ہیں... لیکن تمہارے دل بہت چھوٹے ہیں۔ کوئی پاکستانی تم سے پیسے مانگ لے تو تم ایسے ایسے ڈرامے کرتے ہو کہ لگتا ہے جیسے تم وہاں بہت سخت زندگی گزار رہے ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں‘ میرے مستند بلکہ قابل اعتماد بلکہ یقینی ذرائع نے بتایا ہے کہ تمہارے تکیوں میں بھی ڈالرز بھرے ہوتے ہیں‘ تمہاری جرابیں بھی پائونڈوں سے لبریز ہوتی ہیں... اور تو اور مجھے پتا چلا ہے تم لوگ وہاں روزانہ صرف پندرہ بیس منٹ کام کرکے مہینے بعد نوٹوں کا بیگ وصول کر لیتے ہو۔
میں پھر بتا رہا ہوں کہ میں خوابوں اور خیالوں میں ایسے لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ہم جیسوں کے بالکل بھی کام نہیں آتے۔ انہیں چاہیے کہ ہر مہینے دوستوں عزیزوں کو بھی کم ازکم آٹھ دس لاکھ روپے کے گفٹ ضرور بھیجیں۔ ان کا فرض ہے کہ یہ جب بھی پاکستان آئیں‘ ہمارے لیے گھڑیاں‘ موبائل‘ سونے کی اینٹیں اور دو گھوڑا بوسکی کے سوٹ لایا کریں۔ یہ لوگ باہر گئے ہیں تو کسی وجہ سے ہی گئے ہوں گے ناں‘ ہمیں سب پتا ہے یہ وہاں سے اپنے بیوی بچوں کو ہر روز پیسے بھیجتے ہیں‘ محنت مزدوری کا تو بہانا ہے‘ اصل میں تو ان کی لاٹری لگی ہوئی ہے۔ دوستو! بزرگو! یہ جو لوگ باہر جاتے ہیں ناں، ان کو جاتے ہی عالیشان گھر الاٹ ہو جاتا ہے‘ باہر کے ممالک کی حکومتیں ان کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہیں‘ یہ جونہی جہاز سے اترتے ہیں ان کو لینے کے لیے مرسڈیز کاریں آجاتی ہیں۔ ان کو بجلی کا بل بھی نہیں دینا پڑتا‘ ان کے گھر کی موٹر بھی خراب ہو تو
مستری مفت میں آکر ٹھیک کر دیتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں ہم سے چھپاتے ہیں۔ یہ اسی لیے اپنے رشتہ داروں کو باہر نہیں لے کر جاتے کہ کہیں ان کا رشتہ دار بھی اِن کی طرح امیر کبیر نہ ہو جائے۔ یہ بڑے میسنے ہوتے ہیں‘ پتا نہیں انہوں نے اتنا پیسہ کما کر کیا کرنا ہے‘ کاش انہیں کوئی بتائے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی‘ جیب صرف دوستوں عزیزوں کی ہوتی ہے بلکہ بعض کی تو پوری جھولی جیب ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں رتی برابر احساس نہیں کہ ان کا غریب رشتہ دار ایک اے سی کا بل بھی بمشکل ادا کر پاتا ہے‘ یہ چاہیں تو ہر مہینے اسے بجلی کے بلوں سے نجات دلا سکتے ہیں‘ اسے کم ازکم دس مرلے کا گھرخرید کر دے سکتے ہیں‘ اس کا تین چار لاکھ روپے ماہانہ وظیفہ لگا سکتے ہیں لیکن کہاں جی... یہ تو اپنی ہی خرمستیوں میں مگن ہیں۔ ان کی دولت کے ایک ایک پیسے کا حساب ہو گا‘ روزِ قیامت جب یہ جہنم کے شعلوں میں جلائے جائیں گے‘ تو یقینا ہم جیسے غریب‘ پاکیزہ لوگ جنت کے مزے لوٹ رہے ہوں گے۔
کبھی کبھی بہت دکھ ہوتا ہے کہ یہ باہر کے ممالک میں نوکریاں کرنے والے آخر کیوں اتنے بے درد ہوتے ہیں۔ جب یہ ہزاروں ڈالر روزانہ خرچ کرکے نشے میں دھت‘ قیمتی بیڈ پر لیٹتے ہوں گے تو کیا ان کے ذہن میں خیال آتا ہو گا کہ سمندر پار ان کا کوئی رشتہ دار‘ کوئی دوست کیسے اپنا پیٹ کاٹ کر نئی گاڑی کی قسطیں ادا کر رہا ہو گا‘ کیسے دو ڈبیاں سگریٹ افورڈ کر رہا ہو گا‘ کیسے بچوں کو پیزا کھلاتا ہو گا‘ کیسے چند ٹکوں کی خاطر آئی فون سیون کو ترس رہا ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کو ایسا کوئی خیال آتا ہو گا‘ عیاش لوگوں کو ایسے خیالات آہی نہیں سکتے۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ اللہ نے ان کی سن لی اور یہ آرام سے ترقی یافتہ ممالک میں شاہانہ زندگی گزارنے چلے گئے‘ لیکن ان کو ذرا شرم نہیں آئی کہ ذرا اپنے پیچھے والوں پر بھی نظر ڈال لیں۔ سمندر سے اگر چڑیا ایک چونچ پانی بھر لے تو سمندر کا کیا جاتا ہے؟ 
یہ وہ کم شناس لوگ ہیں جو دولت پہ مر گئے ہیں‘ انہیں ہمارے خلوص کی قیمت کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ ان کے دل میں ذرا سی بھی خدا خوفی ہوتی تو یہ اپنے ہر رشتہ دار کو کم ازکم تین اینٹیں سونے کی ضرور بھیجتے‘ ہر رشتہ دار کے ایک بچے کو اپنے پاس ضرور سیٹل کراتے... اور کچھ نہیں تو کم ازکم عمر رسیدہ عزیزوں کو چار پانچ عمرے ہی کروا دیتے‘ انہی کو ثواب ملنا تھا۔ لیکن افسوس... صد افسوس! یہ دولت کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے خود غرض لوگ صرف اپنا ہی سوچتے ہیں‘ ان کے لیے سب کچھ یہ خود ہی ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ آپ کی بڑی مہربانی‘ آپ پاکستان آتے ہیں تو ہمارے لیے تھرڈ کلاس شیمپو‘ آفٹر شیو لوشن اور بدبودار پرفیوم لانے سے گریز کریں‘ ہمیں نہیں چاہئیں یہ چیزیں... ہم انا پرست لوگ ہیں‘ ہم کیوں غیر مسلموں سے کمائی ہوئی آپ کے حرام کی کمائی میں شریک بنیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم روکھی سوکھی کھا کر بھی بہت خوش ہیں اور مہینے میں تین چار بار سکون سے سوتے ہیں۔ آپ سنبھالئے اپنا سرمایہ‘ قبر میں ساتھ لے جائیے گا۔ ہم کوئی بھوکے ننگے نہیں کہ آپ کے بھروسے پر بیٹھے رہیں‘ ہم قناعت پسند لوگ ہیں‘ محنت کرتے ہیں اور محنت کی کھاتے ہیں‘ آپ کی طرح نہیں کہ کرتے کراتے کچھ ہیں نہیں اور تجوریاں بھرتے جا رہے ہیں... اور ہاں کبھی خدا کو بھی یاد کر لیا کریں‘ وہاں تو ظاہری بات ہے آپ کو نائٹ کلبوں سے ہی فرصت نہیں ملتی ہو گی۔ کاش ہمارا ویزہ ریجیکٹ نہ ہوتا... کاش ہم بھی باہر جا سکتے... لیکن ہم کیوں جائیں‘ بھاڑ میں گئے باہر کے ممالک‘ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے۔ پاکستان زندہ باد!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں