آج ووٹ ڈالنا ہے تو یہ کام ضرور کیجئے!

آج پچیس جولائی ہے‘ یقینا عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے نکلے گی۔ آج کا دن ایسے ہی گزارئیے جیسے عید یا کوئی خوشی کا تہوار گزارتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنئے‘ فیملی کو ساتھ لیجئے‘ ہمسائے سے گلے ملئے خصوصاً اُس سے جو آپ کی مخالف پارٹی کا ہے۔ آج پورے پاکستان میں چھٹی ہے لہٰذا اس چھٹی میں ذمہ داری کے ساتھ ساتھ خوشیوں کے رنگ بھریے۔ جس جگہ آپ کا پولنگ سٹیشن ہو گا‘ وہاں آپ کے علاقے کے دیگر لوگ بھی ووٹ ڈالنے آئے ہوں گے۔ اُن سے ہنستے مسکراتے ہوئے ملئے۔ اپنی پارٹی کے کیمپ سے تو آپ نے ووٹ کی پرچی بنوانی ہی ہے‘ مخالف کیمپ سے بھی اظہارِ محبت کے طور پر پرچی بنوا لیجئے۔ یہ پرچی سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ اس پر آپ کے ووٹ کی ضروری تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ پولنگ بوتھ پر جانے سے قبل یہ پرچی بے شک کسی بھی جماعت کی طرف سے بنی ہو‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر پارٹی نے اپنے ووٹروں کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کا انتظام کر رکھا ہوتا ہے۔ کوئی قیمے والے نان دیتا ہے‘ کوئی بریانی دیتا ہے اور کوئی حلوہ پوری سے استقبال کرتا ہے۔ جو چیز پسند آئے‘ ضرور کھائیے۔ اِس سے ووٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ سب لوگ جو وہاں پر جمع ہوں گے پچیس جولائی کے بعد بھی آپ نے اِن کے درمیان رہنا ہے‘ انہی سے ملنا جلنا ہے۔ اگر آپ کی پارٹی ہار جاتی ہے یا آپ کے ہمسائے کی پارٹی ہار جاتی ہے تو یقینا اِس سے آپ کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آج گھر سے نکلنے سے پہلے یا ووٹ ڈالنے کے بعد سویّاں یا کھیر ضرور پکوائیے اور جب رزلٹ کا اعلان ہو تو جیتنے کی صورت میں یہ میٹھا خود کھائیے اور ہارنے کی صورت میں اسے ہمسائے کے گھر خود دے کر آئیے اور مبارکباد بھی دیجئے۔ الیکشن کا جوش صرف آج تک کا ہے‘ دو دن بعد یہ سارا جوش بیٹھ چکا ہو گا اور زندگی معمول پر آ جائے گی لہٰذا پوری کوشش کیجئے کہ آج کے دن کوئی ایسی بات نہ ہو جو آپ کے دوستوں عزیزوں‘ محلے داروں کو پانچ سال تک ایک تلخ یاد بن کر ڈستی رہے۔ اس وقت ہر شخص یہی سمجھ رہا ہے کہ وہی ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کو یہ حق ہے ویسے ہی دوسروں کا بھی یہ حق تسلیم کیجئے اور ذہن میں بٹھا لیجئے کہ جس طرح دوسرے غلط ہو سکتے ہیں‘ میں بھی غلط ہو سکتا ہوں۔ رات تک لگ بھگ تمام نتائج کا اندازہ ہو چکا ہو گا۔ اگر آپ کی پارٹی کو فتح حاصل ہوتی ہے تو ہارے ہوئوں پر طنز کے تیر برسانے کی بجائے اُنہیں اپنی فتح کی خوشی میں شریک کیجئے کہ ''جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں‘‘۔
آج کے دن چہرے پر مسکراہٹ رکھئے‘ ووٹ جس کو مرضی دیجئے لیکن کسی صورت اپنے رشتے ناتے بیلٹ باکس میں نہیں ڈالنے۔ اسے نفرت کی بجائے محبت کی جنگ میں تبدیل کیجئے۔ سیاست نے ہمارے درمیان ایک ایسی ان دیکھی لکیر کھینچ دی ہے جس نے ہمارے اپنوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ شک کی یہ دیوار گرائیے اور ووٹ ڈالنے کے بعد اُسی زندگی کی طرف لوٹ جائیے جس میں آپ نے جینا ہے۔ زندگی صرف جیتنے ہی کا نام نہیں‘ ہار بھی بہت قیمتی ہوتی ہے۔ ریس میں ساتھ دوڑنے والے ضروری ہیں ورنہ اکیلے دوڑ کر ریس نہیں جیتی جاتی۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اپنی فیملی کو لے کر کسی اچھے سے پارک میں جائیے‘ کسی رشتہ دار کے گھر جائیے‘ خوب انجوائے کیجئے اور واپس آ کر دنیا جہان کی خبر رکھنے کی بجائے اطمینان سے سو جائیے۔ بے فکر رہیں‘ آپ ٹی وی نہیں بھی دیکھیں گے تب بھی رزلٹ انائونس ہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ کو اس گرما گرم ماحول میں ایک ایک چیز سے باخبر رہنے کا شوق ہے تو کوئی ایسی بات نہیں۔ شوق سے ٹی وی دیکھئے‘ سوشل میڈیا پر نظر رکھئے‘ واٹس ایپ کے میسجز شیئر کیجئے... لیکن آج کے دن... صرف آج کے دن کسی مخالف کو ذلیل نہ کیجئے‘ جب ہم فیس بک پر ایسی کوئی پوسٹ لگاتے ہیں تو ہمارے بے شمار دوست جو سیاسی نقطہ نظر رکھنے کے باوجود خاموش رہتے ہیں‘ اُنہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا‘ لیکن جو دوست ہمارے نظریے سے متفق نہیں ہوتے وہ شدید اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بے شمار دوست ایسے ہوتے ہیں جو ہم سے مخالف نظریہ رکھنے کے باوجود ہمیں اَن فرینڈ نہیں کرتے‘ ایسے دوستوں کی قدر کیجئے اور اپنی وال کو محض اپنی وال نہ سمجھئے‘ آپ جو چیز اپنی وال پر شیئر کرتے ہیں وہ آپ کے دوستوں کی وال پر بھی نظر آتی ہے‘ اور یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ وہ آپ کو نہ بلاک کرتے ہیں نہ اَن فرینڈ۔ کئی احباب یہ سب کچھ کر بھی گزرتے ہیں اور اُن کا حق بھی ہے لیکن حضور! صرف آج کے دن جیت یا ہار... دونوں صورتوں میں جذبات پر قابو رکھئے۔
آج آپ اپنے اپنے محبوب لیڈر کو ووٹ ڈالیں گے‘ لیکن یاد رہے کہ جو آپ کا محبوب نہیں وہ کسی اور کا محبوب ہے۔ جتنے دلائل آپ کے پاس ہیں اتنے ہی مخالف کے پاس بھی ہیں۔ اپنے علاقے کو کھلی کچہری میں تبدیل کرنے سے گریز کریں اور دُعا یہ کریں کہ جو بھی آئے وہ پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہو۔ میرے دوست راجہ فراز نے آج کے دن کے لیے انتہائی دلچسپ پروگرام بنایا ہے۔ انہوں نے بیس کلو مٹھائی خریدی ہے اور کہتے ہیں: اگر میری پارٹی ہار گئی تو میں جیتنے والی پارٹی کے لوگوں کے گھروں میں جا کر اُن کا منہ میٹھا کروں گا‘ جپھی ڈالوں گا اور کھلے دل سے کہوں گا کہ آپ کی جیت ہی میری جیت ہے۔ کیا خوبصورت پروگرام ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ جملے اور یہ رویہ اختیار کرنے پر آپ سے مخالف سوچ رکھنے والا آپ کا گرویدہ نہ ہو جائے۔ یاریاں‘ دوستیاں بچانے اور گنوانے کا اس سے اچھا موقع اور کوئی نہیں۔ آج اگر طنز کے تیر چلے تو اگلے پانچ سال تک سینہ چھلنی رہے گا اور یہ آگ نسلوں تک پھیلے گی۔ خدارا ایسی ویڈیوز سے بھی پرہیز کیجئے جس میں تین چار سال کا بچہ مخالف پارٹی کے لیڈر کو برا بھلا کہتا نظر آتا ہے۔ یہ بچے ہیں‘ اِن سے اِن کی سوچ نہ چھینئے‘ اِنہیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ الیکشن کیا ہوتے ہیں‘ ووٹ کیا ہوتا ہے۔ یقینا اِن کی زبان میں یہ الفاظ ان کے ماں باپ ہی بھرتے ہیں‘ لیکن کل کلاں کو جب یہ بچے بڑے ہوں گے اور انٹرنیٹ پر اپنی یہ ویڈیوز دیکھیں گے تو اپنے والدین سے ہی پوچھیں گے کہ جس عمر میں مجھے آپ نے محبت کا درس دینا تھا‘ نفرت کا سبق ازبرکرا دیا۔ پھر یاد رہے کہ آج پچیس جولائی ہے... ووٹ ڈالنے کا دن ہے‘ نفرتیں بونے کا نہیں۔ اگر اچانک پولنگ سٹیشن پر آپ کو اپنا عزیز ترین دوست یا ہمسایہ مخالف کیمپ میں نظر آتا ہے تو اتنا ضرور سوچ لیجئے گا کہ جو دُکھ آپ محسوس کر رہے ہوں گے وہ بھی شاید اسی کیفیت سے گزر رہا ہو۔ ہم سب اپنی مرضی کے کپڑے پہنتے ہیں‘ کبھی کوئی دوسرے پر اعتراض نہیں کرتا کہ تم نے فلاں رنگ کا لباس کیوں پہنا‘ ہم اپنی مرضی سے اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں‘ مرضی سے گھر میں کھانا بنتا ہے‘ مرضی سے اپنی پسند کی جگہ پر سیر سپاٹے کے لیے جاتے ہیں‘ تو پھر مرضی سے اپنے امیدوار کو ووٹ کیوں نہیں دے سکتے؟ یہ بھی ہر بندے کی اپنی پرائیویسی ہے‘ ہم کون ہوتے ہیں اُس کی پرائیویسی میں دخل دینے والے... ہمیں ہر مخالف پارٹی کا بندہ برا لگتا ہے‘ اُسے بھی ہم برے لگتے ہیں۔ لیکن خوبصورت ترین بات یہ ہے کہ وہ بھی پاکستان کا بھلا چاہتا ہے اور ہم بھی... سوچ ایک ہے‘ زاویے مختلف ہیں۔ منزل ایک ہے‘ راستے مختلف ہیں۔ سو بسم اللہ کیجئے... نکلئے... ایک محبت بھرے پاکستان کے لیے...!!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں