"HRC" (space) message & send to 7575

اندیشہ ہائے دور دراز

خوف سے نجات پائے بغیر فرد نموپذیر ہو سکتاہے نہ معاشرہ۔ بقا کا خوف ، استعمار کا خوف ، وہم و گماں اور اندیشہ ہائے دور دراز۔ ایمان عمل میں ڈھلے تو محمد علی جناحؒ جیسا تاریخ ساز توکّل ۔ ملک کو انصاف عطا ہو تو منظّم معاشروں کا احساسِ تحفظ بھی خوف کو تحلیل کر تاہے ۔ سیّد منوّر حسن نے سچ کہا کہ حالات کہیں زیادہ خطرناک ہیں جتنے کہ نظر آتے ہیں ۔ ملک استعمار کی گرفت میں ہے ۔ ایسی سادگی اور اتنی سچّائی کے ساتھ ، سیاسی لیڈروں سے جس کی توقع نہیں رکھی جاتی ، انہوںنے کہا کہ نون لیگ ، تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ سیٹوں پر مفاہمت کے لیے جماعتِ اسلامی کے مذاکرات بالآخر ناکام ہو گئے۔ ان کی رائے میں اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ بعض (یاشاید سب؟) سیاسی پارٹیاں غیر ملکی طاقتوںکو ناراض نہیں کرنا چاہتیں ۔ جہاں تک نون لیگ کا تعلق ہے ،ان کے کسی لیڈر سے بات نہ ہو سکی مگر اس پارٹی کے حامی اخبار نویس یہ فرماتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی اپنی حیثیت سے زیادہ سیٹوں کی طلب گار تھی ۔یہ الزام قابلِ فہم نہیں اس لیے کہ مفاہمت محدود بھی ہو سکتی تھی ، جیسے کہ کراچی میں ہوئی۔ جتنی سیٹوں پر اتفاقِ رائے ہو جاتا ، ان کے سوا باقی آزاد چھوڑ دی جاتیں ۔ سنجیدگی اور دیانت سے مذاکرات کیے جاتے تو کوئی نہ کوئی فارمولا آخرِکار تشکیل پاتا۔ سمجھوتے تک پہنچنے اور معاہدے کی کامیابی کے لیے دو شرائط ہوتی ہیں۔ اوّل تو وہی نیک نیتی ، ثانیاً بحث کے مرحلے میں ممکنہ حد تک تفصیلات او رطریقِ کار طے کر لینا‘ اختلاف کی صورت میں تاکہ الجھائو پید انہ ہو ۔ کشیدگی کے باوجود،بے شمار تلخ یادوں کے باوجود،سرحد میں جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان کسی سمجھوتے کا امکان اب بھی موجود ہے ۔ ایک سروے کے مطابق دونوں کے ووٹ بالترتیب 12اور 14فیصد ہیں ۔ اس صوبے میں سب سے بڑا فریق تحریکِ انصاف ہے ۔ پشتونوں کی اکثریت نے نئے خان کا انتخاب کر لیا ہے۔ کپتان کی پارٹی مگر تباہی کا خطرہ مول لے گی اگر وہ زعم کا شکار ہو گئی ۔ اس لیے کہ دوسروں سے زیادہ مقبولیت کے باوجود ، ا س کی تائید صرف 31فیصد ہے ۔ خطرے کی بُو پاکر ، اگر آخری وقت پر 17فیصد حمایت رکھنے والی نون لیگ نے ان دونوں مذہبی جماعتوں کے ساتھ سودا کر لیا تو تحریکِ انصاف کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ نون لیگ کے لیے یہ آسان تو بہرحال نہیں مگر پارٹی پر نوا زشریف کی گرفت کپتان سے زیادہ ہے اور سیاسی تجربہ بھی ۔ کیا جماعتِ اسلامی او رجمعیت علمائے اسلام میں قربت کا امکان واقعی موجود ہے ؟ میرا جواب اثبات میں ہے ۔ اس لیے کہ اگر عظیم الشان جلسوں سے کپتان نے خوف پیدا کر دیا تو وہ یکجا ہو سکتے ہیں ۔ بقا کی جبلّت بہت طاقتور ہو تی ہے۔ قرآنِ کریم کے مطابق تمام زندگیوں کو بخلِ جان پر جمع کیا گیا۔ خود کو بچانے کے لیے آدمی آخری حد تک چلا جاتاہے ، کچھ بھی کر گزرتا ہے ۔ اس جبلّت کو تخلیق کرنے والے رب نے موت کے خوف میں مکمّل طور پر ممنوع کھانے کی اجازت بخشی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف ،مولانا فضل الرحمٰن کی ذہانت کے بہت معترف تھے ۔ ان کی یہ پسندیدگی بجائے خود ایم ایم اے کی تشکیل اور طاقت کا ایک سبب تھی ؛اگرچہ انتخابی ظفرمندی کی بنیادی وجہ افغانستان پر امریکی حملے کے فوراً بعد امریکہ سے عام پاکستانی بالخصوص براہِ راست متاثر ہونے والے پشتونوں کی نفرت تھی ۔الیکشن 2002ء سے قبل مشرف اپنی ذاتی پارٹی قاف لیگ کا ایم ایم اے یا کم از کم مولانا فضل الرحمٰن سے اتحاد چاہتے تھے ۔ ان کی بات مولانا فضل الرحمٰن نے توجہ سے سنی اور جیسا کہ بعد میں اس اخبار نویس کو بتایا ، جنرل سے یہ کہا : ہمارے اورآپ کے حامی مختلف ہیں ۔ الیکشن کے بعد مملکتی سیاست میں تعاون ہو سکتاہے لیکن انتخابی سیاست میں ہرگز نہیں ۔ باقی تاریخ ہے اور اس تاریخ کو سمجھے بغیر جماعتِ اسلامی اور جمعیت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کا ادراک نہیں کیاجا سکتا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے حامیوں کو ناگوار بہت ہوتاہے مگر واقعہ یہی ہے کہ ان کا ہرگز کوئی اصول نہیں ۔ سلیقہ مند وہ بہت ہیں اور ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ان کے حامی مشکل حالات میں بھی ان کے وفادار رہتے ہیں مگر ان کی ترجیح فقط دولت اور اقتدار ہے ۔ جماعتِ اسلامی فرشتوں کی پارٹی نہیں اور اب تو اس میں اعلیٰ سطح پر بھی بعض مفاداور موقع پرست مسلّط ہیں مگر اس کی حدود ہیں۔ احتساب کا نظام ہے ۔ خاص طور پر اہم سیاسی فیصلوں میں کوئی لیڈر ؛ حتیٰ کہ پارٹی کا طاقتور امیر بھی من مانی کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مرتب کردہ ڈھانچہ مضبوط ہے اور مربوط بھی ۔ سید صاحب مرحوم کے علاوہ بھی اس کے سابق امرا، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد نے ذاتی دیانت کی مثالیں قائم کی ہیں ۔ سید منور حسن اسی معیار پر ہیں بلکہ قاضی حسین احمد سے بھی سخت تر۔ یہی سبب ہے کہ سرحد میں پانچ سال اقتدار سے وابستہ رہنے والے اس کے وزرا پر کبھی الزام تراشی نہ کی گئی ۔ اے این پی کے شور شرابا کرنے والے لیڈر اور نام نہاد ترقی پسند دانشور افغان جہاد سے روپیہ کمانے کا الزام عائد کرتے ہیں ۔ قریب سے دیکھنے والے مگر جانتے ہیں کہ یہ داستان آرائی کے سوا کچھ نہیں ۔ نامقبولیت کے اسباب جماعتِ اسلامی کے فلسفے اور تصورات میں ہیں مگر وہ ایک دوسری بحث ہے! نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام سے اگر بات نہ بن سکی تو یہ قابلِ فہم ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے باہمی اعتماد کارفرما نہیں مگر تحریکِ انصاف ؟ کپتان سمیت ایک ایک لیڈ رسے میں نے پوچھا مگر ان میں سے کوئی بھی معقول سبب بتا نہ سکا۔ 30اکتوبر 2011ء اور 23مارچ 2013، دو بار سیّد منوّر حسن کپتان کے گھر گئے اور ایک بار کپتان منصور ہ پہنچا ۔سیّد صاحب کی دیانت و امانت سے وہ حسنِ ظن بھی بہت رکھتاہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جماعتِ اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کو تحریکِ انصاف کے لیڈروں نے وقت دینے سے کیوں گریز کیا؟ کپتان نے اختیار انہیں دے دیا تھا اور اس کا احساس یہ تھا کہ خود اس کی بجائے ، یہ لوگ زیادہ فہم اور ہوش مندی سے اس نوع کے معاملات نمٹا سکتے ہیں ۔ پھر انہوںنے غیر ذمہ داری کا ارتکاب کیوں اور کیسے کیا؟ کیا وہ اپنے اپنے حلقہ ہائے انتخاب یا پارٹی ٹکٹوں کے گنجلک معاملات میں الجھے رہے ؟ کچھ بھی ہو ، کئی ہفتے صرف اس لیے ضائع نہ ہو سکتے تھے۔ کہیں نہ کہیں کوئی بھید کی بات ضرور ہے ۔ تحریکِ انصاف والوں کا صرف ایک نکتہ سمجھ میں آتاہے ۔ ان کی شرط یہ تھی کہ خواہ پختون خو اکی حد تک محدود مفاہمت ہو ، جماعتِ اسلامی ان کی اصل حریف نون لیگ سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہ کرے گی (پیپلزپارٹی تو اُجڑ چکی)۔ بجا ارشاد مگر یہ موقف مذاکرات کے پیہم التوا کا سبب کیسے بنا؟ اپنی ٹیم سے کپتان نے بازپرس کیوں نہ کی؟ جواب یہ ہے کہ وضع دار آدمی باز پرس کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے ساتھی اسے چکمہ دینے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ کراچی میں تو جو ہونا ہو چکا، صوبہ سرحد میں معاملہ اب بھی ہو سکتاہے ؛بشرطیکہ تحریکِ انصاف کے نا تجربہ کار اور ہیجان کے مارے لیڈر تمام سیٹوں سے چمٹے رہنے پر اصرار نہ کریں۔ خوف سے نجات پائے بغیر فرد نموپذیر ہو سکتاہے نہ معاشرہ۔ بقا کا خوف ، استعمار کا خوف ، وہم و گماں اور اندیشہ ہائے دور دراز۔ ایمان عمل میں ڈھلے تو محمد علی جناحؒ جیسا تاریخ ساز توکّل ۔ ملک کو انصاف عطا ہو تو منظّم معاشروں جیسا احساسِ تحفظ بھی خوف کو تحلیل کر تاہے ۔ پسِ تحریر: ایک سروے کے اعداد وشمار نقل کرتے ہوئے کل ایک سنگین غلطی سرزد ہو گئی۔ پنجاب میں نون لیگ او رتحریکِ انصاف کی حمایت برابر نہیں ۔ نون لیگ کو کم از کم اس وقت برتری حاصل ہے ؛اگرچہ ایک اچھی مہم سے کپتان اس برتری کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ قارئین سے بہرحال معذرت!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں