سری

دنیا میں جتنے انسان ہیں اتنی ہی''سریاں‘‘ ہیں۔ بلکہ جتنے بھی چرند پرند ہیں وہ بھی سریاں رکھتے ہیں۔ بکرے کی سری تو پکائی جاتی ہے اور سنا ہے بڑی مزیدار ہوتی ہے۔ گائے اور اونٹ کی سریاں بھی مارکیٹ میں عام دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ایک سری ایسی ہے جو نہ کسی دکان پر ملتی ہے نہ کسی جاندار کے سر پر ہوتی ہے۔ یہ ہے ''سری لنکا‘‘۔ ایک اور بھی سری ہے ''سری دیوی‘‘ جس کی فلمیں دیکھ دیکھ کر جوانی میں ہی یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ سری ہو تو اِس دیوی جیسی...!!!
میں نے محلے کے قصائی سے پوچھا ''کبھی تم نے کوئی ایسی سری دیکھی جو سب سے الگ ہو؟‘‘ کہنے لگا ''دیکھی تو نہیں البتہ اس کے بارے میں سنا بہت ہے‘‘۔ میں نے بے چین ہو کر پوچھا ''کیا نام تھا ہے اُس سری کا؟‘‘۔ گہری سانس لے کر بولا ''بال پوائنٹ کی سری‘‘۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی ''بال پوائنٹ کی سری؟ لیکن بال پوائنٹ تو ایک پین ہے‘‘۔ اُس نے سر کھجایا اور بولا ''تو پھر کیا ہوا... جس طرح انسان کی گردن پر ایک سری ہوتی ہے اسی طرح بال پوائنٹ پین کی کیپ پر موجود آخری سرا بھی سری کہلایا جا سکتا ہے‘‘... عجیب بونگیاں مار رہا تھا ‘ میں نے مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
آج کل پورا معاشرہ مختلف سریوں کا شکار ہے۔ کوئی کسی کی سری اتارنے کے درپے ہے اور کوئی اپنی سری اونچی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب انسان کے سر کو سر ہی کہا جاتا تھا‘ آج کل سری کہا جاتا ہے۔ جس طرح بکرا عید پر گلی گلی سریاں مانگنے والے پھرتے ہیں اسی طرح انسانی سریوں کے متلاشی بھی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ انہیں جہاں بھی اپنا کوئی مخالف نظر آتا ہے اس کے پیچھے سری لے کر پڑ جاتے ہیں۔ اس بدلتے موسم میں شاعروں نے بھی گلاب‘ پنکھڑی اور محبوب کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سری کو اپنا موضوع سخن بنا لیا ہے۔ کل ایک مشاعرے میں ایک شاعر کو بڑی داد مل رہی تھی‘ موصوف فرما رہے تھے ''غم ہے یا خوشی ہے تو... بکرے دی سری ہے تو‘‘۔ لاحول ولا قوۃ! محبوب کی ایسی تشبیہ اُردو شاعری میں دور دور تک نہیں ملتی۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ‘ کم بخت گانوں میں بھی سری گھس آئی ہے۔ ریڈیو لگایا تو اخلاق احمد کی آواز میں گانا لگا ہوا تھا ''سونا نہ چاندی نہ کوئی سری جان من! تجھ کو میں‘ دے سکوں گا‘‘۔ میں نے فوراً ریڈیو سٹیشن فون کرکے شکایت بھی لگائی کہ آخر اخلاق احمد جیسے مہان گلوکار کے گائے ہوئے گانے میں اس بیہودہ تبدیلی کا کیا مقصد؟ لیکن جواب ملا کہ گانے میں ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ لیکن میں کیسے یقین کر لوں؟ میں نے خود سنا تھا... سری ہی تھا...!!
لوگ کہتے ہیں میرا دماغی توازن متاثر ہو گیا ہے‘ اسی لیے مجھے ہر چیز میں سری نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے شاید ایسا ہی ہو‘ لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میں گوشت لینے جائوں تو مجھے لگتا ہے قصائی کے پھٹے پر پڑی سریاں مجھے گھور رہی ہیں۔ مصری کی ڈلی بھی دیکھوں تو یکدم ذہن میں آتا ہے کہ بولنے میں تو اِس میں بھی ''سری‘‘ آتا ہے۔ یقین کیجئے اب مجھے بھولی بسری یادیں بھی محض ''سری‘‘ کی وجہ سے نہیں آتیں۔ کچھ دوستوں کے سمجھانے پر میں نے ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا اور اسے اپنا مسئلہ بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے تین ہزار فیس وصول کی اور اطمینان سے مجھے اپنے کمرے میں لے گئے۔ ایک آرام دہ صوفے پر بٹھایا اور کہنے لگے ''اپنے اعصا ب ڈھیلے چھوڑ دیجئے اور پرسکون ہو جائیے‘‘۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے بڑے دھیمے انداز میں پوچھا ''کیا بچپن میں آپ کو سری سے ڈر لگتا تھا؟‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے کچھ دیر سوچا پھر پوچھا ''یہ ڈر آپ کو کب سے لگنا شروع ہوا؟‘‘۔ 
میں نے بے چینی سے کہا ''ڈر تو مجھے لگتا ہی نہیں... میرا پرابلم تو یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے ہر چیز میں لفظ ''سری‘‘ استعمال ہونے لگا ہے۔ مثلاً جب کوئی مجھے کہتا ہے کہ ٹو دی پوائنٹ بات کرو تو مجھے سنائی دیتا ہے کہ ٹو دی سری بات کرو۔ اسی طرح جب میں فلم ''اِن دی لائن آف ڈیوٹی‘‘ دیکھ رہا تھا تو مجھے لگا جیسے فلم کا نام ''اِن دی سری آف ڈیوٹی‘‘ ہے۔ ''دی ممی‘‘ فلم بھی مجھے ''دی سری‘‘ لگتی ہے۔ بتائیے میں کیا کروں؟‘‘۔ ماہر نفسیات صاحب گہری سوچ میں گم ہو گئے‘ پھر کہنے لگے ''آنکھوں پر ہاتھ رکھئے پلیز‘‘۔ میں نے جلدی سے اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ وہ غرائے ''میری نہیں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھئے‘‘۔
''اوہ سوری‘‘... میں نے جلدی سے کہا‘ اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے...!!! کچھ دیر خاموشی رہی‘ پھر میرے کانوں میں اُن کی آواز آئی ''اوپن دی سری‘‘... میرے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ میری بدحواسی دیکھ کر وہ بھی بدحواس ہو گئے۔ کچھ دیر ہم دنوں بدحواسی میں اِدھر اُدھر دیکھتے رہے‘ پھر وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولے ''کیا ہوا؟‘‘۔
میں غصے میں آ گیا ''ہونا کیا ہے... آپ نے بھی وہی سری سری والی گردان شرو ع کر دی‘‘۔
وہ سٹپٹا گئے۔ بولے: ''میں نے کب سری کہا؟ میں نے تو صرف اتنا کہا کہ Open the eyes ‘‘۔ 
میں سیدھا کھڑا ہو گیا ''تو گویا میں جھوٹ بول رہا ہوں؟‘‘۔ وہ دانت پیس کر بولے ''جی ہاں! کیونکہ آپ کا دماغ ''دی‘‘ کے بعد صرف''سری ‘‘ کا لفظ سننے کا عادی ہو چکا ہے‘‘۔ میرے ذہن میں گویا ایک جھماکا سا ہوا‘ ماہر نفسیات کی بات نے میرے دماغ کی کئی گرہیں یکدم کھول دی تھیں‘ میں نے کچھ دیر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ واقعی میری زیادہ تر سماعت ''دی‘‘ کے بعد والی ''سری‘‘ کو سن رہی تھی۔ میں نے ماہر نفسیات سے ریکوئسٹ کی کہ پلیز وہ ایک دفعہ میرے سامنے کوئی ایسا جملہ بولے‘ جس میں THE آتا ہو۔ اُس نے قدرے تحمل سے کہا ''وٹ از دی سری؟‘‘۔ میں نے مٹھیاں بھینچیں ''ڈاکٹر صاحب مریض میں ہوں آپ نہیں... آپ نے سری نہیں کہنا‘‘۔ وہ چلائے ''میں نے سری نہیں کہا... میں نے کہا تھا what is the problem ۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ میرا مسئلہ سمجھ گئے۔ انہوں نے مجھے دو منٹ میں سمجھا دیا کہ اب یہ سری کبھی میرے دماغ سے نہیں نکل سکتی کیونکہ اس کے اثرات بہت گہرے ہو چکے ہیں۔ جب تک میں کسی کا جملہ دوسری دفعہ نہیں سنوں گا‘ سری موجود رہے گی۔ آج صبح ان کا فون آیا تھا‘ بتا رہے تھے کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں‘ مزید بیس مریض اسی مرض میں مبتلا ہو کر آئے ہیں۔ ہر کسی کو سری کی بیماری لگ گئی ہے۔ یہ خبر میرے لیے خاصی حوصلہ افزا تھی‘ گویا میں اکیلا نہیں تھا۔ گھر واپسی پر اپنے ہی دھیان میں آ رہا تھا کہ گلی میں ایک گھڑی گری ہوئی دیکھی۔ چونک کر اٹھائی اور اِدھر اُدھر دیکھا... سامنے محلے کے مولوی صاحب جا رہے تھے۔ مجھے شک گزرا کہ یقینا یہ گھڑی اُنہی کی جیب سے گری ہو گی۔ جلدی سے بھاگ کر ان کے پاس پہنچا اور ادب سے پوچھا ''آپ کی جیب سے گھڑی تو نہیں گری؟‘‘۔ مولوی صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا‘ نتھنے پھلا کر بولے ''کیا کہا؟... کس کی سری؟‘‘

آج کل پورا معاشرہ مختلف سریوں کا شکار ہے۔ کوئی کسی کی سری اتارنے کے درپے ہے اور کوئی اپنی سری اونچی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب انسان کے سر کو سر ہی کہا جاتا تھا‘ آج کل سری کہا جاتا ہے۔ جس طرح بکرا عید پر گلی گلی سریاں مانگنے والے پھرتے ہیں اسی طرح انسانی سریوں کے متلاشی بھی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ انہیں جہاں بھی اپنا کوئی مخالف نظر آتا ہے اس کے پیچھے سری لے کر پڑ جاتے ہیں۔ اس بدلتے موسم میں شاعروں نے بھی گلاب‘ پنکھڑی اور محبوب کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سری کو اپنا موضوع سخن بنا لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں