دُنیا گول ہے!

مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میں صرف سینئر ہوتے ہیں‘ جونیئر کوئی نہیں ہوتا۔ آپ نے کبھی کسی صحافی کے وزیٹنگ کارڈ پر جونیئر صحافی لکھا نہیں دیکھا ہو گا۔ سیاسی تجزیہ نگار بھی سینئر ہوتے ہیں۔ لفظ سینئر ایسا سابقہ ہے جو کسی بھی عہدے کے ساتھ لگا کر اُس کا وقار دوچند کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی جن چیزوں کے ساتھ سینئر لکھا ہو وہ قابل اعتماد لگنے لگتی ہیں۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے... کسی گروپ کا سادہ ممبر الائچی سپاری ہوتا ہے‘ لیکن جونہی ساتھ سینئر لگتا ہے‘ عزت پا جاتا ہے۔ انسپکٹر اور سینئر انسپکٹر کا فرق خود ہی دیکھ لیجئے۔ اُستاد اور سینئر اُستاد۔ ایڈیٹر اور سینئر ایڈیٹر۔ شاعر اور سینئر شاعر۔ افسانہ نگار اور سینئر افسانہ نگار۔ کالم نگار اور سینئر کالم نگار۔ رپورٹر اور سینئر رپورٹر۔ وکیل اور سینئر وکیل۔ سبجیکٹ سپیشلسٹ اور سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ۔ ڈاکٹر اور سینئر ڈاکٹر۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے ڈکیت بھی خود کو سینئر کہلواتے ہوں گے۔ مرزا صاحب نے تو سوچ رکھا ہے کہ جب وہ بوڑھے ہو جائیں گے تو اِس خوش کن لفظ کو اختیار کرتے ہوئے خود کو 'سینئر سٹیزن‘ کہلوایا کریں گے۔ میں ان کی تائید کرتا ہوں کیونکہ یہاں سینئر بننے سے زیادہ سینئر کہلوانے کا زیادہ رواج ہے‘ حال یہ ہو گیا ہے کہ جو تازہ تازہ لیکچرار بنتے ہیں وہ بھی 'پروفیسر‘ کہلوانے لگتے ہیں۔ سینئر کے عہدے پر فائز ہونے والوں کی اکثریت آگے کس قسم کی نسل تیار کر رہی ہے اس کا عملی نمونہ دیکھنا ہو تو کسی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ سے بات کر کے دیکھئے۔ ایک دور تھا جب ایم اے اردو کرنے والا طالب علم بہرحال شاعر‘ ادیب بن جاتا تھا۔ آج کل ان سے ذرا اُردو لکھوا کر دیکھیں۔ ایک ایم اے اُردو صاحب نے مجھے اُردو میں ای میل کی ہے اور پڑھنے لائق ہے‘ لکھتے ہیں ''سر! آپ تباح ہوتے ہوئے طعلیمی نظام پر کچھ کیوں نہیں لیکھتے؟ عاوے کا عاوہ ہی بگڑا ہوا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کیسی کو طعلیم میں دل چاسپی ہی نہیں رہی‘ میری خواہیش ہے کہ آپ اس پر بھی ضرور لکھے...‘‘ یقینا ان لائنوں میں کچھ کمپوزنگ کی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن اللہ جانتا ہے ایک بھی کمپوزنگ کی غلطی نظر نہیں آئی۔ کمپوزنگ کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ آپ نے لاہور لکھنا تھا لیکن ''لاہوڑ‘‘ لکھا گیا۔ لیکن اگر کوئی لاہور کی بجائے خان پور لکھ دے تو 'اللہ دی قسمے‘ یہ کمپوزنگ کی غلطی نہیں ہوتی...!!!
قصور طالب علموں کا نہیں۔ انہیں پڑھانے والوں کی اکثریت کا بھی جواب نہیں۔ موضوع تاریخ ہو تو عین ممکن ہے سارا لیکچر ''کابلی گوڈوں‘‘ پر ہو۔ جو کمونیکیشن کا ہنر سکھا رہے ہیں وہ خود کمونیکیشن کی صلاحیتوں سے محروم ہیں‘ آدھے سے زیادہ طلبا کی شکایت ہوتی ہے کہ ان تک یا تو آواز نہیں آتی یا سمجھ نہیں آتی۔ ایک صاحب نئے صحافی بنانے پر مامور ہیں اور صحافت میں اُن کا اپنا تجربہ یہ ہے کہ انہوں نے آج سے پچیس تیس سال پہلے ماہنامہ ''گنڈیریاں‘‘ ٹائپ میں کہانیاں لکھیں اور پیسٹنگ بھی کرتے رہے۔ ان کا ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ جب ایک سٹوڈنٹ نے ان سے پوچھا کہ 'سر خبر اور کالم میں کیا فرق ہے؟‘‘۔ انہوں نے عینک اتاری اور بڑی متانت سے جواب دیا ''خبر بیرونی صفحات پر چھپتی ہے اور کالم اندرونی صفحات پر‘‘۔ مجھے شک ہے کہ موجودہ دور کے کئی اینکر بھی انہی کے ہاتھوں تیار ہو کر مارکیٹ میں آئے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ہر جگہ یہی حال ہے‘ کئی نام تو ایسے ہیں کہ سن کر ہی احترام سے سر جھک جاتا ہے۔ اوپر والے نام تو میں چھپا گیا ہوں لیکن یہ نام چھپانے والا نہیں بتانے والا ہے کہ ان سے علم کے موتی حاصل کرنے والے خوش نصیب ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی جو برطانوی عہد کے لاہور کی تاریخ پر مبنی ہے۔ مصنف کا نام طاہر کامران درج تھا۔ میری ان سے آج تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ تجسس ہوا کہ اتنی تحقیقی کتاب لکھنے والے کون صاحب ہیں۔ پتا چلا کہ گورنمنٹ کالج یونیوسٹی لاہور میں شعبہ تاریخ کے سربراہ ہیں اور اعلیٰ درجے کے تاریخ دان ہیں۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ تاریخ‘ ادب اور سیاست پر ان کے بیسیوں مقالے شائع ہو چکے ہیں‘ اور وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی تاریخ پر ایک معتبر سند گردانے جاتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھ ایسا جاہل انسان آج تک ان سے واقف نہ ہو سکا۔ یہ کالم لکھنے تک میں ان سے ذاتی طور پر ملاقات کے شرف سے محروم ہوں۔ ابھی تک جو کچھ پتا چلا وہ ان سے فیض یاب ہونے والوں کی بدولت ہی آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے لوگ جن کی عدم موجودگی میں بھی ان کے گن گائے جاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی توجہ کا مرکز محض اُن کی اپنی ذات نہیں‘ بلکہ وہ بیسیوں طالب علموں کو اپنی زیر نگرانی ایم فل اور پی ایچ ڈی کروا چکے ہیں۔ پاکستان کے نوعمر مؤرخین کی ایک پوری نسل ان کے ہاتھوں پروان چڑھی ہے۔ انہی نوجوان مؤرخین کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک تحقیقی رسالہ Indiana university press بھی جاری کیا ہے جو باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ پاکستان اور گورنمنٹ کالج کے لیے یہ ایک اور فخر کی بات ہے۔ جب میں نے طاہر کامران صاحب کے بارے میں یہ سب جانا تو مجھے لگا کہ یقینا پروفیسر صاحب حکومت پاکستان کی آنکھ کا تارا ہوں گے‘ اور موجودہ حالات میں ان سے طلبا کی ذہنی استعداد کو بڑھانے کے لیے کوئی اہم کام 
لیا جا رہا ہو گا‘ لیکن پتا چلا کہ تحقیق و تالیف کے کاموں میں مصروف یہ نابغۂ روزگار شخصیت ایک دفعہ اتفاق سے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے شارٹ لسٹ ہوئی تھی لیکن میرٹ میں پہلے نمبر پر آنے کے باوجود ''صوابدیدی اختیارات‘‘ کے ٹرک تلے آ کر کچلی گئی۔ اچھا ہی ہوا، ہمارے ہاں ویسے بھی زیادہ علمی تحقیق کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور کسی نہ کسی سطح پر یہ ملک دشمنی یا مذہب دشمنی قرار پا جاتی ہے۔ ایسے بہت سے نام آپ کے ذہن میں بھی ہوں گے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ بازی وہ لے جاتے ہیں جو شریک سفر بھی نہیں ہوتے۔ آج ہم رونا روتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے۔ حضور بچے تو کبھی بھی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے۔ اپنا دور یاد کیجئے‘ کیا ہم سکول سے نہیں بھاگتے تھے؟ کتابوں میں رکھ کر عمران سیریز کے ناول نہیں پڑھتے تھے؟ سبق یاد کرنے سے جان نہیں جاتی تھی؟ اس عمر میں ایسا ہی ہوتا ہے... لیکن اُستاد کو اُستاد کیوں کہا جاتا ہے؟ کیونکہ وہ پڑھانے میں‘ سمجھانے میں اُستاد ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہی استادوں کے ''چھنڈے‘‘ ہوئے ہیں۔ بے شک ہم سب کامیاب نہیں ہوئے ہوں گے لیکن کچھ رائی برابر عقل تو منتقل ہوئی۔ موجودہ دور میں وہی اُستاد ہے جو ''بڑا اُستاد‘‘ ہے۔ پبلک ریلیشنگ کے فن سے ناآشنا اُستاد آج بھی اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور اسی میں خوش ہیں کہ وہ اپنا علم نئی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ رہ گئے باقی... تو وہ بھاری بھرکم ڈگریاں لیتے ہیں‘ مقالے کے نام پر ایک ''منہ کالا‘‘ کسی ڈائجسٹ میں چھپواتے ہیں اور پھر نئی نسل کو اپنے جیسا بنانے کے کام پر جت جاتے ہیں۔ علم اور کتاب ایسے اُستادوں کی ترجیح نہیں رہی‘ یہ علم نہیں محض اپنی سوچ طالب علموں میں منتقل کرنے آتے ہیں‘ اور زیادہ سے زیادہ ہم خیال بنا کر لوٹ جاتے ہیں۔ جو لوگ اِن کے سانچے میں ڈھل کر نکلتے ہیں وہ علم کی راہیں تلاشنے کی بجائے اپنی رائے نافذ کرنے کے طریقے سوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اُنہیں خود بھی کسی جگہ ''استاد‘‘ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا موقع مل جاتا ہے اور یہ چکر پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ دنیا گول ہے!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں