شاہنامہ کے مصنف فردوسی نے کہا تھا: دوست اگر کانٹا ہے تو تمہارا اپنا بویا ہوا‘ اگر ریشم ہے تو تمہارا اپنا بُنا ہوا۔ نیازی قبیلے کی یاددہانی کے لیے پنجابی کی ایک ضرب المثل: انگلیوں کے ناخن گوشت سے جدا نہیں کیے جاتے۔ کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں ہونا تھا جو وہ ہو چکا۔ شکایات ہمیں بھی بہت تھیں اور کھل کر ہم نے اظہار کیا۔ اب فیصلے کا وقت ہے۔ خلقِ خدا کی بات سننی چاہیے۔ غالب رجحان یہ ہے کہ گھر کی بات گھر میں رکھی جائے۔ ایک اور ضرب المثل یہ ہے: لسّی اور لڑائی کو جتنا چاہے بڑھا لیاجائے۔ اپنی رائے پر آدمی کو نظرثانی بھی کرنی چاہیے۔ برطانوی ادیب آسکروائلڈ… اسی کے نام پر غالباً آسکر ایوارڈ کا اجرا ہوا‘ خوب آدمی تھے۔ وہ مشہور جملہ جو شیکسپیئر سے منسوب ہے‘ دراصل انہی کا ہے۔ There is always place at the topبلندیوں پر ہمیشہ جگہ ہوتی ہے۔ اس نے لکھا ہے: دنیا میں صرف پتھر ہی ایسی چیز ہیں‘ جو کبھی اپنی تردید نہیں کرتے۔ مشہور مورخ ٹائن بی نے عراق اور افغانستان کو Turn abouts of historyکہا تو لطیف سا ایک اشارہ اس طرف بھی تھا کہ قبائلی مزاج کے یہ لوگ سخت ضدی ہیں اور یہ ضد ان کے لیے تباہی لاتی رہی۔ یلغار کرنے والی اقوام کے ستارے تو ان سرزمینوں میں ڈوبے ہی مگر خود ان کی کتنی نسلیں خون خرابے کی نذر ہوئیں۔ ترکی زبان میں لکھی گئی ظہیر الدین بابر نے اپنی خود نوشت تزک بابری میں ‘ جس کے کچھ ابواب گم ہوئے‘ یہ کہا تھا: کابل میں دائم شورش کی کیفیت رہتی ہے۔ آمدن کم‘ اخراجات زیادہ۔ اس کے مقابلے میں وسیع و عریض ہندوستان پر حکومت سہل تھی۔ انفرادیت پسند‘ ضدی‘ مذہبی‘ سخت جان‘ شکی‘ منتقم مزاج اور حریت کیش۔ یہ ہیں ہمارے پشتون قبائلی‘ ایک ہزار برس سے جو مسلم برصغیر کے حلیف ہی نہیں‘ اس کا کبھی نہ جدا ہونے والا حصّہ ہیں۔ ایک عالمی طاقت سویت یونین تیرہ لاکھ افغانیوں کو قتل کرنے اور تیرہ لاکھ کو اپاہج کرنے کے بعد بالآخر اس سرزمین میں کھیت رہی۔ دوسری‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ واپسی کے لیے پر تول رہی ہے‘ نامراد! لگ بھگ پانچ سو برس ہوتے ہیں‘ جب افغانستان کے نیازی قبائل نے دریائے کابل کے کناروں پر برصغیر کا قصد کیا‘ دریائے سندھ کی وادیوں کا۔ وسطی ایشیا ہی نہیں‘ ایران اور مشرقِ وسطیٰ سے بھی تین ہزار برس سے مہاجرت اس سرزمین کی طرف جاری رہی۔ نیازی وہ آخری لوگ ہیں‘ ایک قبیلے کے طور پر جنہوں نے یہاں ہجرت کی۔ ان سے تین سو سال قبل امیر المومنین سیدنا علی ابنِ ابی طالب کی غیر فاطمی اولاد‘ حد سے زیادہ اعتماد کے حامل‘ اتنے ہی بے لچک اور مذہبی اعوان‘ جو کبھی حجاز سے اٹھ کر پنج شیر کی وادی میں پہنچے تھے۔ وہاں سے پوٹھوہار کی دشوار گزار وادیوں میں اترے۔ نیازی آج بھی اپنے قبائلی اوصاف سے بہرہ ور ہیں۔ بڑے بڑے خاندان‘ باہم مسلسل رابطے‘ اور کبھی نہ ختم ہونے والے گھریلو مباحث۔ میانوالی‘ سرگودھا اور خوشاب میں نیازیوں اور اعوانوں کی کشمکش دیرینہ ہے۔ دریائے سندھ کے جھاگ اڑاتے پانیوں کے کناروں پر‘ وہ ایک دوسرے پر جملے کستے اور ایک دوسرے کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ کوئی اعوان یہ کہتا ہے: جنرل کے ٹائر اور نیازی کا کچھ پتہ نہیں‘ چلے تو چلتا رہے اور پھٹ پڑنا ہو تو پل بھر میں پھٹ پڑے۔ جذبات سے وہ مغلوب رہتے ہیں اور تکرار سے اکتاتے نہیں۔ جنگجوئی ان کی فطرت ہے اور سخت گیری ان کی روش۔ دوست بہت اچھے اور دشمن بہت سخت جان۔ خوش عقیدہ اور انتہا پسند! برادرم حفیظ اللہ خان سے التماس یہ ہے کہ بہت ہو چکا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ بیتے ہوئے سترہ برس کس طرح اس ناچیز نے گزارے ہیں۔ آدمی اپنا جج نہیں ہوتا اور خودستائی بری بات ہے۔ دوسروں کی رائے ہی سچّی ہوتی ہے۔ بس کیجیے‘ جگ ہنسائی کے سوا‘ اس طرح کی بحث سے کچھ حاصل نہیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ برادرم ارشاد عارف سمیت اب ہمیں سب کی نصیحت سننا پڑتی ہے۔ اچھے فیصلے ہوئے اور برے بھی۔ سب جانتے ہیں کہ کہاں کہاں‘ کون کون اس کا ذمہ دار ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی اصطلاح اور چودھری شجاعت کا روّیہ اختیار کرتے ہوئے معاملے پر اب مٹی ڈالنی چاہیے۔مجرموں کو معاف نہ کیا جائے گا لیکن ذرا انہیں بے نقاب تو ہونے دیجیے‘ صداقت عباسیوں کو! ایک موقع پر قاضی حسین احمد اور دوسرے پر پروفیسر خورشید احمد نے عمران خان سے کوئی بات منوانے پر اصرار کیا تو ان سے عرض کیا تھا؛ لیڈر وہ شخص ہوتا ہے‘ جسے مشورہ دیا جاسکتا ہے‘ اپنی مرضی کے مطابق اسے چلایا نہیں جاسکتا۔ ٹکٹوں کی حد تک عمران نے غلطیاں ہی نہیں‘ زیادتیاں بھی کیں۔ اتنی سی بات ارشاد عارف کی خدمت میں عرض کرنے کے بعد کہ جس تن لاگے‘ سو تن جانے اور یہ کہ وہ جانتے نہیں۔ ہم عینی شاہد اور درونِ خانہ کے گواہ ہیں‘ اس باب کو اب سمیٹنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنی موجودہ پالیسیوں اور موجودہ کردار کے ساتھ عمران خان گوارا ہیں یا نہیں۔ دکھ انہوں نے بہت پہنچایا مگر اللہ کو جان دینی ہے۔ اپنے ضمیر کو جواب دہی کرنی ہے۔ دوسروں سے وہ بہتر ہے۔ کسی نوازشریف اور کسی آصف علی زرداری سے عالمی کپ جیتنے، نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال تعمیر کرنے کی ہم امید نہیں کر سکتے۔ یہ بات حفیظ اللہ خان کو یاد رکھنی چاہیے اور عمران خان کو بھی۔ کپتان کو یاد ہونا چاہیے کہ حفیظ اللہ خان کے بغیر یونیورسٹی کی تعمیر سہل نہ ہوتی۔ ایک شام اس نے میری گردن پکڑے رکھی‘ جب تک میں نے دس لاکھ روپے کے لوہے کا بندوبست نہ کردیا۔ جتلانے کی بات نہیں‘ عمران خان کے نہیں، وہاں غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ دوسری بار آدھی رات کو خان نے مجھ سے کہا: جہاں سے اور جیسے بھی ممکن ہو کل صبح تک پانچ لاکھ روپے کا بندوبست کرو‘ وگرنہ تعمیر رُک جائے گی۔ صرف تین لاکھ کا ہوسکا۔ سرما میں بینک نو بجے کھلتے ہیں اس کے سیکرٹری محمد طاہر نے سحر آٹھ بجے دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ خود خان نے سب سے بڑا عطیّہ دیا‘ چالیس لاکھ اوران کے مرحوم آغا جان نے عمر بھر کی جمع پونجی، 30لاکھ روپے۔ اس نے اپنا راستہ چن لیا۔ ہم اس کی راہ میں کیوں مزاحم ہوں؟ جدوجہد کے رفیق ایک ہوتے ہیں اور اقتدار کے دوسرے۔ اگر اقتدار عزیز تھا تو دشمنی اور عناد کا جواز ہے۔ اگر ایسا نہ تھا تو بھول جانا چاہیے۔ جتنی مدد ہو، کرنی چاہیے اور اگر نہیں تو شکوہ و شکایت کب تک؟ جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا، گلہ نہ ہوا اچھی خبر یہ ہے: لاہور کے 67 سابق ناظمین نے بدھ کے روز تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے بڑے خیرہ کن اجتماع اس نے کیے ہیں۔ اس کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں۔ سیٹوں پر مفاہمت کرنا چاہیے تھی‘ مثلاً بعض مقامات پر جماعت اسلامی سے۔ مہم چلانی چاہیے تھی کہ افواج پاکستان ووٹ ڈالیں۔ ظاہر ہے کہ کسی ایک پارٹی کو نہیں‘ جس کو جس کا جی چاہے۔ آخر وہ اسی ملک کے شہری بھی ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کے لیے دبائو ڈالنا چاہیے تھا۔ خیر‘ اب یہ اس کا کام ہے۔ وہ جانے اور اس کے رفیق۔ سیاست دان اور سپہ سالار طوفانی پانیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ؎ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے یاد رکھا جائے کہ تیس چالیس لاکھ نوجوانوں نے اپنا مستقبل تحریک انصاف سے وابستہ کرلیا ہے۔ ہم انہیں آرزدہ اور دل شکستہ نہیں کرسکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان تصادم میں شرارے اڑ رہے ہیں۔ آگ اتنی تیز نہ ہونی چاہیے کہ الیکشن کے بعد بجھائی نہ جا سکے۔ پارٹیوں کے اندر اور بحیثیت مجموعی سیاست کے میدان میں ایک کم از کم آہنگ کا امکان رہنا چاہیے۔ ؎ آیئے عرض گزاریں ہم بھی ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں آیئے عرض گزاریں کہ نگار ہستی زہر امروز میں شیرینی فردا بھر دے وہ جنہیں تاب گراں باریِء ایّام نہیں ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے شاہنامہ کے مصنف فردوسی نے کہا تھا: دوست اگر کانٹا ہے تو تمہارا اپنا بویا ہوا‘ اگر ریشم ہے تو تمہارا اپنا بُنا ہوا۔ نیازی قبیلے کی یاددہانی کے لیے پنجابی کی ایک ضرب المثل: انگلیوں کے ناخن گوشت سے جدا نہیں کیے جاتے۔ ؎ کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں