افراد نہیں ہمیں اصول کو دیکھنا ہوتا ہے۔ معاشرے برباد ہو جاتے ہیں، جب وہ مصلحت پسند ہوجائیں اور ہماری امیدیں خدا سے وابستہ ہیں، کسی ایک شخص سے نہیں۔ تحریکِ انصاف کے کارکن پریشان ہیں، خاص طور پر لاہور کے مخلص کارکن۔ پارٹی میں الیکشن ہوئے تو اچھا ہوا لیکن جس طرح یہ انتخابات منعقد ہوئے اور جو لوگ اس میں چنے گئے، اس پروہ آزردہ ہیں۔تنقید ہو تو بہت سے لوگ خود فریبی کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔جعلی جوابی دلائل تراش لیتے ہیں۔ مثلاًاگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ واویلا نون لیگ کے ڈھنڈورچی کررہے ہیں۔ ایک شاہی خاندان کی جماعت، جس میں الیکشن ہوتے ہی نہیں۔ وہی کیا جماعت اسلامی اور اے این پی کے سوا سبھی کا حال یہی ہے۔ ایک شخص کی جیب میں پارٹی پڑی رہتی ہے، جسے چاہے کوئی بھی عہدہ عطا کردے‘ جسے چاہے نکال دے۔ میں ترا چراغ ہوا، جلائے جا‘ بجھائے جا۔ چارہ ماہ ہوتے ہیں۔ کپتان نے فون کیا ’’اب میں نے ایک اور دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اس نے بشاشت سے کہا ’’ ہاں، تم پارٹی میں الیکشن کرانے والے ہو‘‘ خوش دلی سے وہ ہنسا۔ شاد تھا کہ برِّصغیر کی تاریخ میں پہلی بار، کسی جماعت میں نچلی سطح تک، تمام عہدیدار منتخب ہوں گے۔ میں نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ بعض لوگوں، حتیٰ کہ پارٹی کے کچھ لیڈروں کا گمان یہ ہے کہ ہر چیز میں، وہ مجھ سے مشورہ کرتا ہے۔ قطعاً نہیں۔ اگر وہ ایک لیڈر ہے اور یقیناً ہے تو ہر بات پر کسی ایک شخص سے مشاورت کا کیا سوال۔ ہر موضوع کے ماہرین ہوتے ہیں اور اُنہی سے بات کرنی چاہیے۔ کسی کی ذاتی زندگی پر بات نہ کرنی چاہیے؛ لہٰذا نام نہیں لکھ رہا۔ 3اکتوبر 2001ء کے فوراً بعد ایک ممتاز رہنما نے‘ جو بہت بڑے منصب پر فائز رہے، ذاتی دوستوں کے ذریعے رابطہ کیا۔ انکار کردیا۔ دوست اصرار کرتے رہے کہ کم از کم مالی معاملات میں، وہ گوارا ہے۔ میری معلومات مختلف تھیں؛ چنانچہ میں خاموش رہا۔ کسی طرح وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہوگئے اور جب دیکھا کہ دال نہیں گل رہی تو بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا۔ ایک آدھ نہیں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ ہمیشہ مجھے افسوس رہے گا کہ میں نے شاہ محمود کو پارٹی میں شامل کرنے کی مخالفت نہ کی۔ ایسے لوگ ہرگز کوئی اثاثہ نہیں ہوتے۔ اتنی ہمت تو اس میں ہے نہیں کہ سب سے بڑی حریف نون لیگ کے خلاف بات کرے۔ اس قماش کے اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔ کپتان کہتا ہے: سب کھلاڑی ویون رچرڈ نہیں ہوتے اور جنہیں تم غدّار سمجھتے ہو‘ اصل میں وہ کمزور لوگ ہیں۔ سبھی لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ جہاں تک پارٹی سے وابستہ ہونے کا سوال ہے‘ اصولی طور پر خان کی بات درست ہے لیکن اگر کوئی شاہ محمود کی طرح شرائط عائد کرے؟ اگر کسی اور کی شرط نہ مانی گئی تو اس کی کیوں؟اصول یہ ہے: جو شخص خود کو کسی منصب کا حق دار سمجھے‘ تو ہرگز وہ اس کا اہل نہیں ہوتا۔ سیدنا ابو ذر غفاریؓ نے‘ جب سرکارؐ سے فرمائش کی تو عالی مرتبتؐ نے ارشاد کیا تھا: ابوذر ہم مانگنے والوں کو منصب نہیں دیا کرتے… اور ابوذرؓ کون تھے؟ فرمایا: ’’زمین نے بوجھ نہیں اٹھایا اور آسمان نے سایہ نہیں کیا‘ ابوذرؓ سے زیادہ سچے آدمی پر…‘‘ کوئی آدمی اپناجج نہیں ہوتا۔ یہ دوسروں کا کام ہے کہ وہ فیصلہ صادر کریں۔ کوئی ادارہ‘ کوئی گروہ جنہیں یہ ذمہ داری قاعدے قانون کے مطابق سونپی جائے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ خدا کی اس کائنات میں‘ آدمی جدوجہد کا مکلف ہے‘ نتائج کا نہیں۔ یہ ظالموں کا شعار ہے کہ The end justifies the means (آخری نتیجہ‘ اختیار کیے گئے ذرائع کا جواز فراہم کرتا ہے)۔ جی نہیں‘ جائز کام کے لیے جائز طریق‘ وگرنہ بُنیاد مضبوط نہ ہو گی اور عمارت ڈھے پڑے گی۔ اب بھی عمران خان سب سے بہتر ہے۔ میاں محمد نوازشریف ا ورصدر آصف علی زرداری کا اس سے کیا موازنہ؟ اب بھی مجھے یقین ہے کہ مالدار طبقات میں امریکہ کے زیرِ اثر قائم ہوتے اتحاد کے باوجود الیکشن وہ جیت لے گا۔ ہاں، مگر حال یہی رہا تو زیادہ سے زیادہ ا سے پانچ سال کے لیے حکومت ملے گی اور کون جانتا ہے کہ انجام کیا ہوگا! برِّصغیر میں پارٹی ہوتی ہی نہیں‘ بس لیڈر ہوتا ہے۔ کامیابی حاصل ہو بھی جائے تو برقرار نہیں رہتی؛ چنانچہ سبھی کی متاع لُٹی۔ مہاتما گاندھی‘ پنڈت نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو ہی نہیں‘ تین صدیوں کے عظیم ترین رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بھی۔ اُن کا ملک اب تک سنبھل نہیںسکا‘ حالانکہ اس میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں‘ جس کا حل موجود نہ۔ اس لیے کہ اُن کی پارٹی کُوڑے کا ڈھیر بن گئی۔ آل انڈیا کانگرس نہرو خاندان کی ملِک ہے‘ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ مجیب کے خانوادے کی۔ مسلم لیگ اب شریف کنبے کی جائیداد ہے۔ جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود کے فرزند اور اے این پی باچا خان کی وراثت۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مستحکم جمہوری معاشرے میں سب سے اہم ادارہ سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی ہیں‘ جمہوری طور پر تشکیل دی گئی پارٹیاں۔ تبھی پارلیمنٹ معتبر ہو سکتی اور تبھی وہ سیاسی استحکام جنم لیتا ہے‘ جس میں اقتصادی و سماجی فروغ ممکن ہو۔ امریکہ سے آسٹریلیا تک‘ عالم اسلام میں تُرکی سے ملائیشیا تک ساری دنیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے بعض دانشور لیکن کنویں کے مینڈک ہیں۔ ان کے لیے جمہوریت فقط سول حکومت اور الیکشن کا نام ہے‘ جنرل پرویز مشرف کی جگہ، آصف علی زرداری کا! علیم خان سے کوئی کد ہے اور نہ رشید بھٹی سے ۔ مگر پارٹی کارکن ہی نہیں‘ اس جماعت سے ہمدردی رکھنے والے سب ہوش مند لوگوں کو میں نے مضطرب پایا۔ معمولی کردار کے لوگ پارٹی میں شامل ہوئے تو مقبولیت میں سات فیصد کمی آئی تھی۔ اب کیا ہوگا؟ ممکن ہے خرابی نہ بڑھے کہ گڑ بڑ ہر جگہ نہیں ہوئی، چند ایک مقامات ہی پر۔ لاہور کا حال لیکن بہت بُرا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جس جماعت کو دستور کی دفعات 62,63 پہ اتنا اصرار ہے‘ اُس نے ایسے لیڈر چنے ہیں کہ ان دفعات کا اطلاق ہو تووہ الیکشن نہ لڑسکیں۔ علیم خان کے اچھے پہلو بھی بہت ہیں مگر اُن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ جائیدادکے کاروبار میں ہر طرح کے منفی ہتھکنڈے وہ اختیار کرتے ہیں۔ رشید بھٹی کے جیتنے کی خبر آئی تو کپتان کے خیرخواہ ایک معتبر آدمی نے مجھ سے کہا: ’اب علیم خان گوارا لگے‘ رشید بھٹی سے تو بہرحال اچھے ہیں‘۔ معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بھلے لوگ سیاسی اور دینی اداروں سے دور رہتے ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر وہ کڑھتے ہیں اور بروئے کار نہیں آتے۔ مدارس و مساجد‘ دینی جماعتیں اور سیاسی پارٹیاں اسی لیے ادنیٰ لوگوں سے بھری ہیں۔ ہزاروں برس کی ملوکیت نے ہمارے مزاج میں بنیادی خرابیاں پیدا کردی ہیں۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے‘ لیڈرکو کرنا ہے۔ عمران خان ہی کرے‘ جس طرح کہ ظہیرالدین بابر اور شیرشاہ سوری نے کیا تھا۔ جی نہیں، یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معاشرے کا صالح عنصر حرکت میں نہیں آئے گا تو خرابی باقی رہے گی بلکہ پھلے پھولے گی۔ عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طورپراس خطرناک صورت حال کا نوٹس لیں۔ مصلحت پسندوں کی بجائے بااصول لوگوں سے مشورہ کریں۔ کارکنوں کے باہمی جھگڑوں‘ ایسی چھوٹی موٹی خرابیوں کی بات دوسری ہے۔ معاشرے کا مزاج یہ ہے کہ شکست کسی کو گوارا نہیں اور طبائع میں ہیجان بہت مگر معاملات رشید بھٹی اور علیم خان ایسے لوگوں کے حوالے نہیں کیے جاسکتے۔ اجتماعی ضمیر انہیں ہرگز قبول نہ کرے گا۔ جہاں کہیں دھاندلی ہوئی ، وہاں الیکشن دوبارہ ہونے چاہئیں۔ میں جانتا ہوں کہ میری بات بہت سے لوگوں کو پسند نہ آئے گی، ہوسکتا ہے کہ خود خان کو بھی۔ ہمیں مگر افراد نہیں اصول کو دیکھنا چاہیے۔ معاشرے برباد ہو جاتے ہیں، جب وہ مصلحت پسند ہوجائیں اور ہماری امیدیں خدا سے وابستہ ہیں، کسی ایک آدمی سے نہیں۔