کب تک؟ آخر کب تک ہم خود کو فریب دیتے رہیں گے۔ اقبالؔ کا مصرعہ ذہن میں گونجتا ہے اور گونجتا رہتا ہے۔ آزادیِٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد کیا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ایک غیر متنازعہ ہیرو تھے؟ جن کی پوجا کی جائے۔ اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ ماضی ہی نہیں‘ مستقبل کی سیاست پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ تھکے ماندے نوازشریف نے مشرف کا مارشل لا نافذ ہونے کے بعد جو احساسِ جرم کا شکار تھے اور خفیہ سمجھوتہ کر کے ملک سے نکل بھاگے تھے‘ اچانک اور مجبوراً بھٹو کو شہید مانا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے جاں بحق ہو جانے کے بعدبھی ‘ وہ ان کی مدح کرتے رہے۔ ہر سال 17 اگست کو فیصل مسجد کے سائے میں منعقد تعزیتی اجتماع میں وہ شریک ہوتے۔ ہر بار وہی ایک جملہ دُہراتے ’’ضیاء الحق کا مشن میں پورا کر کے رہوں گا‘‘۔ اسامہ بن لادن سے‘ ان کے ذاتی مراسم رہے۔ آئی ایس آئی کے سبکدوش افسر اور نوازشریف کے حلیف خالد خواجہ جب تک حیات رہے‘ وہ ان کی باہمی ملاقاتوں کی روداد بیان کیا کرتے۔ خاص طور پر گرین ہوٹل مدینہ منورہ میں ہونے والی ایک دلچسپ نشست کی کہانی۔ یہ ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا‘ جو اب توسیع کی نذر ہوچکا۔ ناٹے سے قد کے ذہین و فطین خالد خواجہ مزے لے لے کر دونوں کا مکالمہ سنایا کرتے؟ پنجاب اسمبلی میں نوازشریف کو اکھاڑ پھینکنے اور فوراً بعد مرکز میں بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کی ناکام مہمات کے بعد یہ ملاقات برپا ہوئی تھی۔ اسامہ نے پوچھا: کیا واقعی آپ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ بے تابی سے نوازشریف نے جواب دیا: جی ہاں‘ جی ہاں‘ بالکل بالکل۔ بڑی بڑی آنکھوں والے طویل قامت عرب مہم جُو نے‘ جس کے اجداد کبھی یمن سے حجاز میں آئے تھے‘ گول مٹول اور سرخ رو کشمیری نژاد پاکستانی رہنما کے چہرے پر نگاہیں گاڑ دیں اور پوچھا: کتنا اسلام؟ نوازشریف گڑبڑا گئے اور کوئی جواب بن نہ پڑا۔ اس پر عام سے فرنیچر والے ریستوران کے سبز ستون پر اپنی لمبی انگلیاں جما کر اس نے کہا: بس اتنا سا دین؟ پھر ہاتھ اوپر اٹھا لے گئے‘ ذرا بلندی پر اور یہ کہا ’’اور میں اتنا زیادہ‘‘۔ خالد خواجہ مرحوم کے بقول بے چین ہو کر‘ میاں محمد نوازشریف نے پنجابی میں ان سے کہا ’’پیسوں کی بات کرو‘ یار پیسوں کی‘‘۔ پیسوں کی بات ہوگئی۔ کتنے روپے‘ کس طرح سے شریف خاندان کو منتقل ہوئے‘ پاکستان کے خفیہ اداروں اور اسامہ بن لادن پر بعد کے برسوں میں تحقیق کرنے والی سی آئی اے اور ایم آئی سکس کو یقینا معلوم ہوگا۔ خالد خواجہ کا کہنا یہ تھا کہ چالیس ملین ڈالر‘ جو آج کے حساب سے چار ارب روپے ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب نوازشریف سے غالباً اس لیے ناراض تھے کہ اب وہ ان سے رہ و رسم ضروری نہ سمجھتے تھے۔ البتہ جب تک وہ زندہ رہے‘ شریف خاندان کی طرف سے‘ ان کے عائد کردہ الزامات پر تردید تو کجا‘ کبھی کوئی وضاحت بھی سامنے نہ آئی۔ اخبارات میں اس الزام کی تکرار بھی ہوئی کہ ایک عرب ملک نے‘ جنرل محمد ضیاء الحق کے وارث میاں صاحبان‘ جس کے حکمرانوں سے گہری عقیدت رکھتے ہیں‘ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد اور بعد ازاں 1990ء کی انتخابی مہم کے لیے تین ملین ڈالر شریف خاندان کو بھجوائے تھے۔ خفیہ ایجنسیوں کی عنایات اس کے سوا‘ جن کے سائے میں اسلامی جمہوری اتحاد پروان چڑھا اور نوازشریف وزیراعظم بن بیٹھے۔ 1988ء سے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی ٹھوس امداد سے شروع ہونے والی شریف خاندان کی پیش قدمی جاری رہی۔ 1993ء سے 1996ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں نوازشریف بھٹو خاندان کے واحد مخالف بن کر ابھر آئے۔ اب بھٹو مخالف ووٹ ان کے لیے پوری طرح یکسو ہو گیا۔ چنانچہ اب انہیں غلام اسحق خان کی ضرورت رہی اور نہ جنرل حمید گل‘ جماعت اسلامی اور اعجاز الحق کی‘ عزم و ہمت میں جو اپنے باپ کا عشر عشیر بھی ثابت نہ ہو سکے۔ جن کی وجہ سے‘ مرحوم پر یہ پھبتی کسی گئی کہ جنرل محمد ضیاء الحق چونکہ بے اولاد مرے چنانچہ ان کی وراثت تحلیل ہو گئی۔ یہ وہ پس منظر تھا کہ دوسری بار ساڑھے تین سالہ اقتدار کے بعد شدید عدمِ مقبولیت کی فضا میں‘ جنرل پرویز مشرف نے ان کا تختہ کردیا۔ اسی پرویز مشرف نے‘ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت بہت سے باخبر لوگ‘ جن کے بارے میں میاں محمد نوازشریف کو متنبہ کیا کرتے۔ تمام تفصیلات تو اب بھی آشکار نہیں۔ یہ مگر معلوم ہے کہ ان کے سگے بھائی شہباز شریف اور سوتیلے چودھری نثار علی خان‘ گاہے شب کی تاریکی میں منگلا چھائونی جایا کرتے۔ وہاں خفیہ طور پر پرویز مشرف ان دنوں وہی کچھ کیا کرتے‘ جو بعدازاں صدر کی حیثیت سے ڈٹ کر کیا‘ برسرِ عام کیا۔ کیا وہاں ڈھولکی بھی بجتی تھی؟ کیا وہاں فلمی گیت بھی گائے جاتے؟ معلوم نہیں۔ معلوم یہ ہے کہ ان دونوں لیڈروں کو موسیقی سے شغف ہے اور نہ بادہ نوشی سے۔ پھر دریائے جہلم کے بوگن دیلیا کے پھولوں سے مہکتے کناروں پر وہ کیا ڈھونڈنے جاتے تھے؟ بارہ برس بعد جنرل کیانی سے وہ کن موضوعات پر بات کیا کرتے؟ جب چھ بار وہ ان سے ملے اور کسی کو خبر نہ تھی‘ تاآنکہ شیخ رشید نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کو اکھاڑ پھینکا تو ان کے حق میں کوئی آواز نہ اٹھی‘ کوئی آنکھ اشکبار نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ ان کے سرپرست مدیر نے اخبار کے صفحہ اول پر اپنے قلم سے لکھا: ہمیں کیا خبر تھی کہ میاں صاحب موصوف یاسر عرفات بن چکے ہیں۔ اپنی قوم سے کامل بے وفائی کے مرتکب‘ بھارت اورامریکہ نواز۔ جیل کی کوٹھڑی میں گزرے چند ہفتوں کے دوران نوازشریف ذہنی طور پر پسپا ہوئے اور بُری طرح پسپا۔ وہ ٹوٹ گئے تھے اور مکمل طور پر۔ ان کے عرب سرپرست اور امریکی دوست ان کی مدد کو پہنچے‘ خاص طور پر صدر کلنٹن۔ اسی اثنا میں نوازشریف کا ذہن بدلا اور اس طرح بدلا کہ اپنے سب سے بڑے محسن جنرل محمد ضیاء الحق کو یکسر مسترد کرنے اور بھٹو خاندان کو انہوں نے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اقتدار پا سکیں۔ ان کا مسئلہ یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو کہیں فوجی آمر اور اس کے سرپرست استعمار سے سمجھوتہ کرکے انہیں سیاست سے بے دخل نہ کر ڈالیں۔ بھٹو کو انہوں نے شہید مان لیا اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو کو۔ نظریاتی تبدیلی نہیں بلکہ یہ ان کی سیاسی ضرورت تھی اور نوازشریف ایسے رہنمائوں کے لیے سیاست ایک کاروبار ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کیسے قرار پائے؟ قرآن مجید میں تعریف متعین کر دی ہے۔ ’’من یقتل فی سبیل اللّٰہ‘‘ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے۔ اقتدار کی جنگ کے مقتول مظلوم تو کہلا سکتے ہیں مگر شہید ؟ بھٹو تو ایک مثالی حکمران بھی ہرگز نہ تھے۔ بجا کہ انہوں نے دستور بنا دیا۔ بجا کہ اسلامی کانفرنس انہوں نے برپا کی اور مضمحل ملک کو استحکام عطا کرنے کی کوشش۔ بجا کہ بدترین حالات میں ایٹمی پروگرام کی انہوں نے بنیاد رکھی مگر شہید؟ ان کے ہمدرد کرنل رفیع کی کتاب پڑھیے‘ ’’بھٹو کے 298 آخری ایام۔‘‘ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اس حال میں بھی سجدے اور تلاوت کی توفیق انہیں نصیب نہ ہوسکی۔ اس حال میں بھی اپنی کسی بھی غلطی کا اعتراف وہ نہ کرسکے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے دورِ جاہلیت کے اہلِ سخا میں سے ایک کا نام لے کر سرکارؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ‘ کیا وہ بھی بخشا نہ جائے گا؟ فرمایا: نہیں، عائشہ‘ اس نے کبھی یہ نہ کہا کہ یااللہ مجھے معاف کردے (مفہوم) بھٹو مسلمان تھے‘ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ وہ بھی مگر بھٹو ہی تھے‘ جو پاکستان توڑنے کے ذمہ داروں میں سے ایک ذمہ دار ہیں۔ اخبارات کو انہوں نے کچل ڈالا اور23مارچ 1977ء کو لیاقت باغ میں اپنے مخالفین پر گولیاں چلا کر 13 شہری شہید کرا دیئے۔ 1977ء میں ان کے 50ہزار مخالفین جیلوں میں پڑے تھے اور ان میں سے بعض کے ساتھ وہ سلوک ہوا کہ لکھا نہیں جا سکتا۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کے نام سے اپنی ذاتی فوج انہوں نے بنا لی تھی اور مخالفین کی زندگی عذاب کر دی تھی۔ اسی فوج نے احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ خود اپنی پارٹی کے اختلاف کرنے والوں کو دلائی کیمپ میں جا پھینکا اور عدالت میں صاف صاف مکر گئے۔ عبدالولی خان اور ان کے ساتھیوں کو غدار کہا اور جیل میں ڈال دیا۔ بلوچستان کی منتخب حکومت برطرف کی اور اس پر فوج چڑھا دی۔ 1973ء کے الیکشن میں اپنے مخالف امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرا لیا کہ بلامقابلہ منتخب ہوں‘ ان کے چاروں وزراء اعلیٰ نے بھی ان کی پیروی فرمائی۔ کتنا جھوٹ، کتنا جھوٹ، ایک قوم ہضم کرسکتی ہے؟ اور اس جھوٹ پر قائم ہونے والی عمارت کب تک قائم رہ سکے گی۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: الصدق ینجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ کب تک‘ آخر کب تک‘ ہم خود کو فریب دیتے رہیں گے۔ اقبال کا مصرعہ ذہن میں گونجتا ہے اور گونجتا رہتا ہے۔ ع آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد!