ڈنگر ڈاکٹر

بات کچھ یوں ہے کہ میرے ایک جاننے والے انتہائی کوالیفائیڈ سرجن ڈاکٹر ہیں‘ لیکن آج کل اُنہیں خود ایک اچھے ڈاکٹر کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے۔ پانچ چھ سال پہلے تک ڈاکٹر صاحب بالکل ٹھیک تھے‘ مریضوں کا علاج کرتے تھے اور دُعائیں لیتے تھے۔ لیکن پھر ایک دن جب و ہ سو کر اُٹھے تو اُن کی کایا پلٹ گئی۔ ڈاکٹری سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔ انہوں نے پراسرار علوم سیکھنے شروع کر دیے اور اپنی محنت سے اس حد تک آگے نکل گئے کہ ایک دن میں تین چار درجن پیش گوئیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی۔ ڈاکٹر صاحب کو یقین ہو چلا ہے کہ انہیں کشف حاصل ہو گیا ہے لہٰذا انہوں نے اپنے کلینک کو آستانے میں بدل دیا ہے۔ محلے میں کہیں چوری ہو جائے‘ ڈکیتی ہو جائے‘ کوئی اغوا ہو جائے... ڈاکٹر صاحب ایک منٹ میں بتا دیتے ہیں کہ مجرم کون ہے۔ چونکہ وہ اصلی والے ڈاکٹر بھی ہیں اور روحانی معالج بھی لہٰذا وزیٹنگ کارڈ پر ''روحانی ڈاکٹر‘‘ لکھواتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں اہل محلہ نے ان کا نام 'ڈنگر ڈاکٹر‘ مشہور کر رکھا ہے حالانکہ وہ ویٹرنری ڈاکٹر ہرگز نہیں۔
کافی عرصہ پہلے محلے میں ایک نوجوان کی موٹر سائیکل چوری ہوئی۔ کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کون لے گیا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے آستانے پر چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی میز کی دراز سے ایک 'اسپرین‘ کی گولی نکالی... اُس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور گولی نوجوان کو پکڑاتے ہوئے فرمایا ''اسے پانی میں گھول کر پانی اُس جگہ انڈیل دو جہاں سے موٹر سائیکل چوری ہوئی ہے‘ پھر مجھے آ کر بتائو کہ تم نے کیا دیکھا‘‘۔ بیس منٹ بعد نوجوان واپس آیا اور بتایا کہ اُس نے کچھ نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر ایک چمک نمودار ہوئی اور جھوم کر بولے ''یعنی ثابت ہوا کہ موٹر سائیکل تمہارے سالے نے چوری کی ہے‘‘۔ نوجوان نے کنپٹی کھجائی ''لیکن ڈاکٹر صاحب میری تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی۔‘‘ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب بھڑک اٹھے ''نہیں ہوئی تو فوراً کرو... جو تمہار ا سالا بنے گا‘ موٹر سائیکل اُسی سے برآمد ہو گی۔‘‘ نوجوان نے عقیدت سے سرشار ہو کر اگلے ہی دن گھر میں ڈیمانڈ کر دی کہ چونکہ مجھے موٹر سائیکل چاہیے لہٰذا میری شادی کی جائے۔ گھر والے سمجھے شاید لڑکا جہیز کے لالچ میں شادی پر تُل گیا ہے۔ بہت سمجھایا کہ جہیز ایک لعنت ہے لیکن نوجوان اپنی ضد پر قائم رہا۔ مجبوراً قریبی رشتہ داروں میں اس کی شادی کر دی گئی۔
ولیمے کی رات نوجوان نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنے سالے کے خلاف موٹر سائیکل چوری کا پرچہ کٹوا دیا۔ جونہی پولیس نے ان کے سالے کو گرفتار کیا‘ بیگم نے خلع کی درخواست دائر کر دی۔ بیس دن بعد پتا چلا کہ موٹر سائیکل برآمد ہو گئی ہے لیکن چور اُن کا سالا نہیں بلکہ کسی دوسرے محلے کا رہائشی ہے۔ نوجوان غصے سے بھرا فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا اور ان کی اہلیت پر انگلی اٹھائی۔ ڈاکٹر صاحب نے سٹیتھو سکوپ گلے میں ڈالا اور لال لال آنکھیں اٹھا کر غرائے ''چور بھی تو کسی کا سالا ہو گا...‘‘۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہ جواب سن کر نوجوان نے اپنے سر میں خاک ڈال لی اور دیوانہ وار قہقہے لگاتا ہوا جنگل کی طرف نکل گیا... واللہ اعلم بالصواب...!!!
یہ اطلاع بھی ڈاکٹر صاحب نے ہی دی تھی کہ محلے میں رات کو ''گرم آنڈے‘‘ بیچنے والا شخص ''را کا ایجنٹ‘‘ ہے۔ سارا محلہ محتاط ہو گیا اور فوراً انتظامیہ کو اطلاع دی گئی۔ انڈے بیچنے والا گرفتار ہوا اور جب تحقیق کی گئی تو انیس بیس کے فرق سے ڈاکٹر صاحب کا کہا سو فیصد سچ پایا گیا۔ ملزم گرمیوں میں 'گنے کی رو‘ کی ریڑھی لگاتا تھا اور اسی'رو‘کی نسبت سے 'را‘ سے اس کے تعلقات کی تائید ہو رہی تھی۔
محلے میں سر کٹے انسان کے متعلق بھی ڈاکٹر صاحب نے ہی بتایا تھا کہ رات ڈیڑھ بجے کے بعد گلیوں میں ایک شخص اپنا سر ہاتھ پر لیے گھومتا ہے اور جو بھی اس کے سامنے آتا ہے اسے کچا چبا جاتا ہے۔ نتیجتاً سارے محلے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ٹھیکری پہرہ دیا جانے لگا اور حال یہ ہو گیا کہ اندھیرے میں دور سے کسی شخص کا چہرہ نظر نہ آتا تو پہرہ دینے والوں کو فوراً یقین ہو جاتا کہ یہی وہ سر کٹا انسان ہے۔ سب اپنی اپنی ڈانگیں مضبوطی سے پکڑ لیتے اور چیخیں مار کر بھاگ جاتے۔ اس دوران کئی مشتبہ افراد پکڑے بھی گئے اور ان کے سروں کا معائنہ بھی کروایا گیا کہ شاید نقلی سر لگایا ہو لیکن اصل بندہ ہاتھ نہ آیا۔ دو ماہ بعد ڈاکٹر صاحب نے محلے میں خوشخبری سنائی کہ اب گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اُن کے خصوصی عمل سے گھبرا کر‘ سر کٹا انسان کل رات کی فلائٹ سے نیوزی لینڈ چلا گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی کئی پیش گوئیاں درست بھی ثابت ہو چکی ہیں‘ مثلاً انہوں نے 29 دسمبر کو واشگاف انداز میں بتا دیا تھا کہ دو دن بعد نیا سال چڑھ جائے گا... اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ایک دفعہ کسی کی شادی پر گئے تو دولہا کے باپ کے کان میں آہستہ سے بتا دیا کہ یہاں سے کچھ غائب ہونے والا ہے۔ دولہا کے باپ نے کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن اگلے دن وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی عظمت کا قائل ہو گیا جب ٹینٹ سروس والوں نے اُسے بتایا کہ دو چمچے اور ایک گلاس غائب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے محلے کے تمام لوگوں کے مسائل بیک وقت حل بھی ہو جاتے ہیں اور بڑھ بھی جاتے ہیں۔ حاجی صاحب کے والد گرامی فوت ہوئے تو دس دن بعد ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ آپ کے والد صاحب نہ صرف زندہ ہیں بلکہ قبر میں آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔ حاجی صاحب تڑپ اٹھے، فوراً قبر کشائی کروائی لیکن والد صاحب ابدی نیند سوتے ہوئے پائے گئے۔ ڈاکٹر صاحب سے شکوہ کیا تو انہوں نے فرمایا ''میرا کام خبر دینا تھا‘ تحقیق کرنا نہیں‘‘...
فوراً اہل محلہ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا جس میں متفقہ طور پر طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب کی بے پایاں خدمات کے اعتراف کے طور پر اور کچھ نہیں تو کم از کم کوئی اچھا سا لقب انہیں ضرور عطا کیا جائے۔ چار گھنٹے کے اجلاس میں بہت سے خوبصورت نام زیرِ غور آئے... مثلاً منحوس‘ بغلول‘ فراڈیا‘ دو نمبر‘ چپڑ قناطیہ وغیرہ... لیکن کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ نام ڈاکٹر صاحب کے شایانِ شان نہیں‘ اُن کے لیے کوئی ایسا نام ہونا چاہیے جس سے ایک لمحے میں ان کی شخصیت روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہو جائے۔ ایک تجویز آئی کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئیاں انتہائی ڈینجرس ہوتی ہیں لہٰذا انہیں ''ڈینجر ڈاکٹر‘‘ کے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ مقامی ہائی سکول کے انگریزی کے استاد ماسٹر نذیر نے اس پر اعتراض کیا کہ انگلش کی انشا پردازی کے اصولوں کے تحت ''ڈینجرس ڈاکٹر‘‘ تو ٹھیک ہے لیکن ''ڈینجر ڈاکٹر‘ کوئی نام نہیں بنتا۔ انہوں نے تختہ سیاہ منگوا کر اس پر باقاعدہ Doctor Danger لکھ کر لگ بھگ بیس منٹ وضاحت بھی کی۔ خدا کا کرنا دیکھئے کہ عین اسی وقت شیخ کریانہ مرچنٹ کے پروپرائٹر شفقت چغتائی صاحب وہاں تشریف لائے اور تختہ سیاہ پر لفظDanger لکھا دیکھ کر خوشی سے بولے ''ایہہ ٹھیک اے... ڈنگر ڈاکٹر‘‘۔ ان کی بات سن کر پوری محفل پر ایک دم سناٹا سا چھا گیا... اور پھر اگلے ہی لمحے فضا بھرپور تالیوں سے گونج اٹھی...!!!

محلے میں سر کٹے انسان کے متعلق بھی ڈاکٹر صاحب نے ہی بتایا تھا کہ رات ڈیڑھ بجے کے بعد گلیوں میں ایک شخص اپنا سر ہاتھ پر لیے گھومتا ہے اور جو بھی اس کے سامنے آتا ہے اسے کچا چبا جاتا ہے۔ نتیجتاً سارے محلے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ٹھیکری پہرہ دیا جانے لگا اور حال یہ ہو گیا کہ اندھیرے میں دور سے کسی شخص کا چہرہ نظر نہ آتا تو پہرہ دینے والوں کو فوراً یقین ہو جاتا کہ یہی وہ سر کٹا انسان ہے۔ سب اپنی اپنی ڈانگیں مضبوطی سے پکڑ لیتے اور چیخیں مار کر بھاگ جاتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں