ایک صدی ہوتی ہے‘ جب اقبالؔ نے کہا تھا: مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری اور عیّار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش معاملہ اب کہیں زیادہ سنگین ہے؛ چنانچہ کہیں زیادہ غور طلب۔ کچھ دوسرے لوگ دیارِ فرنگ کے لیے اس قدر بے تاب کیوں رہتے ہیں؟ اب مغربی ذرائع ابلاغ قائداعظم ثانی میاں محمد نوازشریف کی مدد کو پہنچے ہیں۔ اندازہ ہے کہ آئندہ ایام میں وہ اور بھی بے چین ہوں گے۔ تجزیے ان کے بے حد سطحی بلکہ بعض اوقات تو مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ قدامت پسند برطانوی جریدے کے ترجمان اکانومسٹ نے لکھا ہے: پیپلز پارٹی کو 60 نشستیں ملیں گی اور وہ بھی سندھ سے۔ اب کل 61 سیٹوں پر اس صوبے میں الیکشن ہونے والا ہے۔ کراچی میں سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا پلّہ بھاری ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو تین سیٹیں‘ ملک کے پانچ برس برباد کرنے والی حکمران پارٹی جیت سکتی ہے‘ وہ بھی دس جماعتی اتحاد کے طفیل۔ 2008ء میں بے نظیر بھٹو کے خون کا پرچم لہرانے کے باوجود پچھلی بار صوبے میں 36 امیدوار ان کے کامیاب ہوئے تھے۔ گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران دیہی سندھ میں کم از کم بارہ مقامات پر زرداری صاحب کے کسی امیدوار کو مشتعل ووٹروں کا سامنا کرنا پڑا۔ بھاگ جانا پڑا۔ اس کے باوجود ایسی خیرہ کن کامیابی کیسے ممکن ہوگی؟ بلوچستان میں الیکشن اور انداز میں ہوتے ہیں۔ اب بھی یہ ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ امیدوار اپنے بل پر فتح حاصل کرتے اور مرکز میں اقتدار حاصل کرنے والے گروہ سے جا ملتے ہیں۔ سرحد اور پنجاب میں پیپلز پارٹی انتخابی مہم ہی چلا نہیں رہی۔ چلائے بھی کیسے۔ اس کے کارکن ناراض؛ چنانچہ رہنما پسپا ہو چکے۔ منظور وٹو کی کون سنتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن اپنا لیڈر انہیں کیسے مان لیں۔ ’’ایم بی بی ایس‘‘ کی ڈگری رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کس منہ سے ووٹروں کا سامنا کریں۔ عدلیہ کی عنایت سے کرایے کے بجلی گھروں والے راجہ پرویز اشرف انتخابی میدان میں تو اتر سکے مگر بے جان‘ مگر مجروح۔ عمران خان نے ف ف نامی اس شخص کی بجائے‘ جو الیکشن کے بعد لندن واپس جا کر‘ دوبارہ برطانوی شہرت حاصل کرلے گا‘ عظیم چودھری کو ٹکٹ دیا ہوتا تو راجہ صاحب یقینا خاک چاٹتے۔ نون لیگ نے ایک منقسم خاندان کے سربراہ اور قاف لیگ کے سابق لیڈر اخلاص جاوید کو ٹکٹ دیا‘ اس کے باوجود ان کی پوزیشن راجہ صاحب سے بہتر ہے۔ ووٹر نوازشریف کے ہیں یا عمران خان کے۔ یہ الگ بات کہ سیاسی پارٹیوں نے اس کمال کے امیدوار میدان میں اتارے ہیں کہ ان کے لیڈر بھی بے بس ہیں اور ووٹر حیران پریشان۔ کوئی سمت ہی نہیں‘ کوئی منزل ہی نہیں۔ قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو کہ ہم تو پا بہ رسن ہیں‘ ابھر نہیں سکتے ان سیاستدانوں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ سیاسی پارٹی جمہوری معاشرے کا سب سے اہم ادارہ ہوتی ہے۔ نچلی سطح تک منتخب عہدیداروں والی منظم سیاسی پارٹیوں کے بغیر‘ کارکنوں پر اعتماد اور ان کی تربیت کے بغیر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و تمحیص کے بعد مربوط منصوبہ بندی کے بغیر جمہوریت کی کامیابی کا خواب‘ مستقبل میں بھی اسی طرح پریشاں رہے گا جس طرح کہ اب تک۔ پیپلز پارٹی کچھ سیٹیں لے بھی مری تو رفتہ رفتہ کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ عام آدمی سے اس کا رشتہ بہت کمزور ہے۔ اعتماد اس قدر ٹوٹ چکا کہ آسانی سے اب جڑے گا نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ‘ انہی کے ایما پر بعض عرب ممالک نے اب نوازشریف کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک کے مالدار طبقات کو بھی کپتان سازگار نہیں۔ پٹوار اور پولیس اگر سیاسی رسوخ سے آزاد ہوں گے۔ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی رقوم اگر نہ ملیں گی‘ جس میں سے بیس فیصد وہ ہڑپ کر لیا کرتے؟ اگر اپنی مرضی کے تھانیدار وہ لگوا نہ سکیں؟ پھر سیاست میں سرمایہ کاری اور جاں سوزی کا فائدہ کیا؟ وہ کیسی لیڈری ہوگی‘ جس میں قانون کی پاسداری کرنی پڑے اور انا کو گنے کا رس نہ پلایا جا سکے۔ عمران خان کے جلسوں میں کم از کم برابر کی حاضری کے باوجود‘ تحریک انصاف کی پیہم پیش قدمی کے باوجود‘ ایک ایک دروازے پر دستک دینے والے عمران خان کے رضاکاروں کا ملک گیر لشکر بروئے کار آنے کے باوجود‘ اس کی غیر معمولی ساکھ کے باوجود‘ بعض ٹی وی میزبان اور کالم نگار نوازشریف کی برتری کا اس قدر ڈھنڈورا کیوں پیٹتے رہتے ہیں؟ صرف اس لیے نہیں کہ صدر اوباما کے بقول امریکہ بہادر نے پاکستانی میڈیا میں 50 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری فرمائی ہے۔ اس لیے بھی کہ بڑے میڈیا ہائوس بھی کاروباری ترجیحات ہی رکھتے ہیں۔ عمران خان کے پاکستان میں‘ اس قدر من مانی تو وہ بہرحال نہ کر سکیں گے۔ ان صحافیوں پر وزراء اعلیٰ ہائوس کے دروازے اتنے کشادہ تو بہرحال نہ ہوں گے‘ جن کا اصل کاروبار دوسرا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود‘ اس کے باوجود‘ خان کا خوف سوار ہے۔ نون لیگ کی برتری کا تاثر برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹائم‘ نیوز ویک‘ اکانومسٹ‘ لندن ٹائمز‘ ہیرالڈ ٹربیون اور واشنگٹن پوسٹ کے حوالے دیئے جائیں۔ اندازہ ہے کہ آئندہ ایام اور بھی سنسنی خیز کہانیاں چھپیں گی۔ ممکن ہے گیلپ کا ایک اور سروے بھی سامنے آئے‘ جس میں لکھا ہو کہ عمران خان کے ووٹ 7 فیصد سے کم ہو کر پونے پانچ فیصد رہ گئے۔ نون لیگ کے 59 سے بڑھ کر 63 فیصد ہو گئے۔ نفسیاتی جنگ بھی بڑی جنگ کا حصہ ہوتی ہے اور سیاست میں گاہے‘ فیصلہ کن۔ پشتو کی ضرب المثل یہ ہے: لڑائی میں گڑ نہیں بانٹا جاتا۔ انگریزی کی کہاوت یہ کہ: سچائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوا کرتی ہے۔ برسبیل تذکرہ گیلپ کا سروے ہی اکانومسٹ کے احمقانہ تجزیے کی بنیاد ہے۔ امریکی بہت بے قرار ہیں۔ یہاں لاہور میں امریکی قونصل خانے میں ’’روشن خیال‘‘ اخبار نویسوں کی آمدورفت بڑھ گئی ہے‘ جو اپنے وطن میں خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ اردو بولنے میں جنہیں دشواری ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض کو انتخابی حلیفوں کے تجزیے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ محترمہ قونصلر کو آج کل چین کی نیند نصیب نہیں۔ پرسوں پرلے روز ایک دانشور سے بہت بھولپن کے ساتھ‘ وہ پوچھ رہی تھیں: سیکولر جماعتیں مشکل سے دوچار ہیں‘ تو الیکشن التوا میں کیوں نہیں ڈال دیئے جاتے؟ امریکی ایک طرف تو نوازشریف کو حمایت کا یقین دلارے ہیں۔ دوسری طرف جنرل کیانی سے نامہ و پیام کہ افغانستان سے 80بلین ڈالر کا جنگی سازو سامان انہیں واپس لے جانا ہے۔ امریکیوں سے زیادہ انگریز سفارتکار اور ان کے خفیہ کارندے سرگرم ہیں‘ دنیا کی سب سے زیادہ سازشی قوم! پاکستان کی 65 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت سے زیادہ سنگین مسائل ہمارے لیے برطانیہ نے پیدا کیے۔ 1947ء میں گورداس پور کو اگر بھارت کا حصہ قرار نہ دیا جاتا تو پنڈت نہرو کی افواج کے لیے سرینگر پہ قبضہ ممکن نہ تھا۔ آخری انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن اگر چاہتے تو کشمیر میں وہ سنگین صورت حال پیدا نہ ہوتی‘ ربع صدی میں جس نے تین جنگوں کو جنم دیا۔ پاکستانی لیڈر ہیں، برطانیہ جن کا دوسرا گھر ہے۔ آخر کیوں ؟ لندن شہر انہیں اس قدر سازگار کیوں ہے؟ اس لیے کہ پینسٹھ برس سے یہ برطانیہ کی مستقل پالیسی ہے۔ اس کی وزارتِ خارجہ اور خفیہ ایجنسیوں کی مرتب کردہ۔ گہرائی میں اس موضوع پر غور کیاجائے تو ہماری تاریخ کے بہت سے عقدے کھل جائیں۔ برطانیہ میں کس کس کی سرمایہ کاری ہے؟ اگر دیانتداری اور عرق ریزی سے ان سب کی ایک فہرست ہی بنا لی جائے تو بہت کچھ آشکار ہوجائے۔ بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا اگر اس طرّہ پُر پیچ وخم کا پیچ و خم نکلے پاکستانی صحافت بے باک بہت ہے لیکن غوروفکر اور تحقیق و جستجو کم ہی۔ ملک کے بعض میڈیا گروپ‘ برطانیہ سرکار سے گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ اس سے بہت زیادہ بظاہر جتنے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی پاکستانی عوام کو اس بات میں تمام حقائق سے آگاہ کرسکے تو وہ اس کا عظیم محسن ہوگا۔ یہ ایک تاریخ ساز خدمت ہوگی۔ وہ جن کے اہل خاندان اور عزیز و اقارب انگلستان میں ہیں‘ ان کی آمد و رفت تو قابل فہم لیکن کچھ دوسرے لوگ دیار فرنگ کے لیے مسلسل بے تاب کیوں رہتے ہیں؟ ایک صدی ہوتی ہے‘ جب اقبالؔ نے کہا تھا: مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری اور عیّار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش معاملہ اب کہیں زیادہ سنگین ہے؛ چنانچہ کہیں زیادہ غور طلب۔