دُرویش نے یہ کہا: اللہ کی بارگاہ میں سرکارؐ کی امّت کے لیے وہی مصرعہ دہراتے رہو ۔ مصرعے کا وہی اوّل : زحالِ مسکیں مکن تغافل ، زحالِ مسکیں مکن تغافل۔ ہم لاچاروں کو ہمارے حال پہ نہ چھوڑ دے ، ہمارے حال پر ۔ بادلوں سے ڈھکے آسمان تلے ، اس وسیع و عریض سبزہ زار میں جو کپتان کا گھر ہے ،سحر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ طلوع ہوئی ۔ چاروں طرف پھولوں سے لدی ٹہنیوں نے آگ سی دہکا رکھی تھی ۔ سہ پہر کو امیر خسرو نے قیامت برپا کی: زحالِ مسکیں مکن تغافل، ورائے نیناں بنائے بتیاں تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں (میرے دل سے تغافل نہ برت کہ اب میں ہجر کی تاب نہیں رکھتا)۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ غزل کا شعر گاہے نعت کا ہوجاتا اور حمد کا ۔ انسانی ذہن جست بھرے تو زمانوں کے فاصلے طے کرتاہے ۔ صدیوں کی مسافت پر اس نادر رُوزگار شاعرکو میں نے خواجہ کی بارگاہ میں دیکھا۔ وہ دردناک دن جب شاعر کی دنیا لُٹی، جب ہندوستان یتیم ہوگیا۔ خُسرو کو عقیدت خواجہ سے ایسی تھی کہ ایک صبح ان کی دستار کو ٹیڑھا پایا تو اپنی پگڑی بھی اسی انداز سے باندھی اور یہ کہا ’’من قبلہ راست کردم برطرفِ کج کلاہے‘‘ دنیا سے خواجہ اٹھے تو اُس نادرِ روزگار نے بھی مرگ کی تمنا کی۔سرہانے پہنچا تو روکر کہا: گوری سوئے سیج پر، مکھ پر ڈارے کیس چل خُسرو گھر آپنے، سانجھ بھئی چودیس محبوب و مطلوب سیج پر ہمیشہ کے لیے سو گیا ۔ خسرو تُو اپنے گھر چل کہ چہار سمت اب تاریکی ہے ۔بے تاب تمنّا کا عرشِ بریں سے فوراً ہی جواب آیا ۔ مرید کا مزار خواجہ کی پائنتی پر بنا۔ پانچ سو برس کے بعد پوٹھوہار کے فقیر میاں محمد بخشؒ نے اسی خیال کو پنجابی کا پیرہن بخشا۔ لوئے لوئے بھرلے کڑیے جے تو بھانڈا بھرنا شام ہوئی بن شام محمد راہ جاندی نے ڈرنا شاعروں میں ایسے ہیں جنہیں صوفی سمجھا گیا ۔ درویش نہیں ، وہ فقط اہلِ صفا کے ہم نشیں تھے ، بعض ہم نفس بھی؛ ماہتاب ، جو آفتاب کی روشنی سے منوّر ہوتا اور چاندنی بکھیرتا ہے ۔ ٹیلی ویژن پر شہر قصور کے بارے میں رواروی میں ایک جملہ کہا تو سردار آصف احمد علی روٹھ گئے ۔ کہا: احتیاط سے بات کیجئے ، ہم بلھے شاہؒ کے مخدوم ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا تھا: دنیا کے سب درویش سر آنکھوں پر مگر یہ بھی کہ فقر وراثت میں نہیں ملتا۔ بلّھے شاہؒ نے سردار آصف احمد علی کے اجداد میں سے ایک ، شاہ عنایت سے فیض پایا : حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم اسی کیف کو میاں محمد نے کس جمال اور کس شوکت کے ساتھ بیان کیا ہے: خس خس جتنا قدر نہ میرا صاحب نوں وڈیائیاں میں گلیاں دا روڑا کوڑا محل چڑھایا سائیاں کتنے علماء ہیں کہ تصوف کی رمز پا نہ سکے ۔ جزئیات میںالجھے اور ہمیشہ الجھے رہے ۔ سامنے کی بات ہے : تصوف شریعت کی نیت ہے ۔ اپنے آپ کو ایک ہی رنگ میں رنگ دینے کا عہد ۔ شاعر نے کہا: ہر تمنّا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آجا، اب تو خلوت ہو گئی راہِ سلوک کا چراغ بولا : اللہ کی تمنا کو بھی اس سے بہتر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی کہا کہ بادشاہ ہوتا تو ایک لاکھ روپے نذر کرتا۔ ممکن ہے لمحاتی طور پر ہی ،بھید حسرت موہانی کو بھی نصیب ہو گیا تھا۔ ان کے اشعار گواہی دیتے ہیں: کچھ بھی حاصل نہ ہوا زُہد سے نخوت کے سوا شغل بیکار ہیں سب تیری محبت کے سوا اور دوسرا وہ جس کے ایک مصرعے کو اپنی بہترین تصنیف ’’شب جائے کہ من بودم‘‘میں آغا شورش کاشمیری نے اوّلین باب کا عنوان کیا ہے : یہ ذوقِ سجدہ کہاں پہ مجھ کو لے آیا جہاں اپنی جبیں، اپنی جبیں محسوس ہوتی ہے سحر‘ عطا ء اللہ عیسیٰ خیلوی ایک ترانہ لے کر آئے اور فرمائش کی کہ ابھی سن لیا جائے۔ ایک گداز پہلے سے ماحول پر طاری تھا۔ کپتان اپنے درد کی حکایت کبھی بیان نہیں کرتامگر آج اس نے کی۔ ساری عمر وہ دکھ جھیلتا، زخم سہتا اور صبر کرتا رہا ۔ شکوہ سنجی اور برہمی اس کا شیوہ نہیں ۔ آج بھی نہیں لیکن ایک ذرا سی اداسی کہ: من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن ہرچہ کرد آشنا کرد (دشمنوں سے کوئی شکایت مجھے نہیں ، جو بھی مجھ پر بیتی ، ہم نفسوں کے ہاتھ )۔ عطا ء اللہ نے تان اٹھائی تو میں نے آنسوئوں کو تھامے رکھا ۔ فرطِ جذبات سے ہمارا دوست موبی لہک اٹھا۔ وہی کیا ، پورا ماحول۔ گیت ہوتا ہے جو سارے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیا کرتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہوا ہی تھم گئی ہے اور شجر و حجر بھی سنتے ہیں۔میں نے کہا : عطا ء اللہ خاں ، پچاس ہزار روپے تمہارا انعام ہے ۔ دوبارہ جب ملو گے ، انشاء اللہ نذر کر دوں گا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں ۔ بتایا کہ کیسی کیسی پیشکش شریف خاندان نے اسے کی ہے ، پھر انکسار سے کہا: انعام نہیں، دُعا درکار ہے۔ مدتوں کے بعد آج اپنے دوست سے ملاقات ہوئی تھی ۔ لیڈر نہیں ،وہ میرا دوست۔ کبھی اس گھر میں ہر روز کا آنا جانا تھا۔ ان دنوں کی یاد میں ایک ا داسی دل میں اتری اور ٹھہر گئی۔ دل کی بات دل سے ۔ تنہائی کا دور ، امتحان کے زمانے ۔ وہ زمانہ بیت گیا، یہ بھی گزر جائے گا۔ وقت کبھی نہیں تھمتا ۔ ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ بڑے ہی درد کے ساتھ مجھ سے اس نے یہ کہا: کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ میری خاطر میری پارٹی کے کچھ لوگوں کو تم معاف کر دو۔ اگر وہ کہتا تو اس وقت کچھ بھی میں اس کی نذر کرتا۔ دوپہر ڈھلنے لگی تو میں روانہ ہوا، مگر اس طرح کہ دل وہیں اٹکا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد خسرو کا نغمہ سنا ۔ زحالِ مسکیں مکن تغافل۔ اے میرے محبوب، میرے حال سے تغافل نہ برت۔ وہی ہے ، وہی ۔ آسمانوں اور زمینوں کا رب ۔ حکم کے بغیر ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ٹلتا۔ بادشاہی اسی کی ، فقط اسی کی۔ آدمی کی دانائی ادھوری اور جدوجہد بھی ۔ اگر اسے منظور ہو، اگر سر اس کے سامنے جھکادیا جائے ، بھروسہ فقط اسی پر‘ تو کامرانی ہی کامرانی ۔ یارب!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پہ اب رحم فرمادے۔ حفیظ تائبؔ کا شعر دل میں تڑپتا رہا: اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یانبیؐ درویش نے یہ کہا: اللہ کی بارگاہ میں سرکارؐ کی امّت کے لیے وہی مصرعہ دہراتے رہو ۔ مصرعے کا وہی اوّل : زحالِ مسکیں مکن تغافل ، زحالِ مسکیں مکن تغافل۔ ہم لاچاروں کو ہمارے حال پہ نہ چھوڑ دے ، ہمارے حال پہ نہ چھوڑ دے ۔