ایک تھی ڈاکٹرائن

شکیلہ ہمارے علاقے کی دائی تھی لیکن چونکہ پیچیدہ امراض مثلاً نزلہ‘ کھانسی اور سر درد کا علاج بھی کر لیتی تھی‘ لہٰذا محلے کی ساری عورتیں اسے ''ڈاکٹرائن‘‘ کہتی تھیں۔ شکیلہ کو خود بھی ڈاکٹرائن کہلانا پسند تھا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتی تو ضرور فرمائش کرتی کہ جس طرح ایک فلم آئی تھی ''ایک تھی ڈائن‘‘ ایسے ہی ''ایک تھی ڈاکٹرائن‘‘ پر بھی فلم بننی چاہیے۔ علاج معالجے کے علاوہ شکیلہ خواتین کو دبانے اور ناف نکالنے کا کام بھی کرتی تھی۔ براہِ کرم دبانے سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ کوئی گورکن تھی۔ شکیلہ ڈاکٹرائن ایک اصلی لیڈی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ اس کے لیے اس نے بہت محنت کی۔ خوب دل لگا کر پڑھائی کی لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ِاس ملک میں ٹیلنٹ کو جوتے کی نوک کے نیچے لکھا جاتا ہے‘ سو یہی حال شکیلہ کا بھی ہوا۔ اس نے ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا چاہا تو محض اِس چھوٹی اور گھٹیا سی بات پر انکار کر دیا گیا کہ وہ میٹرک پاس ہے۔ کیا میٹرک پاس بندے کا ڈاکٹر بننے کا کوئی حق نہیں؟ اور پھر شکیلہ تو بڑی ٹیلنٹڈ ڈاکٹر ثابت ہو سکتی تھی۔ ایسی پھکی تیار کرتی تھی کہ پتھر ہضم لوہا ہضم۔ آج بھی شکیلہ جیسی سرجری شائد ہی کوئی ڈاکٹر کر سکتا ہو۔ محلے میں کسی بچے کو شیشہ چبھ جاتا تو شکیلہ کمال مہارت سے محض ایک سوئی کی مدد سے بغیر مریض کو بیہوش کیے نہ صرف شیشہ نکال لیتی بلکہ بعد میں زخم پر راکھ لپیٹ کر اوپر کسی پرانے کپڑے کی پٹی بھی لپیٹ دیتی تھی۔ اینٹی بائیوٹک کے لیے بھی محلے کا کوئی بچہ ہی کام آتا اور اللہ اللہ خیر سلا۔ میں جب چھوٹا ہوتا تھا تو مجھے بھی کھانسی ہونے کی صورت میں شکیلہ ڈاکٹرائن کا تیار کردہ سیرپ پلایا جاتا تھا۔ بوتل مریض کی اپنی ہوتی تھی جس میں شکیلہ بڑے سے ڈرم میں سے لال شربت نکال کر بھر دیتی تھی ۔ یوں دو روپے میں آرام آ جاتا اور السر کی تکلیف شروع ہو جاتی۔ یہ لال شربت ہر بیماری کا علاج تھا۔ بعض امراض میں اسے پینا ہوتا تھا‘ بعض میں سونگھنا اور بعض میں مالش کرنا۔ شکیلہ کو کینسر کا علاج بھی آتا تھا۔ محلے میں جس کسی عورت کے بھی پیروں میں ورم ہوتا‘ شکیلہ خوشخبری سنا دیتی کہ کینسر ہو چکا ہے۔ اس کے بعد وہ سٹیل کی بڑی بالٹی میں کافی سارا نمک اور گرم پانی ڈال کر مذکورہ خاتون کے پائوں ایک گھنٹے تک اس میں ڈالتی۔ پھر لال شربت تھما دیتی۔ دو دن بعد ہی مریضہ سجدۂ شکر بجا لاتی کہ کینسر جڑ سے ختم ہو گیا ہے۔
شکیلہ کو میں نے جب بھی دیکھا یہی شکوہ کرتے سنا کہ ہسپتال والے اس کی قدر نہیں کرتے۔ اگر وہ باہر کے ملک میں ہوتی تو لوگ اسے سونے کا تاج پہناتے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے علاج سے میں نے ایسا ایسا مریض ٹھیک ہوتے دیکھا ہے‘ جس کے بارے میں گھر والے بھی پراُمید تھے کہ نہیں بچے گا۔ کہنے کو تو شکیلہ ڈاکٹرائن تھی لیکن وہ خواتین کے علاوہ بزرگوں وغیرہ کا بھی علاج کر دیتی تھی۔ سارے محلے کے بزرگ قائل تھے کہ شکیلہ کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے۔ ان بزرگوں کی اگر طبیعت تھوڑی سی بھی خراب ہو جاتی تو سیدھے شکیلہ ڈاکٹرائن کے گھر کا رُخ کرتے اور بعض تو بہانے بہانے سے بھی اس کے گھر کے ایک دو چکر لگا آتے تھے ۔ 
دماغی بیماریوں کا علاج بھی شکیلہ پر ختم تھا۔ کسی کی یادداشت کمزور ہو جاتی تو شکیلہ اسے ایک کی بجائے دو بوتلیں لال شربت کی دیتی اور تاکید کرتی کہ ہر گھنٹے بعد دو چمچ پینے ہیں... اور مریض کی یادداشت چار گھنٹے بعد ہی اتنی تیز ہو جاتی کہ اسے بخوبی یاد رہتا کہ اس نے لال شربت والی بوتل کے قریب بھی نہیں پھٹکنا۔ شکیلہ کو ہسپتال کے ڈاکٹروں سے سخت چڑ تھی۔ وہ کہتی تھی کہ یہ موئے علاج تو کرتے نہیں بس ٹیکے پہ ٹیکا لگائے جاتے ہیں حالانکہ زیادہ ٹیکے لگانے سے انسان پنکچر بھی ہو سکتا ہے۔ شکیلہ کے علاج کا سب سے حیرت انگیز نظارہ مجھے آج بھی یاد ہے جس میں اس نے ایک انتہائی مشکل مرض کا بغیر دوائی علاج کیا تھا۔ ہوا یوں کہ خالہ حمیداں اس کے پاس اپنے چار سالہ نواسے ببلو کو لے کر آئیں‘ اور بتایا کہ یہ انگوٹھا چوسنا نہیں چھوڑ رہا۔ میں گلی میں کھیل رہا تھا۔ یہ باتیں سن کر میں بھی دوڑتا ہوا شکیلہ ڈاکٹرائن کے پاس آ گیا کہ دیکھیں اب یہ کیا علاج کرتی ہے۔ ڈاکٹرائن نے کچھ لمحے سوچا‘ پھر ببلو کی نیکر کا الاسٹک ڈھیلا کر دیا اور کہنے لگیں ''جائو! اب یہ کبھی انگوٹھا نہیں چوسے گا‘‘۔ خدا گواہ ہے اُس کے بعد جب بھی ببلو انگوٹھا چوسنے کے لیے ہاتھ اوپر کرتا... فوراً نیچے کر لیتا...!!!
شکیلہ ڈاکٹرائن کی عمر اُس وقت یہی کوئی چالیس سال ہو گی۔ اُس نے ساری زندگی شادی نہیں کی۔ کہتی تھی شادی دو روحوں کا ملاپ ہوتا ہے اور مجھے روحوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں نے بہت کوشش کی کہ وہ شادی پر مان جائے‘ لیکن اس کی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ بندہ انتہائی شریف‘ نیک اور ہیرو ٹائپ کا ہونا چاہیے۔ اُس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی کیونکہ اُس وقت میں صرف 10 سال کا تھا۔ جب میں میٹرک میں پہنچا تو شکیلہ لگ بھگ پچاس کے قریب قریب آ چکی تھی۔ اس کے باوجود اس کے کلینک پر رش کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گیا۔ اب وہ دانتوں اور آنکھوں کا علاج بھی کرنے لگی تھی۔ کسی خاتون کی دانت میں شدید درد ہوتا تو وہ اُسے پائوں پر ملنے کے لیے لومڑی کے بال دیتی۔ مجھے کبھی سمجھ نہ آ سکا کہ دانت درد کا لومڑی کے بالوں سے کیا تعلق ہے؟ بعد میں پتا چلا کہ لومڑی کے بال اگر پائوں پر مل لیے جائیں تو دنیا جہان کی تکلیفیں بھول جاتی ہیں اور بندہ پورے اہتمام کے ساتھ دن رات صرف پائوں کھجانے میں مصروف رہتا ہے۔ کسی عورت کی آنکھ میں سوزش ہو جاتی تو شکیلہ اُسے آنکھوں میں ڈالنے کے لیے بھی لال شربت تھما دیتی۔ عورت کی آنکھیں محض بوتل کی شیشی کو دیکھتے ہی ایک لمحے کے لیے پھیلتیں اور پھر وہ خود ہی ہنسی خوشی کہہ دیتی کہ '' ڈاکٹرائن! میں تو ٹھیک ہو گئی ہوں۔‘‘
کسی کا بچہ بہت زیادہ روتا یا تنگ کرتا تو شکیلہ اسے تھوڑی سی افیم چٹا دیتی اور بچہ ''کہوک نیندرے‘‘ سویا رہتا۔ محلے کے وہ بزرگ جو اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے باوجود مرنے سے انکاری ہوتے انہیں بھی حیلے بہانوں سے شکیلہ کے پاس لایا جاتا۔ شکیلہ لال شربت کی ایک خوراک ان کے بستر پر چھڑکنے کے لیے دیتی اور اگلے دن خبر آ جاتی کہ رات کو بابا جی 25 کروڑ چیونٹیوں کے حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ کوئی عورت اگر شکوہ کرتی کہ اسے شکیلہ کے علاج سے آرام نہیں آیا تو شکیلہ اس کا نام موٹے حروف میں کالے مارکر سے ڈائری میں لکھ لیتی۔ میں نے ایک دن چپکے سے ڈائری میں لکھے یہ نام پڑھے اور حیرت ہوئی کہ یہ نام کہیں اور بھی پڑھے ہوئے لگے۔ بعد میں یاد آیا کہ اِن ناموں کے کتبے دیکھے تھے۔
شکیلہ ڈاکٹرائن 65 سال کی عمر میں وفات پا گئی۔ اس کے مرنے پر پورا محلہ اداس تھا۔ عورتیں بین کر رہی تھیں کہ اب ان کی بیماریاں کیسے ٹھیک ہوں گی۔ لیکن ایک عجیب کام ہوا۔ شکیلہ کی وفات کے دو ہفتے بعد آہستہ آہستہ محلے سے تمام لوگوں کی بیماریاں خود بخود ٹھیک ہوتی گئیں۔ شکیلہ کا کلینک کھول کر دیکھا گیا تو لال شربت کے تین ڈرم اور ڈائری کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ محلے والوںکی موجودگی میں ڈائری کھول کر پڑھی گئی تو پہلے صفحے پر اُس کی یہ دو شعر نما لائنیں لکھی پائی گئیں...!!!
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گی
ڈاکٹرائن کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں