ہم خطاکار‘ ہم خستہ حال‘ مگر ہمارا تو ایک رب ہے۔ تمام کرم‘ تمام رحمت۔ ہم شافعِ روزِ جزا کے امتی ہیں‘ جسے اللہ نے اپنے دو نام عطا فرمادیئے‘ رئوف اور رحیم۔ اللہ بھی رئوف و رحیم۔ سرکارؐ بھی۔ جلنے دو‘ انہیں کڑھنے دو‘ شکر واجب ہے‘ ہمارے لیے شکر واجب ہے! تو کریمی و رسولِ تو کریم شکر کہ ہستم میانِ دو کریم ایک سول سوسائٹی ہے اور ایک گماشتہ سول سوسائٹی۔ جو سچے ہیں وہ سر آنکھوں پر۔ اجتماعی ضمیر کی آواز کہ تاجر‘ صنعت کار‘ مذہبی جماعتیں اور سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کی اسیر ہوتی ہیں۔ جو فقط ضمیر کی آواز پر اٹھیں‘ ان سے اچھا کون؟ ان میں خامیاں بھی ہوں‘ خرابیاں بھی ہوں‘ تو بھی گوارا۔ نکل جاتی ہے‘ جس کے منہ سے سچی بات مستی میں فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا اور جو گماشتہ سول سوسائٹی ہے۔ انہیں قائداعظم کے پاکستان میں کیڑے ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال انہیں نظر نہیں آتا‘ تعمیرِ ملت فائونڈیشن دکھائی نہیں دیتی‘ ریڈ کارپوریشن نظر نہیں آتی۔ ان لاتعداد سکولوں اور کالجوں‘ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں پر ان کی نگاہ پل بھر کو نہیں رکتی‘ حکمران طبقات کے ہاتھوں برباد معاشرے کو جنہوں نے تھام رکھا ہے۔ ملک برباد ہو گیا ہوتا‘ اگر ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے سخی نہ ہوتے۔ سچے اور کھرے ہی نہیں‘ ایثار کیش‘ سچ کی طرح سادہ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ایک دن کہا تھا: ’’زمین کا نمک‘‘۔ وہ آدمیت کا جوہر ہیں‘ وہ گردش ماہ و سال کا حاصل۔ مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں سستی روٹی کے نام پر شہباز شریف نے‘ سستی شہرت کے لیے سرکاری خزانہ برباد کیا۔ آغاز تحریک انصاف کے رہنما احسن رشید نے کیا تھا۔ ایک آدھ نہیں‘ چالیس پچاس تنور لاہور میں انہوں نے کھول دیئے تھے۔ اوّل اوّل یہ خیال ان کی خدمت میں پیش کیا تو وہ متامل تھے۔ تخلیقی آدمی وہ ہے‘ نئے خیال پر جو لازماً غور کرے۔ ان میں جو بہت دانا‘ ان کی ایک نشانی ہے۔ وہ اُچھل نہیں پڑتے۔ تامل کرتے ہیں‘ سوچ بچار کیا کرتے ہیں۔ عملی پہلوئوں کا جائزہ اس لیے وہ لیتے ہیں کہ اہلِ وفا ہوتے ہیں۔ پیمان کر لیں تو توڑتے کبھی نہیں۔ قرآن کریم میں لکھا ہے۔ ’’ایثار کرتے ہیں‘ خواہ تنگ دست ہوں‘‘۔ احسن رشید سے عرض کیا: کچھ روپوں کا بندوبست میں کردوں گا۔ سوچ میں پڑے رہے۔ جس طرح کہ شاعر فکرِ سخن میں ڈوبے اور افکار کے دریا سے موتی ڈھونڈنا چاہے۔ کچھ دن میں کپتان نے مجھے بتایا کہ تنوروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ خالصتاً یہ ایک فلاحی منصوبہ تھا۔ سیاست کا دور دور تک خیال نہ تھا۔ درد کے مارے‘ ہاتھ نہ پھیلانے والے بے دست و پا لوگوں کی خدمت احسن رشید کو منظور تھی۔ شہباز شریف بوکھلا گئے۔ اکثر بوکھلا جاتے ہیں۔ داد کی تمنا میں‘ ہمیشہ بے قرار۔ چھ ماہ میں بجلی پوری کردوں گا‘ ایک سال میں‘ تین سال میں‘ ورنہ میرا نام بدل دو… بدل دیں آپ کا نام؟ قوم کی دولت تنوروں میں جھونک دی‘ جلا دی۔ اسّی فیصد سے زیادہ برباد۔ تنوروں والے گھپلا کرتے‘ پڑوسی ہوٹلوں والے غریبوں کا حصہ ہضم کرتے رہے۔ انہی دنوں کا قصہ ہے۔ احسن ایک دن ملے تو ذہن الجھا ہوا۔ معلوم تھا کہ بے روزگاروں کو قرض دیتے ہیں۔ وصولی کے لیے وقت ہوتا نہیں۔ برسبیل تذکرہ غریبوں کی اکثریت قرض واپس کرتی ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک نے 1980ء کے عشرے میں ترکھانوں‘ موچیوں‘ نائیوں اور دھوبیوں کو پیسہ دیا تھا۔ پورے کا پورا واپس ملا۔ بڑے زمیندار مگرمچھ ہیں‘ لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم۔ احسن صاحب سے عرض کیا: اس کھکھیڑ میں پڑنے کی آپ کو ضرورت کیا؟ روپیہ اخوت فائونڈیشن کو دے دیا کیجیے۔ حاجت مند کی سفارش کر دیا کیجیے۔ ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سے‘ رحمتہ اللعالمین کے دردمند امتی ہیں۔ سوال کیا کہ اخوت فائونڈیشن کا یہ خیال انہیں سوجھا کیسے؟ کہا: مواخاتِ مدینہ سے‘ ہجرت کے بعد مدینہ‘ جس کا ا ہتمام سرکار والاؐ نے خود فرمایا تھا۔ ہر مہاجر کسی ایک انصاری کا بھائی‘ بھائی چارہ بڑھا‘ افلاس تحلیل ہونے لگا‘ مسافروں نے قرار پایا اور بستی اللہ کے نور سے جگمگااٹھی۔ وہ حدیث پہلی بار ڈاکٹر امجد ہی سے سنی: صدقے کی دس نیکیاں ہیں‘ قرضِ حسن کی اٹھارہ۔ انصار کے ذکر سے‘ سرکارؐ کا واقعہ یاد آیا۔ غالباً طائف کی تسخیر کے بعد‘ کمال فراوانی سے آپ نے مال تقسیم کیا۔ ایک ایک آدمی کو سو سو اونٹ۔ ایک بولا: میرا بھائی؟ فرمایا: اس کے لیے بھی۔ سو اونٹ۔ قریش کا دیار تھا۔ ظاہر ہے کہ انہی کو زیادہ ملا۔ انصار میں اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں‘ حتیٰ کہ نوجوانوں نے شکایت کی کہ عہدِ ستم تو ہم پہ ٹوٹا‘ ڈھال تو ہم تھے‘ وار تو ہم سہتے تھے۔ پھر دوسروں پہ آپ کا کرم زیادہ کیوں؟ کیا ہم سے کوئی خطا سرزد ہوئی؟ انصار کو جمع کیا اور وہ جملہ ارشاد کیا جو صرف آپ ہی کر سکتے تھے۔ ’کیا یہ بات تمہیں پسند نہیں کہ مال و دولتِ دنیا دوسرے لے جائیں اور تم مجھے اپنے ساتھ لے جائو‘‘… درہم و دینار کی کیا حیثیت۔ محمدؐ ہمارے ہیں‘ دو جہان کے آقا‘ شافعِ روز جزا ہمارے ہیں۔ وہ ہمارے ہیں‘ جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ روتے روتے انصاریوں کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔ فریب ہائے نفس کی طرح‘ عالی جنابؐ کے فضائل کا شمار بھی ممکن نہیں۔ ایثار ہی کو لیجیے۔ تاریخ کوئی مثال پیش نہیں کرتی‘ کہاں سے لائے؟… یوں بھی سراپا صدق‘ یوں بھی کامل استوار سیدنا ابوبکر صدیقؓ اس لیے بھی عزیز تھے کہ قربانی میں سب سے بڑھ کر۔ سب کچھ لٹا دیا۔ گھر پہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام باقی چھوڑ آئے۔ پاکستانی مسلمانوں کا اعزاز یہ ہے کہ باقی دنیا کے مقابل دو گنا عطیات دیتے ہیں۔ بھارت کے قصیدے گانے والے بہت ہو گئے۔ سوات کے 70 فیصد مہاجروں کو ان کے بھائیوں نے خوش دلی سے پناہ دی۔ دلی شہر میں 26,25 بھوکوں کی لاشیں ہر روز اٹھائی جاتی ہیں۔ لاہور کے سب بڑے ہسپتالوں میں شہریوں کی طرف سے سب مریضوں کو کھانا ملتا ہے اور بہترین۔ کراچی میں ڈاکٹر ادیب رضوی کو سرمایے کی کمی کبھی ہوتی ہے نہ ایدھی فائونڈیشن کو۔ الرشید ٹرسٹ لاکھوں کو کھلاتا ہے اور جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن بھی‘ بے ریا اور اُجلے نعمت اللہ خان جس کے امین ہیں۔ تیس برس ہوتے ہیں‘ بھارتی دانشور خوشونت سنگھ نے لکھا تھا: پاکستان میں ڈرائیور کو بیٹا کہہ کر بلایا جاتا اور تقریبات میں وہی کھانا دیا جاتا ہے‘ جو مدعوین کو۔ غزالی فائونڈیشن نے ہزاروں بچیاں تعلیم کے حسن سے آراستہ کیں۔ شبلی نعمانی نے لکھا تھا: بغداد کے اہلِ علم اور اہلِ ہنر کا مؤرخ شمار نہ کر سکے۔ اس پاک سرزمین کے اہلِ سخا کی تعداد متعین نہیں کی جا سکتی۔ پھر یہ لوگ‘ یہ گماشتہ سول سوسائٹی‘ یہ سرخی پائوڈر والی این جی اوز مغرب سے بھیک کیوں مانگتی ہیں؟ لاچار خواتین ہوں‘ اقلیتوں پہ مظالم یا ستائی گئی حوّا کی بیٹیاں‘ کشکول اٹھائے‘ وہ مغربیوں کے پاس جاتے ہیں۔ ان کے ذرائع ابلاغ پر دریوزہ گر۔ امریکیوں نے شکار کا منصوبہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بنایا تھا۔ سی آئی اے نے یورپ میں وہ ادارے تعمیر کیے جو تیسری دنیا میں قبولیت کے آرزو مند ساڑھی‘ بندی‘ سوٹ‘ ٹائی والے بھکاریوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق والے اور یہ وغیرہ وغیرہ۔ ان میں ایک بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ ہے۔ اس کے ساتھ انڈیا جا کر دیکھ لیجیے۔ ایک سی آئی اے کے لیے سرگرم وگرنہ بلوچستان کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ان کے لیے کیا رکھا ہے۔ وہاں سے معلومات جمع کر کے وہ امریکیوں کو پہنچاتے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کی ہر تقریب میں وہی چہرے۔ اسی کا کھاتے ہیں‘ اسی کا گاتے ہیں۔ چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرشام غازہ ہے یا پھر ساغر و مینا کی کرامات پاکستان میں کوئی خوبی انہیں دکھائی نہیں دیتی۔ بھارت اور مغرب میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ احساس کمتری‘ احساس کمتری۔ افغان مسلمانوں کا روسیوں نے قتل عام کیا تو ان کے ہمنوا‘ امریکیوں نے کیا تو یہ ان کے قصیدہ خواں۔ خاکروبوں کے محلے کی نفسیات‘ مرعوبیت کے بارے‘ اپنی زبان تک بول نہیں سکتے‘ لکھ نہیں سکتے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے زمین ہم پہ تنگ کر دی ہے۔ پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر آپ لڑے ہوتے۔ آپ تو امریکیوں کے حلیف ہیں۔ کسی سفّاک‘ بے رحم‘ عصبیت پسند کے سوا‘ احساس اور درد سے خالی کسی پتھر دل آدمی کے سوا قاتلوں کی حمایت کون کر سکتا ہے۔ آپ تو مگر امریکہ کے غلام سمجھے جاتے ہیں۔ مدد تو کیا‘ آپ کے لیے کوئی دعا کا ہاتھ بھی کیوں اٹھائے؟ شہید؟ یہ اصطلاح قرآن کریم کی ہے اور تعریف اس نے متعین کردی ’’من یقتل فی سبیل اللہ‘‘ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے۔ اقتدار کی جنگ اور استعمار کی سرپرستی میں نہیں۔ کیا قرآن کریم سے کچھ تعلق ہے آپ کو؟ کبھی کھول کر بھی دیکھا؟ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ حضور سیکولر کی اصطلاح مغرب میں پیدا ہوئی۔ چرچ کے مظالم کا پس منظر تھا۔ اسلام میں مذہبی طبقے کا وجود ہی نہیں۔ مولوی تو فرقہ پرست ہے۔ اس لیے انہیں درخورِ اعتنا نہ سمجھنے والے صوفی سروں کے تاج ہو گئے‘ خلق کے امام ہو گئے۔ بڑھیا؟ بڑھیا کو بڑبڑانے دو‘ اسے بولتی رہنے دو۔ ایک نہیں‘ کئی طرح کے احساسِ کمتری‘ لاتعداد ذہنی الجھنیں۔ اپنی قوم اور اپنے وطن سے جو وفا نہ کرے۔ تمام عمر ضمیر اسے کچوکے دیتا ہے۔ قرار ان کے نصیب میں نہیں‘ کبھی ہو نہیں سکتا۔ کوئی دن جاتا ہے ان کا حساب ہوگا۔ استعمار کے ہر گماشتے کا۔ کوئی نوازشریف‘ کوئی زرداری انہیں بچا نہ سکے گا۔ ہم خطاکار‘ ہم خستہ حال‘ مگر ہمارا تو ایک رب ہے۔ تمام کرم‘ تمام رحمت۔ ہم شافعِ روزِ جزا کے امتی ہیں‘ جسے اللہ نے اپنے دو نام عطا فرمادیئے‘ رئوف اور رحیم۔ اللہ بھی رئوف و رحیم۔ سرکارؐ بھی۔ جلنے دو‘ انہیں کڑھنے دو‘ شکر واجب ہے‘ ہمارے لیے شکر واجب ہے! تو کریمی و رسولِ تو کریم شکر کہ ہستم میانِ دو کریم