بول مٹی دیا باویا

رات کے بارہ بجے تھے‘ قبرستان کے اندر قدم رکھتے ہی شاہ صاحب نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا پھر آہستہ سے سب کو سمجھایا ''موبائل آف کر لو‘‘۔ ہم سب نے جلدی سے موبائل نکال کر آف کر دیے۔ تھوڑی ہی دیر میں مختلف قبروں سے ہوتے ہوئے ہم زبیر صاحب کی قبر پر پہنچ گئے۔ قبر کے کتبے پر جلی حروف میں لکھا تھا ''الحاج زبیر احمد مرحوم... ڈائریکٹر زبیر ٹیکسٹائل ملز‘‘۔ ہمارے ساتھ زبیر صاحب کے دو بیٹے بھی تھے۔ قبر کے قریب پہنچ کر شاہ صاحب نے سب کو تھوڑی دور رہنے کا اشارہ کیا اور خود قبر کے پاس چٹائی ڈال کر بیٹھ گئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی جس میں پڑھا ہوا پانی تھا۔ وہ وقفے وقفے سے کچھ پڑھ کر پانی کے چھینٹے قبر پر پھینکتے اور بلند آواز چلاتے ''زبیر احمد جواب دو... زبیر احمد جواب دو‘‘۔ ہم سب کے چہروں پر خوف نمایاں تھا۔ رات کی تاریکی میں قبرستان کی ویرانی مزید ہولناکی پیدا کر رہی تھی۔ چاروں طرف قبریں ہی قبریں تھیں... ہر سائز کی...!!!
زبیر صاحب اچھے خاصے متمول انسان تھے۔ خوبصورت گھر‘ شاندار گاڑی‘ پرکشش بینک بیلنس‘ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ انتہائی آرام دہ زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ بیوی بچوں کو ان کی موت کا صدمہ تو بہت ہوا لیکن یہ اطمینان تھا کہ وہ پس ماندگان کے لیے بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں۔ ایک دو ماہ تو سوگ کی کیفیت میں گزر گئے‘ آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہا لیکن جب حالات معمول پر آئے تو ایک ہولناک انکشاف ہوا کہ زبیر صاحب نے اپنے تمام مالی معاملات کی تفصیل اپنے آپ کو ای میل کی ہوئی تھی لیکن ای میل کا پاس ورڈ کسی کے پاس نہیں تھا۔ افراتفری میں ان کی الماریاں چیک کی گئیں‘ موبائل دیکھا گیا‘ بریف کیس کا جائزہ لیا گیا لیکن کہیں بھی پاس ورڈ لکھا نظر نہ آیا۔ بیٹے چونکہ پڑھے لکھے تھے لہٰذا حل یہ نکالا کہ کسی ہیکر سے مدد لی جائے۔ ایک آئی ٹی کے ماہر سے رابطہ کیا گیا لیکن اس نے بھی دو تین دن کی محنت کے بعد جواب دے دیا۔ مجبوراً گوگل کو ای میل کی گئی‘ سارا مسئلہ بتایا گیا اور منت ترلا کیا گیا کہ پاس ورڈ بتا دیا جائے۔ لیکن گوگل صاحب نے صاف انکار کر دیا اور جواب میں پاس ورڈ Recover کرنے کا طریقہ بھیج دیا‘ جس میں مرحوم کی طرف سے فراہم کردہ کسی اور ای میل ایڈریس کا حوالہ دیا گیا تھا۔
مرحوم کا بیلنس نکلوانے کے لیے بینک سے رابطے کا سوچا گیا کیونکہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو Nominee مقرر کیا تھا‘ لیکن کسی سیانے نے عین وقت پر بتا دیا کہ بینک والوں کو اگر بھنک بھی پڑ گئی کہ کھاتے دار وفات پا چکا ہے‘ تو انہوں نے نہ صرف اکائونٹ فوری طور پر بلاک کر دینا ہے بلکہ ایسی ایسی دستاویزات مانگنی ہیں کہ کام بہت لمبا ہو جائے گا۔ بڑے بیٹے نے مشورہ دیا کہ ڈیڈی کے اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے تھوڑے تھوڑے کرکے سارے پیسے نکلوا لیے جائیں۔ تجویز اچھی تھی‘ اے ٹی ایم کارڈ بھی مل گیا... لیکن اس کا پن کوڈ مرحوم ہی کو پتا تھا۔ پلاٹوں کے کاغذات کس بینک کے لاکر میں تھے؟ سیونگ سرٹیفکیٹ کہاں رکھے تھے؟ گاڑی کی فائل کہاں رکھی تھی؟ یہ سب معلومات ان کے ای میل میں تھیں لیکن ای میل کھلتی کیسے؟؟؟
حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو اہل خانہ نے ایک ''کشفِ قبور‘‘ کے دعوے دار شاہ صاحب سے رابطہ کیا۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ وہ قبر کے مُردوں سے کئی دفعہ بات چیت کر چکے ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے اپنی فیس ایک لاکھ روپے نقد وصول کی اور طے پایا کہ جمعرات کی رات 12 بجے مرحوم کی قبر پر جا کر ان سے ای میل کا پاس ورڈ پوچھا جائے گا۔ ہم سب اسی سلسلے میں یہاں موجود تھے اور اِس خاموش فضا میں پوری توجہ سے کان قبر کی جانب لگائے کھڑے تھے کہ کب زبیر صاحب کی آواز آتی ہے۔ شاہ صاحب نے جیب سے ایک تسبیح نکالی اور اسے قبر کے اوپر لہرانے لگے۔ اچانک وہ چونکے اور قبر کی مٹی پر اپنے کان لگا دیے۔ ''زبیر صاحب! کیا آپ مجھے سن رہے ہیں... زبیر صاحب! کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟‘‘۔ پھر فوراً ہی ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ہماری طرف دیکھا اور انگوٹھے کا اشارہ کیا‘ گویا مرحوم سے رابطہ ہو گیا تھا۔ ہم سب دم بخود یہ کارروائی دیکھ رہے تھے۔ شاہ صاحب نے قبر کی طرف منہ کر کے بلند آواز میں کہا ''ای میل کا پاس ورڈ بتائیں‘‘... اور دوبارہ کان قبر سے لگا لیے... اندر سے پتا نہیں کیا آواز آ رہی تھی لیکن ہم اسے سننے سے قاصر تھے۔ شاہ صاحب نے جلدی سے مجھے کاغذ قلم لانے کا اشارہ کیا۔ میں نے جھٹ جیب سے کاغذ قلم نکالا اور چار قدم آگے بڑھ کر شاہ صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔ انہوں نے کاغذ قبر پر رکھا اور دوبارہ کان لگا کر بولے ''ہمت کیجئے... بولئے... خدا کے حکم سے بولئے‘‘۔ کچھ دیر وہ کان لگائے رہے‘ پھر جلدی سے کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ تقریباً پندرہ منٹ تک وہ یہی کرتے رہے۔ پھر گہری سانس لے کر اٹھے اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں ہم قبرستان سے باہر تھے۔گاڑی میں بیٹھتے ہی شاہ صاحب نے کاغذ لہرایا۔ '' زبیر ون ٹو تھری فور فائیو‘‘۔ مرحوم کا بڑا بیٹا حیرت سے بولا ''اتنا آسان پاس ورڈ؟‘‘۔ شاہ صاحب نے اسے گھورا ''آسان نہیں ہے... آگے بھی کچھ ہے لیکن وہ مرحوم کو یاد نہیں آ رہا... میں جتنی بات کر سکتا تھا کر لی ہے‘ وہ بہت تکلیف میں ہیں‘ بڑی مشکل سے میرے عمل کے نتیجے میں بات کرنے پر آمادہ ہوئے تھے‘‘۔ اتنا کہہ کر شاہ صاحب اگلے چوک پر اُتر گئے...!!!!
زبیر صاحب کی فیملی ایک عجیب سے کرب سے گزر رہی ہے‘ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ مالی معاملات نہ بیوی سے شیئر کرتے ہیں نہ بچوں سے۔ پتا نہیں اِنہیں کیوں لگتا ہے کہ یہ سب سے بعد میں وفات پائیں گے۔ لیکن اکثر جب ایسا نہیں ہوتا تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کے بعد ان کے گھر والے کس اذیت سے گزرتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے مالی معاملات کا الگ سے ای میل اکائونٹ بنا لیں اور اس کا پاس ورڈ اپنی فیملی سے بھی شیئر کریں۔ وہ فیملی جس کو ہم ہمیشہ خوش اور پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں پتا نہیں اُس سے اہم ترین معاملات چھپا کیوں جاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کے اہل خانہ ہمارے لین دین کے معاملات سے بالکل بے خبر ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ چونکہ ہم ہر لحاظ سے اپنی فیملی کو سہولیات مہیا کر رہے ہیں‘ لہٰذا اِنہیں کسی اور معاملے سے آگاہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ کسی کا باپ فوت ہوتا ہے تو بچوں کو یہ تک نہیں پتا چلتا کہ ان کے والد صاحب کا اصل شناختی کارڈ کہاں ہے؟ انشورنس کے کاغذات کہاں رکھے ہیں یا مکان کی رجسٹری کس خفیہ جگہ پر ہے۔ ان معاملات سے اپنے اہل خانہ کو بے خبر رکھ کر درحقیقت یہ لوگ اکیلے نہیں مرتے اپنے اہل خانہ کو بھی جیتے جی مار جاتے ہیں۔ اپنی پرائیویسی ضرور رکھئے لیکن اپنے جی جان سے پیارے اہل خانہ کو بھی اس راز میں شریک کیجئے تاکہ ہمارے بعد ان کی زندگی اجیرن نہ ہو۔ آج کل تو ای میل کا زمانہ ہے۔ سارے پن کوڈ‘ ساری تفصیل ای میل کرتے رہیے اور پاس ورڈ اپنی اہلیہ‘ بیٹی یا بیٹوں سے شیئر کر لیجئے... ایسا نہ ہو کہ بعد میں لواحقین 'کشف قبور‘ کے ماہر ڈھونڈتے پھریں اور سب کچھ ہونے کے باوجود زندہ درگور ہو جائیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں