خیر نال جا

میں جب اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو مین روڈ پر آنے کے لیے مجھے دو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں۔ یہ اصل میں دو گلیاں ہیں لیکن بہت کشادہ۔ آخری والی گلی کے بائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ہے جس کے باہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر پڑا ہوتا ہے۔ یہ نہ کسی سے بات کرتا ہے نہ چلتا پھرتا ہے... بس چارپائی پر بیٹھا کھانستا رہتا ہے اور جب کھانس کھانس کر تھک جاتا ہے تو پھر کھانسنے لگتا ہے۔ یہ اس گھر کا چوکیدار ہے‘ لیکن میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر اِس گھر میں کبھی چور ڈاکو آ گئے تو کیا یہ چوکیدار اُنہیں روک پائے گا؟ اُس روز بھی میں نے گاڑی آخری گلی میں موڑی تو وہی چوکیدار کھانستا ہوا نظر آیا۔ یہ میری روز کی روٹین ہے‘ چوکیدار کی چارپائی کے بعد مین روڈ شروع ہو جاتی ہے لہٰذا میں نے مین روڈ پر گاڑی چڑھائی اور آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیور کے بعد میری منزل آ گئی...!!!
میں شہر کے ایک بڑے اور متوسط علاقے میں معروف موٹیویشنل سپیکر کا خطاب سننے آیا تھا۔ احباب زور دے کر مجھے یہاں لائے تھے۔ لیکن سچی بات ہے کہ خود میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی یہ لیکچر سنوں۔ تھوڑی ہی دیر میں موٹیویشنل سپیکر صاحب بلیک کلر کی ایک چمکتی ہوئی گاڑی میں تشریف لائے۔ اس گاڑی کے پچھلے بمپر پر الگ سے ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر ''MS ‘‘ لکھا ہوا تھا... شائد یہ موٹیویشنل سپیکر کا مخفف تھا۔ اس نے اپنی گفتگو سے حاضرین پر ایک سحر طاری کر دیا۔ انہوں نے کہا ''ہم لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اس قدر مگن ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنے سامنے چلتے پھرتے لوگوں کو کس قدر اگنور کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر سکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھلانا ہو گا‘ سب کو معاف کرنا ہو گا... موٹیویشنل سپیکر کی بات سن کر پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔ انہوں نے پوچھا ''کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘۔ کچھ دیر سکوت رہا۔ پھر موٹیویشنل سپیکر نے آہستہ سے کہا ''آج گھر جائیں اور جن کے باپ زندہ ہیں انہیں گلے سے لگائیں‘ پیار کریں اور اگر کوئی شکوہ بھی ہے تو اسے بھلا دیں‘‘۔
پروگرام کے اختتام سے پہلے ہی مجھے ایک ضروری میٹنگ کی کال آ گئی اور اٹھنا پڑ گیا۔ میٹنگ دو گھنٹے جاری رہی اور اس دوران کھانا بھی نہیں کھایا جا سکا۔ واپسی پر شدید بھوک لگی تھی لہٰذا ایک جگہ رک کر کھانا کھایا۔ بھوک کی وجہ سے کافی زیادہ آرڈر دے دیا تھا لیکن اب کافی سارا کھانا بچ گیا تھا۔ میں نے وہ سارا پیک کروایا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ آخری گلی میں مڑتے ہی چوکیدار پھر میری نظروں کے سامنے تھا۔ میرے ذہن میں اچانک موٹیویشنل سپیکر کے الفاظ گونجنے لگے ''کیا کوئی ایسا ہے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘۔ خیال آیا کہ یہ چوکیدار بھی تو کسی کا باپ ہو گا‘ پتا نہیں اس کو کبھی اپنے بیٹے کی جپھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ میں نے کسی خیال کے تحت گاڑی چوکیدار کے پاس روکی اور پیک کروائے گئے کھانے کا شاپر اٹھا کر اس کے پاس آ گیا۔ سلام دعا کے بعد میں نے شاپر اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے نہایت احترام سے کہا کہ یہ بالکل تازہ کھانا ہے‘ آپ کھا لیجئے۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری اور پھر اُس نے انتہائی تیزی سے شاپر جھپٹ لیا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ شدید بھوک لگی ہے۔ 
پھر اس کے بعد میرا معمول بن گیا... میں کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بچا کھچا برگر یا شوارما وغیرہ چوکیدار کے لیے لے جاتا۔ چونکہ اسے بولنے میں دقت ہوتی تھی لہٰذا ہماری اکثر دعا سلام اشاروں کنایوں میں ہی ہو جاتی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کے سرہانے کوئی کتاب پڑی ہوئی ہے اور وہ ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی اسے کتاب پڑھنے کا شوق ہے۔ میں نے گاڑی روکی ‘ سلام لیا اور قریب جا کر دیکھا تو ہوش اڑ گئے... وہ دیوانِ غالب پڑھ رہا تھا۔ یہ میرے لیے شدید حیرت کی بات تھی۔ البتہ یہ نہیں پتا تھا کہ کیا وہ واقعی کتاب پڑھ رہا تھا یا کسی اور کی کتاب اس کے سرہانے رکھی تھی۔ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اشاروں سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کتاب یہاں کیسے آئی؟۔ اُس نے مریل سی آواز میں ٹوٹے پھوٹے جملوں میں بتایا کہ یہ کتاب اُسے بہت پسند ہے اور وہ جتنی بار پڑھتا ہے اُتنی بار نیا لطف ملتا ہے۔ میرے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ غالب کو پڑھنے اور سمجھنے والا یہ چوکیدار میری نظروں میں مزید معتبر ہو گیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ تعلیم یافتہ ہیں؟ جواب اثبات میں آیا اور میری حیرت دوچند ہو گئی۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایم اے پاس ہے اور ریٹائرڈ پروفیسر ہے۔ 
یہ بات بہت الجھا دینے والی تھی کہ آخر ایک پروفیسر کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسے اس عمر میں چوکیدار ی کرنا پڑ رہی ہے۔ اس راز سے بھی اُس نے خود ہی پردہ اٹھا دیا اور ایسی حقیقت بیان کی کہ کچھ دیر کے لیے مجھے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ یہ بزرگ جسے میں چوکیدار سمجھتا رہا وہ اس گھر کا مالک تھا۔ تین بیٹے تھے۔ تینوں کی شادیاں کر دیں۔ بیوی فوت ہو گئی تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا ہو گیا۔ کھانسی اور بیماری کی وجہ سے بچوں کو تشویش ہوئی کہ کہیں باپ کی بیماری اُن کے بچوں کو نہ لگ جائے لہٰذا سب گھر والوں کے باہم مشورے سے طے پایا کہ 'ابا جی‘ کی چارپائی گھر سے باہر لگوا دی جائے تاکہ وہ آرام سکون سے جی بھر کے کھانس سکیں۔ یوں اب گھر والے بھی چین کی نیند سوتے تھے اور ابا جی کو بھی اپنے بیٹوں اور اولاد کی جلی کٹی باتیں نہیں سننا پڑتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی اولاد سے بالکل بھی ناراض نہیں کیونکہ انہوں نے کہیں سنا تھا کہ 'اگر سکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھلانا ہو گا‘ سب کو معاف کرنا ہو گا‘‘۔ یہ جملہ سن کر میں چونک اٹھا۔ یقینا انہوں نے بھی موٹیویشنل سپیکر کا کوئی لیکچر پڑھا یا سنا تھا کیونکہ یہ بات میں نے بھی وہیں سنی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ ان کے تینوں بیٹے بزنس مین ہیں اور بہت اچھا کماتے ہیں‘ تینوں کے پاس اچھی گاڑیاں ہیں۔ 
میں نے اُس روز بہانے بہانے سے اُنہیں بہت کریدا کہ شائد اُن کے دل میں اپنے بیٹوں کے لیے کوئی تھوڑی سی بھی نفرت ہو لیکن وہ ہر حال میں اولاد سے راضی نظر آئے۔ پچھلے دنوں میں اُن کے گھر کے قریب سے گزرا تو ٹھٹک کر رک گیا۔ ان کی چارپائی کے پاس ایک گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے تھوڑا آگے جا کر اپنی گاڑی روکی اور پروفیسر صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ وہ فخر سے مجھے بتانے لگے کہ یہ گاڑی ان کے بیٹے کی ہے۔ اسی دوران گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔ غالباً ہم دونوں کی گفتگو کے دوران ہی ان کا بیٹا گیٹ سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ پروفیسر صاحب نے بیٹے کی جاتی ہوئی گاڑی کی طرف دیکھا اور بے اختیار ہاتھ اٹھا کر بولے ''خیر نال جا تے خیر نال آ‘۔ میں نے چونک کر گردن موڑی... گاڑی کافی آگے جا چکی تھی لیکن اس کے پچھلے بمپر پر 'MS‘ کے الفاظ صاف نظر آرہے تھے...!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں