عقل بڑی کہ بحث

ریحان اور فرید میرے انتہائی گہرے دوست ہیں۔ دونوں کی اکثر سیاسی موضوعات پر خونخوار بحث ہوتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ابھی یہ لڑ پڑیں گے لیکن 'بدقسمتی‘ سے ابھی تک ایسی نوبت نہیں آئی۔ دونوں اپنا اپنا دعویٰ سچا قرار دیتے ہیں اور پوری طرح زور لگاتے ہیں کہ ہم ہی ٹھیک ہیں۔ دونوں فیس بک سے لے کر واٹس ایپ تک روزانہ جنگ پلاسی لڑتے ہیں اور 'ہف‘ کر سو جاتے ہیں۔ کئی دفعہ جب دونوں کے پاس ایک دوسرے کی بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا تو دلیل دینے کی بجائے کہہ دیتے ہیں ''فلاں پاگل ہے... یہ سب بکواس ہے... ایسا ہو ہی نہیں سکا... میں نہیں مانتا... وغیرہ وغیرہ۔ یہ چیختے ہیں‘ چلاتے ہیں‘ تماشا لگاتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ساری بحث ٹھاہ پٹاخ کے علاوہ کچھ ثابت نہیں ہوتی۔ اذیت کی بات تو یہ ہے کہ اکثر ساری بحث میرے دفتر میں ہوتی ہے اور میں دونوں کی چیخ و پکار سن کر مسلسل اپنا سر پکڑے رہتا ہوں۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ پچھلے دنوں میرے ذہن میں ایک خیال آیا‘ میں نے دونوں سے کہا کہ کیوں نہ میں تم لوگوں کے لیے بحث کے کچھ اصول طے کر دوں۔ دونوں حیران ہوئے اور تفصیل پوچھی۔ میں نے کہا‘ تم دونوں کی مرضی سے ایک متفقہ آئین تیار کرتا ہوں جس کے بعد کسی بھی قسم کی بحث اُسی کے دائرہ کار میں ہو گی اور جہاں کوئی مسئلہ ہو گا تم آئین سامنے رکھ لیا کرنا۔ فرید صاحب حیران ہوئے کہ ایسا کوئی آئین کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ میں نے اُنہیں تسلی دی اور 'آئینِ بحث‘ کے کچھ خدوخال سمجھائے جس کے بعد ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اس پریکٹس سے صاف سمجھ آ گیا کہ ''عقل بڑی کہ بحث‘‘۔
ہم سب سیاسی بحث کے دوران اکثر ایسے ہی جذباتی ہو جاتے ہیں‘ سو اگر آپ بھی بحث کے شوقین ہیں تو یہ آئین آپ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر اِس آئین کی کسی بات میں اختلاف ہو تو مخالف فریق کے ساتھ مل کر مرضی کی تبدیلی کر لیجئے لیکن ہر چیز طے شدہ اور لکھی ہوئی ہو‘ کوئی چھوٹی موٹی انعام نما سزا بھی طے کر لیجئے تاکہ آئین کی 'تھرل‘ برقرار رہے۔ یقین کیجئے جب سے یہ آئین تیار ہوا ہے‘ ریحان اور فرید کی دھواں دار بحث یکدم ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ اب یہ کسی بھی مسئلے پر گفتگو کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتے ہیں اور اوٹ پٹانگ قسم کی شیئرنگ سے باز آ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ اِس آئین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ فریقین کی مرضی سے تیار ہوا ہے۔ ہر وہ پوائنٹ جس میں کسی ایک فریق کو اختلاف ہو سکتا تھا وہ نکال دیا گیا ہے۔ اس آئین میں کئی باتیں ایسی بھی ہیں جن کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آیا لہٰذا اس کا حل ٹاس پر رکھ لیا گیا ہے۔ کئی معاملات میں ٹاس ہی بہترین حل ہوتا ہے۔ ریحان اور فرید کے درمیان طے پانے والے متفقہ آئین کی دفعات درج ذیل ہیں۔
1۔ جمہوریت کی حمایت کی جائے گی‘ آئین پاکستان سے ماورا کوئی بات تسلیم نہیں ہو گی۔
2۔ ملکی عدالتوں نے کسی کے خلاف یا حق میں جو بھی فیصلہ دیا ہو وہ درست اور تسلیم تصور ہو گا۔
3۔ ہر وہ بڑی کرپشن جس سے کسی فرد یا ملک کو نقصان پہنچا ہو اُس پر تنقید جائز تصور ہو گی؟ خواہ وہ کوئی ادارہ ہو یا فردِ واحد۔
4۔ گالی یا بیہودہ زبان استعمال کرنے پر 500 روپے جرمانہ ہو گا اور ہر دفعہ یہ جرمانہ ڈبل ہوتا جائے گا جو فوری طور پر ادا کرنا ہو گا۔
5۔ بِلا تحقیق الزام پر نہ صرف معذرت کی جائے گی بلکہ سزا کے طور پر بڑا پیزا مع ڈیڑھ لٹر بوتل کھلایا جائے گا۔
6۔ کسی معاملے کے بارے میں کوئی سوئیپنگ سٹیٹمنٹ نہیں دی جائے گی یعنی ذاتی رائے سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے گا۔
7۔ کسی بات کی سچائی کے حوالے سے اگر دو مختلف ثبوت پیش کیے جائیں گے تو صحیح ثبوت وہی مانا جائے گا جو مستند ذرائع سے ہو گا۔ مستند ذرائع سے مراد نامور اردو یا انگریز اخبار‘ نیوز چینل یا ویب سائٹ‘ سرکاری ادارہ‘ وڈیو یا تصویری ثبوت۔
8۔ کسی بھی موضوع یا شخصیت پر بحث کرتے وقت اس کے ماضی کے کسی بھی دور کا‘ ہر قسم کا حوالہ دیا جا سکے گا خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔
9۔ کسی بھی الزام کا بارِ ثبوت الزام لگانے والے پر ہو گا۔ ٹھوس ثبوت پیش نہ کرنے کی صورت میں ڈیڑھ کلو چکن کڑاہی کھلانا ہو گی۔
10۔ بحث کے دوران اگر ثبوت موقع پر نہ مل پائے تو اس کے لیے مخالف فریق کو مہلت دی جائے گی‘ یہ مہلت ایک ماہ تک کی ہو گی... تاہم اس دوران ثبوت نہ دینے والے کو اُس موضوع پر مزید کوئی بھی بات کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ مہلت ختم ہونے کے بعد بھی اگر ثبوت نہیں ملتا تو ثبوت نہ دینے والے کو ایک عدد برینڈڈ شرٹ گفٹ کرنا ہو گی۔
11۔ آئین کی کسی بھی شق میں کوئی کمی بیشی دونوں فریقین کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکے گی۔ دونوں کے واٹس ایپ میں آئین موجود ہو گا۔
12۔ اگر کوئی ایسا سیاسی مسئلہ درپیش آ گیا جس کا حل آئینِ بحث میں درج نہ ہو تو باہمی اختلاف کی صورت میں ٹاس کیا جائے گا۔ جس کے حق میں ٹاس آئے گا اُسی کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا اور اُس کے بعد آئین کا حصہ قرار پائے گا۔
13۔ جذباتیت اور معروضیت قابل قبول نہ ہو گی۔ فریقین ایک دوسرے کو آپ جناب کہہ کر مخاطب کریں گے‘ کوئی ذاتی حملہ نہیں ہو گا۔
14۔ مذہبی حوالے بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن اگر کسی مسئلے پر مسلکی یا تشریحی اختلاف نظر آئے تو ایسی صورت میں فوری طور پر مذہبی حوالے سے اجتناب کیا جائے گا۔ مقدس شخصیات کے حوالے دیتے وقت انتہائی احتیاط کی جائے گی کہ کوئی لفظ معیار سے گرا ہوا استعمال نہ ہو۔
15۔ کسی غلط کام کا حوالہ دوسرے غلط کام سے نہیں دیا جائے گا یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ فلاں نے بھی کیا تھا۔
16۔ جس موضوع پر بحث ہو گی اس سے ہٹا نہیں جائے گا‘ ٹو دی پوائنٹ رہا جائے گا۔ جب تک ایک پوائنٹ کلیئر نہیں ہو گا دوسرا پوائنٹ نہیں چھیڑا جائے گا۔
17۔ کسی بھی سیاسی شخصیت کو تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ لمحہ بھر کی کھینچی ہوئی تصویر میں نظر آنے والے ایکسپریشنز کی بنیاد پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ وڈیو کا حوالہ اگر دیا جائے گا تو کسی مخصوص کلپ کی بجائے مکمل وڈیو فراہم کی جائے گی۔
18۔ آمنے سامنے گفتگو کی صورت میں لمبی گفتگو سے پرہیز کیا جائے گا‘ دو منٹ سے زیادہ نہیں لیے جائیں گے۔ واٹس ایپ یا میسنجر پر گفتگو کی صورت میں جب تک ایک میسج کا جواب نہیں آئے گا اس دوران دوسرا میسج نہیں کیا جائے گا تاکہ تسلسل رہے اور بات سمجھ میں آ سکے۔
19۔ کسی دوسرے ملک کی مثال دیتے وقت وہاں کے پورے نظام کو مد نظر رکھا جائے گا‘ محض مطلب کی بات پر اصرار نہیں کیا جائے گا۔
20۔ دوسرا فریق اگر مصروفیت کی بنا پر کسی بات کا جواب نہ دے پائے تو جب تک اس کا جواب نہیں آئے گا کوئی اور پوائنٹ نہیں چھیڑا جائے گا۔ اس دوران دوسرے فریق پر بھی لازم ہو گا کہ اگر وہ مصروف ہے تو جب بھی وقت ملے میسج کر دے کہ میں بعد میں جواب دوں گا۔
21۔ جن موضوعات پر 'آئینِ بحث‘ کے تحت معاملات طے پا چکے ہوں وہ دوبارہ ڈسکس نہیں ہوں گے تاکہ بلا وجہ وقت ضائع نہ ہو۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں