پٹواری اور یوتھیا

یہ دونوں بھائی میرے محلے میں رہتے تھے۔ بڑے کا نام شاکر اور چھوٹے کا عادل تھا۔ اللہ جانتا ہے‘ میں نے دو بھائیوں میں ایسی بے مثال محبت بہت کم دیکھی۔ دونوں ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی تھے۔ کرکٹ کھیلنے جاتے تو دونوں اکٹھے جاتے‘ محلے میں کسی سے لڑائی ہو جاتی تو دونوں مل کر اُس کی پھینٹی لگاتے۔ فلمیں اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے اور عید پر ایک دوسرے کو جپھیاں ڈال کر مبارکبادیں دیتے۔ سارے محلے والے اپنے بچوں کو شاکر اور عادل کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ دیکھو ایسے ہوتے ہیں بھائی۔ اِن کے والدین بھی بہت اچھے تھے‘ کبھی اُن کے گھر سے لڑائی کی آواز نہیں آئی؛ البتہ پورا گھرانہ سیر و تفریح کا بہت شوقین تھا۔ آئے دن شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلے ہوتے۔ میں نے اِن دونوں بھائیوں کو ہر معاملے میں ایک دوسرے کا حامی پایا۔ جیسے یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے لیے یک جان دو قالب تھے‘ اسی طرح ان کے ماں باپ بھی آپس میں بہت محبت سے رہتے تھے... لیکن ایک دن اس گھر کو کسی کی نظر لگ گئی...!!!
اِن لوگوں نے اپنا پرانا گھر بیچ دیا اور ایک خوبصورت سوسائٹی میں نیا گھر لے لیا۔ جس دن وہ محلے سے جا رہے تھے ہم سب اداس تھے‘ سب محلے والوں نے مشترکہ طور پر ان کی دعوت کی اور تاکید کی کہ پرانے محلے داروں سے ملنے کے لیے آتے رہنا ہے۔ بڑے اچھے ماحول میں یہ گھرانہ اپنے نئے مقام پر منتقل ہوا۔ شروع میں دو تین دفعہ میں نے اِن کے گھر جا کر ملاقات کی لیکن پھر اپنی مصروفیات میں پھنس کر رہ گیا۔ تین چار سال بعد ایک دن اُن کی سوسائٹی میں ایک دوست سے ملنے کے لیے گیا تو یاد آیا کہ شاکر اور عادل سے بھی ملتا جائوں۔ سوسائٹی کی شکل کافی تبدیل ہو چکی تھی‘ مجھے گھر ڈھونڈنے میں مشکل پیش آرہی تھی ۔ بلاک نمبر یاد تھا نہ گھر کا نمبر۔ پہلے تو سیدھا سا راستہ تھا‘ میں آسانی سے پہنچ جاتا تھا لیکن اب کافی گھر بن چکے تھے۔ میں نے اندازے سے ایک گلی میں گاڑی موڑی۔ سامنے کچھ نوجوان کھڑے تھے۔ میں نے سلام لیا اور پوچھا کہ شاکر اور عادل کا گھر کون سا ہے؟ لڑکے الجھن میں پڑ گئے اور آپس میں پوچھنے لگے۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ شاکر کی ایک بہت بڑی نشانی ہے کہ اُس کا قد معمول سے کافی لمبا ہے۔ لڑکوں نے یہ نشانی سنی تو چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ پھر پوچھنے لگے ''وہی تو نہیں جو دو بھائی ہیں اور تین چار سال پہلے سوسائٹی میں شفٹ ہوئے ہیں‘‘۔ میرے چہرے پر طمانیت پھیل گئی۔ ''جی جی وہی‘‘۔ لڑکوں نے ایک قہقہہ لگایا ''تو سیدھا سیدھا کہیں ناں پٹواری کے گھر جانا ہے‘‘۔ میں نے کنپٹی کھجائی ''یار شاکر تو انجینئر بن گیا تھا‘ پٹواری تو نہیں تھا‘ میرا خیال ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔ ایک لڑکا تمسخرانہ انداز میں گاڑی کی ونڈو کے پاس آ کر جھکا اور بولا ''جناب کچھ لوگ انجینئر بن کر بھی پٹواری ہی رہتے ہیں... وہ سامنے والی گلی سے رائٹ سائڈ پر تیسرا گھر ہے اُس کا‘‘۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور گاڑی آگے بڑھائی۔ میرے ساتھ بیٹھا دوست بھی حیران ہو رہا تھا کہ ایک انجینئر بھلا کیسے پٹواری ہو سکتا ہے۔ بہرحال ہم لوگ شاکر کے گھر پہنچ ہی گئے۔ وہ گیٹ پر ہی کھڑا موبائل پر کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر یکدم اُس کے چہرے پر خوشی پھیل گئی۔ بڑی گرم جوشی سے ملا اور ہمیں ڈرائنگ روم میں لے آیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انجینئر ہے اور بہت اچھی تنخواہ لے رہا ہے۔ میں نے مبارکباد دی اور پوچھا کہ تمہارا چھوٹا بھائی عادل کدھر ہے؟ شاکر نے منہ بنایا ''وہ... یوتھیا... ہو گا کسی دوست کے پاس‘‘۔ ایک دم سے میرے دماغ کی ساری گرہیں کھل گئیں۔ پٹواری اور یوتھیا... ساری بات سمجھ میں آ گئی۔ پھر اُس کے بعد جو کچھ پتا چلا وہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ شاکر پٹواری بن چکا تھا اور عادل یوتھیا۔ پٹواری ہونا کوئی بری بات نہیں اور یوتھیا کا لفظ یوتھ سے نکلا ہے‘ نوجوانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دونوں لفظوں میں کوئی خامی نہیں لیکن اِن دو لفظوں نے دو سگے بھائیوں کے درمیان دراڑ پیدا کر دی تھی۔ اُن کے والدین بھی سیاسی اختلاف کے باعث بٹ چکے تھے اور اب آئے روز گھر میں جھگڑوں کا طوفان اُٹھتا تھا۔
تین چار دن بعد پتا نہیں مجھے کیا سوجھی... میں فون کرکے دوبارہ اُن کے گھر پہنچا۔ ساری فیملی گھر میں ہی تھی۔ میں اُن کی بربادی کی وجہ جاننا چاہتا تھا‘ اگرچہ مجھے اندازہ تھا کہ وجہ کیا ہو سکتی ہے لیکن پھر بھی اُنہیں بولنے کا موقع دیا۔ شعلے تھے... ہر زبان میں شعلے تھے... وہاں نہ عمران خان موجود تھا نہ نواز شریف... رِنگ خالی تھا‘ پہلوان غائب تھے لیکن پورا گھر میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ ایک دوسرے کے بغیر نہ رہنے والے بھائی جانی دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کو سیاسی طعنے دے رہے تھے۔ ان کے والدین بھی بڑھ چڑھ کر چلا رہے تھے۔ دونوں کے دلائل میں وزن تھا اور دونوں کے دلائل پھوکے تھے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن چکا تھا۔ میں نے ماحول تبدیل کرنے کے لیے ایک لطیفہ سنایا ‘ لیکن کمرے میں موجود چاروں افراد کے جبڑے بھینچے ہوئے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں سے نہیں مسکرائے۔ میں نے حوصلہ کر کے ایک اور لطیفہ سنایا... گہری خاموشی رہی... میں نے کھسیانہ ہو کر خود ہی زوردار قہقہہ لگا دیا۔ مزید بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا... یہ غیروں کے ہمدرد اور اپنوں کے لیے غیر بن چکے تھے۔ پٹواری دعویٰ کر رہا تھا کہ نواز شریف اس ملک کا نجات دہندہ ہے‘ اُس نے ملک کو بچایا ہے‘ ترقی دی ہے‘ عوام کے لیے اُس کے دل میں درد ہے۔ یوتھیا چیخ رہا تھا کہ عوام کا اصل درد عمران خان کے دل میں ہے‘ اُس نے نوجوانوں کو شعور دیا ہے‘ ملک کو لٹیروں سے بچایا ہے‘ وہی میرا لیڈر ہے۔
اس بات کو دو ماہ گزر گئے۔ میں بھی سب بھول بھال کر اپنے کاموں میں لگ گیا۔ کل رات ساڑھے تین بجے مجھے شاکر کے والد صاحب کی کال آئی‘ میں عموماً رات کو موبائل آف کر دیتا ہوں‘ لیکن اُس دن شاید مجھے یہ فون سننا تھا۔ وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ پتا چلا کہ ان کی اہلیہ سیڑھیوں سے گر گئی ہیں اور ہسپتال کی ایمرجنسی میں ہیں۔ میں فوری طور پر نکلا اور سیدھا ہسپتال پہنچ گیا۔ شاکر اور عاد ل کی والدہ بے ہوشی کے عالم میں تھیں ‘ ماتھا پھٹ چکا تھا اور انتہائی سیریس کنڈیشن تھی۔ دونوں بھائی زار و قطار روتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔ فوری طور پر او نیگیٹو گروپ کے خون کی تین بوتلوں کی ضرورت تھی اور رات کے اس پہر ہسپتال میں بھی اتفاق سے یہ گروپ میسر نہیں تھا۔ تھوڑی دیر میں سوسائٹی کے وہ لڑکے بھی وہاں آ گئے جن سے میں نے ایڈریس پوچھا تھا۔ ایک لڑکے کا گروپ میچ کر گیا۔ شاکر کا خون بھی او نیگیٹو نکلا... اور تیسری بوتل کا انتظام شاکر کے ماموں نے کر دیا۔ الحمدللہ... ڈاکٹروں کے مطابق اب مریضہ کی حالت خطرے سے باہر ہے... پٹواریوں اور یوتھیوں نے اپنا خون دے کر ایک جان بچا لی۔ اس دوران نہ کسی پٹواری کے پاس نواز شریف کا فون نمبر تھا‘ نہ کسی یوتھیے کے پاس عمران خان کا نمبر... اور بالفرض ہوتا بھی تو کیا ہوتا؟ کسی نے آ جانا تھا؟ مصیبت پڑی تو یہ یوتھیے‘ یہ پٹواری ہی ایک دوسرے کے کام آئے۔ جن کے ساتھ دشمنی پالی تھی اُن کو اپنا خون دے دیا اور جن کی وجہ سے پالی تھی اُنہیں خبر ہی نہ ہوئی...!!! یہی ہمارے اپنے لوگ ہیں... یہ پٹواری اور یوتھیے تو بن گئے ہیں‘ لیکن اتنی سی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہی ایک دوسرے کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں...!!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں