یہ مٹن تمہارا ہے…!!!

چھوٹی عید پر میرا درزی یکم رمضان ہی کو دکان پر لکھ کر لگا دیتا ہے 'عید کی بکنگ بند ہے‘۔ اور '' لارج عید‘‘ یعنی بڑی عید پر یہ حال ہوتا ہے کہ پچھلے ہفتے میں نے شرٹ سلنے کے لیے دی تو اگلے ہی دِن اُس کا فون آ گیا کہ شرٹ کافی دیر سے تیار پڑی ہے۔ بڑی عید پر لوگ نئے کپڑوں کے چکروں میں کم ہی پڑتے ہیں۔ شاپنگ اور کپڑوں کا خرچہ تو جانور کی خریداری میں نکل جاتا ہے۔ ویسے بھی سارا دن تو قصائی کے ساتھ گوشت بنوانا ہوتا ہے‘ نئے کپڑے کون پہنے ‘ بلکہ آج تو ممکن ہے کہ کئی لوگ بیویوں پر برس رہے ہوں کہ میرے پھٹے ہوئے کپڑے کدھر ہیں؟ یہی فائدہ ہے بڑی عید کا۔ چھوٹی عید پر سخت گرمی کے باوجود نئے کپڑے نہ پہننے کا کوئی جواز نہیں ہوتا جبکہ بڑی عید پر نماز سے فارغ ہو کر بندہ کچھا بنیان پہن کر اطمینان سے گلی میں بھی پھر سکتا ہے کہ اِس عید پر یہی لباس جچتا ہے۔آج کے دن جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوں سمجھ جائیے کہ صاحب حیثیت بندہ ہے ۔ آج نماز عید کے بعد پورا دن ایسے ہی کپڑے پہننا پڑیں گے‘ شام کو تھک ہار کر لوگ سو جائیں گے۔ اصل عید کل شروع ہو گی جب گیراج دھل چکے ہوں گے‘ صفائی ہو چکی ہو گی اور باربی کیو پارٹیوں کے میسجز موصول ہو چکے ہوں گے۔ کئی میرے جیسے بھی ہوں گے جنہیں چھوٹے اور بڑے گوشت کی بجائے چکن سے رغبت ہے‘ سو ایسے تمام لوگوں کے ہاتھ میں پُٹھ کی بوٹی کی بجائے لیگ پیس نظر آئیں گے۔
آپ قربانی کر رہے ہیں تو خیال رکھئے گا اور ران اور پائے وغیرہ پہلے ہی سائیڈ پر رکھ لیجئے گا‘ ایسی چیزیں باہر جاتی اچھی نہیں لگتیں۔ ہاں سری بے شک کسی نہایت مستحق کے حصے میں آ جائے‘ پروا نہیں۔ میرے ہمسائے میں ایک صاحب نے پچھلی دفعہ دو بکرے ذبح کیے۔ ان کے ہاں دو بہن بھائی کام کرتے ہیں‘ انہوں نے بھائی کو بلایا اور سریوں والے دونوں شاپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے ''پُتر اے لے پھڑ! اِک تیری سری‘ اِک تیری پین دے لئی‘‘۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کے بارے میں اہل محلہ کا اجماع ہے کہ لوگوں کے کام آتے تو ہیں لیکن انتہائی بد دلی سے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ قبلہ کے ہاں قربانی ہو تو گوشت سے زیادہ مینگنیاں سنبھال کر رکھتے ہیں۔
کوشش کیجئے گا کہ عزیز و اقارب کے حصے کا گوشت صرف وہاں وہاں جائے جہاں سے تقریباً اتنا ہی گوشت آنے کی اُمید ہو۔ جن رشتہ داروں نے قربانی نہیں کی اُن کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں‘ کہیں نہ کہیں سے اُنہیں گوشت آ ہی جائے گا‘ آخر آج عید ہے۔ اگر آپ نے میری ہدایت پر عمل کیا تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر آپ نے بیس کلو کے بکرے کی قربانی کی ہے تو سارا گوشت بانٹ کر شام تک آپ کے فریج میں تیس کلو گوشت آ چکا ہو گا۔ یہ خالص منافع تصور کیجئے اور کچھ اس طرح سے فریز کیجئے کہ پوری سردیاں اسی میں گزر جائیں۔ یاد رہے کہ اگر آپ نے بکرے کی قربانی دی ہے اور آپ کو مسلسل اونٹ‘ گائے اور بیل کا گوشت موصول ہو رہا ہے تو اپنا مٹن سنبھال کر رکھئے اور ادل بدل کر کے بڑا گوشت ہی آگے چلاتے جائیے اور دل کی تسلی کے لیے بار بار خود کو تنبیہ کرتے رہیے کہ ''یہ مٹن تمہارا ہے‘ تم ہو پاسباں اس کے‘‘۔
قربانی کے جانور کی کھال دیتے وقت آپ نے خاص احتیاط کرنی ہے کہ کہیں آپ کی 'کھال‘ دہشت گردی میں نہ استعمال ہو جائے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گھر میں جو ملازم یا ملازمہ کام کرتی ہے اس سے اس کا تصدیق شدہ شناختی کارڈ مانگیں‘ ساتھ ایک حلف نامہ سائن کروائیں‘ دو پاسپورٹ سائز تصویریں ڈیمانڈ کریں اور ہو سکے تو کھال دیتے وقت موبائل سے تصویر بھی بنوا لیں ‘ پھر بھی تسلی نہ ہو تو دو معتبر لوگوں کی گارنٹیاں بھی مانگ لیں۔ لیکن اگر آپ کسی خیراتی ادارے کو کھال دینا چاہتے ہیں تو مزید احتیاط کریں ‘ کہیں میرے والا حال نہ ہو جائے...!!
آج سے تین چار سال پہلے یہی دن تھے‘ قربانی کی عید تھی۔ بکرے کی آوازیں سن کر دروازے پر بیل ہوئی‘ میں نے دروازہ کھولا تو ایک صاحب ہاتھ میں رسید بک پکڑے کھڑے تھے۔ سلام دُعا کے بعد فرمانے لگے کہ میں 'کھال فار آل‘ کی جانب سے آیا ہوں اور گزارش کرنی ہے کہ کل جب آپ بکرے کی قربانی دیں تو کھال ہماری تنظیم کو دیجئے گا۔ میں نے سر کھجایا اور کہا 'محترم! صبح سے پندرہ بیس لوگ اسی طرح آ چکے ہیں‘ سب کہتے ہیں کہ کھال انہی کی تنظیم کو دوں‘ ایک انار سو بیمار والا حال ہے‘ آپ ہی فرمائیے‘ ایک بکرا ہے‘ ایک کھال ہے‘ کس کس کو دوں؟
جلدی سے بولے 'دیکھئے ہماری تنظیم کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہم معذوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں‘‘۔ میں نے شکی نظروں سے دیکھا 'کیا ثبوت ہے اس بات کا؟‘۔ انہوں نے رسید بک آگے بڑھا دی جس پر ان کی تنظیم کا نام اور کام لکھا ہوا تھا۔ میں نے بحث شروع کر دی۔ ''دیکھئے! فلاحی کاموں کا دعویٰ تو ہر کوئی کرتا ہے‘ ایسی رسیدیں چھپوانا بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ میں آپ کو جانتا تک نہیں‘ نہ کبھی آپ کی تنظیم کا نام سنا ہے‘ پہلی بار آپ سے ملاقات ہو رہی ہے ‘ میں کیسے یقین کر لوں کہ جو کھال میں آپ کو دوں گا اس کے پیسے کسی معذور کے کام آئیں گے؟‘‘۔
انہوں نے ایک گہری سانس لی‘ پھر جیب سے ایک پاکٹ سائز مقدس کتاب نکالی اور اُس پر ہاتھ رکھ کر بولے 'یہ دیکھئے میں اِس کتاب کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ آپ جو کھال مجھے عنایت کریں گے اس کے پیسے سو فیصد کسی معذور کو ہی ملیں گے‘‘۔ قسم بہت بڑی تھی ‘ بولنے کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا میں یکدم چپ کر گیا‘ اتنی بڑی بات کے آگے میں مزید کیا کہتا۔ سو وعدہ کر لیا اور کہا کہ کل تقریباً دو بجے آ کر کھال لے جائیے گا۔ انہوں نے رسید پر مجھ سے سائن لیے اور میں نے گیٹ بند کر دیا۔
اگلے دن قربانی ہو گئی... بوٹیاں بن گئیں۔ بہت سے لوگ کھال لینے کے لیے آئے لیکن مجھے اُنہی صاحب کا انتظار تھا جن سے میں وعدہ کر چکا تھا۔ ٹھیک دو بجے بیل ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے وہی صاحب کھڑے تھے۔ کل والی رسید اُن کے ہاتھ میں تھی اور دانت نکالتے ہوئے کھال مانگ رہے تھے۔ مجھے پھر شک سا ہوا‘ دیکھئے کل آپ نے قسم اٹھا کر وعدہ کیا تھا کہ ... انہوں نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا ''دوبارہ قسم اٹھا دوں؟‘‘۔ نہیں نہیں‘ رہنے دیجئے... میں نے جلدی سے کہا اور کھال ان کے حوالے کرتے ہوئے یاد دلایا ''مجھے امید ہے اس کھال کے پیسے کسی معذور کے پاس ہی جائیں گے‘‘۔
''بے فکر رہیں ایسا ہی ہو گا‘‘ انہوں نے کہا اور سلام لے کر کھال کندھے پر ڈال لی۔ میںگیٹ بند کر کے اندر آنے ہی لگا تھا کہ اچانک کسی خیال کے تحت گلی میں جھانک کر دیکھا... قبلہ اطمینان سے 'لنگڑاتے‘ ہوئے جا رہے تھے...!!!
بڑی عید پر لوگ نئے کپڑوں کے چکروں میں کم ہی پڑتے ہیں۔ شاپنگ اور کپڑوں کا خرچہ تو جانور کی خریداری میں نکل جاتا ہے۔ ویسے بھی سارا دن تو قصائی کے ساتھ گوشت بنوانا ہوتا ہے‘ نئے کپڑے کون پہنے ‘ بلکہ آج تو ممکن ہے کہ کئی لوگ بیویوں پر برس رہے ہوں کہ میرے پھٹے ہوئے کپڑے کدھر ہیں؟ یہی فائدہ ہے بڑی عید کا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں