تو کیا یہ کافی نہیں کہ جناب صدر نے اس تاریخی ساعت میں انہیں یاد رکھا۔ اپنے مختصر سے خطاب میں بھی کئی بار ان کا نام لیا‘ کئی بار‘ ان کا ذکر فرمایا‘ حوالہ دیا! وہ ہم سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ کہاں ہم‘ کہاں یہ مقام اللہ اللہ سنا ہے کہ سال گزشتہ صدر آصف علی زرداری جب دبئی کے ایک ہسپتال میں داخل تھے تو ڈاکٹروں اور نرسوں سے زیادہ ان کی تیمارداری ایک کھرب پتی نے کی۔ وہ کبھی ان کے ہاتھ سہلاتا اور کبھی پائوں دباتا۔ بیماری میں وہ مبتلا تھے اور جان پر اس کے بنی تھی۔ بے غرض آدمی جو بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے۔ پھر رئوسا کو‘ جن کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے‘ جب ’’بائی پولر‘‘ کا مرض ان پر حملہ آور ہوا اور عنان ان کے ہاتھ سے پھسلنے لگی۔ نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پاہے رکاب میں ایک قومی شخصیت کو شب بارہ بجے انہوں نے فون کیا اور پورے اڑھائی گھنٹے‘ 150 منٹ تک ان سے بات کرتے رہے۔ آگہی دامِ شنیدن، جس قدر چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا حکمرانوں کے باب میں رحم دل اور فیاض مولانا فضل الرحمن ان سے ملنے گئے تو تین چار گھنٹے تک ان سے محوِ کلام رہے۔ کلام بھی ایسا کہ حضرت والا حیران اور حیران سے زیادہ پریشان۔ صدر بارک حسین اوباما کو بھی اسی شب جناب صدر نے فون کیا تھا‘ جس کے بارے میں چند روز بعد نیویارک ٹائمز میں خبر چھپی کہ ربط و ضبط عنقا تھا۔ بیچارے اوباما‘ صوفیانہ اندازو ادا سے بے خبر۔ انہیں کیا معلوم کہ معرفت ایمائیت اور ابہام کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے گھمبیرتا جنم لیتی اور سامع کو غور و فکر پہ وہ آمادہ کرتی ہے۔ اگر اہلِ معرفت بھی عامیوں کی طرح بات کریں تو سننے والوں کی قوت متخیلہ کیونکر بروئے کار آئے؟ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب میں بھی اسی روایت کا پرتو ہے۔ بظاہر بے مقصد اور بے معنی‘ سطحی اور سرسری۔مگر غور کیجیے تو ایک جہانِ معنی ہے۔ عامیوں کا نہیں‘ یہ عارفوں کا توشہ ہے اور ایک عظیم جمہوری عہد کے اختتام پر‘ ایشیائی نیلسن منڈیلا کا خطاب ایسا ہی چاہیے تھا۔ اب یہ اپنے اپنے زاویۂ فکر اور طرزِ احساس کی بات ہے۔ جہاں تک کیڑے ڈالنے والوں کا تعلق ہے‘ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تعصب کے مارے اپنی مرضی کے مفاہیم ڈھونڈ سکتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ: جناب صدر نے اس قدر شدت کے ساتھ مفاہمت پر جو زور دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جنابِ وزیراعظم‘ پانچ برس تک آپ کے کارناموں سے ہم نے اغماض برتا‘ حتیٰ کہ رانا ثناء اللہ تک کی شان میں عملاً کوئی گستاخی نہ کی۔ اس روایت کو باقی اور برقرار رکھیے گا کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہم نے احتساب کے ادارے کو اس قدر شائستہ بلکہ بے ضرر بنادیا۔ کبھی کسی طاقتور کو جس نے آزردہ نہ ہونے دیا۔ تمام عظیم بادشاہوں کی یہ خوبی ہوا کرتی ہے۔ آپ تو ہم سے بڑے بادشاہ ہیں۔ اپنے جلیل القدر پیش رووں کی اس روایت کو بھول نہ جایئے گا۔ فرمایا: آج کی جمہوریت‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت‘ میری گیارہ برس کی اسیری اور میاں محمد نوازشریف کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی وطن کے بے گناہ لیڈروں کی شہادتوں‘ گرفتاریوں اور جلا وطنیوں سے موسم بہار تو اس پر طلوع نہیں ہوا کرتا۔ آفت ہی آئے گی۔ مرنے والے زندہ نہیں ہو سکتے‘ غریب الوطنی اور زندانوں میں بیتے مہ و سال لوٹ کر نہیں آ سکتے؛ لہٰذا اہلِ وطن کا گمشدہ قرار اور ملک کا استحکام بھی واپس نہیں آ سکتا۔ ہر چیز کا ایک تاوان ہوتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سمیت ان عظیم رہنمائوں کی ابتلا کا تاوان ان کی قوم ادا کرے گی اور اس وقت تک ادا کرتی رہے گی‘ جب تک اللہ کے فضل سے وہ زندہ سلامت ہیں یا ان کی اولاد اس قابل ہے کہ ان کے علم سرفراز رکھے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کر دیئے گئے تو قوم کو ان کی دختر نیک اختر عطا ہوئیں اور اس محترم ہستی کا خون بہایا گیا تو آصف علی زرداری کا سا عدیم النظیر لیڈر‘ ہماری سیاست کے آفاق پر طلوع ہوا۔ ایسا کہ سیاست دوراں کے ایک عظیم سکالر جناب جاوید ہاشمی نے ارشاد کیا: سرزمین سندھ کے اس بلوچ فرزند نے حیاتِ اجتماعی کی تاریخ میں‘ ایسے منفرد کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیق کا عنوان بن سکتے ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ خود جاوید صاحب بھی اس قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ… کچھ اور نہیں تو پنجاب یونیورسٹی کے لائق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری تو پیش کر ہی سکتے ہیں‘ جس طرح جامعہ کراچی نے وزیر داخلہ رحمن ملک اور عشرت العباد کی نذر کی۔ معلوم نہیں‘ وہ اپنے ساتھ اب ڈاکٹر کیوں نہیں لکھتے‘ حالانکہ عشرت العباد تو دورِ جوانی ہی سے اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ جس فن سے وہ وابستہ ہیں‘ اس میں ان کے درجے کا فنکار پھر نہ پیدا ہو سکا۔ رہے رحمن تو یار لوگ خراجِ تحسین کی اپنی سی کوشش کیا ہی کرتے ہیں۔ کرتے رہیں‘ کبھی نہ کبھی شاید کوئی کامیاب ہو جائے۔ اب جس عظیم استاد کے شاگردانِ گرامی میں رحمن ملک‘ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی ایسے جواں ہمت شامل ہوں‘ خود اس کی شان کے کیا کہنے۔ دلی کے شرفاء کا ایک وفد حضرت میر تقی میر کی خدمت میں حاضر ہوا کہ ازراہ کرم اپنا کلام عطا فرمایئے۔ وہ طرح دیتے رہے۔ مداحینِ منسکر کا اصرار جاری رہا تو ارشاد کیا: کیونکر آپ اسے سمجھ پائیں گے۔ مفہوم و معانی کا چراغ کیسے روشن ہوگا۔ مؤدبانہ انہوں نے عرض کیا: ہم حافظؔ وسعدیؔ کو پڑھتے ہیں۔ بیدلؔ کی تاب لاتے ہیں۔ شاید کچھ نہ کچھ آپ کا احاطہ بھی کر پائیں۔ فرمایا: انہیں سمجھ لینے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے۔ لغات اور شرحیں موجود ہیں۔ ہماری بات دوسری ہے۔ ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا درد و غم؟ خدا واسطے کی دشمنی رکھنے والے یہ بھی کہہ سکتے ہیں: بھوک اور ا فلاس سے‘ بے یقینی اور خوف سے‘ سرحدوں کے باہر اور سرحدوں کے اندر بسنے والے سفاک قہرمانوں کے جبر سے ہمارے کلیجے پھٹ گئے۔ صبحیں بے کیف‘ شامیں ویران اور راتیں بے خواب ہو گئیں۔ آپ کے آخری خطاب میں ہمارے رنج و محن کی ایک ذرا سی جھلک بھی دکھائی نہ دی۔ پاکستان کے وہ چالیس ہزار فرزند‘ جن کے پیکر چیتھڑے بن کر اُڑے۔ جن میں سے بہت سوں کو قبر کی مٹی تک نصیب نہ ہو سکی۔ پاک سپاہ کے وہ بہادر سپوت بے اماں سرحدوں پر جو کھیت رہے۔ جن کے لیے کبھی کوئی شایانِ شان گیت نہ لکھا جا سکا۔ بے مہر اور بے درد لوگ جنہیں اپنے ہی وطن کے فرزندوں سے نبرد آزما ہونے کے زہر بھرے طعنے ملتے رہے۔ وہ لاکھوں آدمی‘ شاید ایک کروڑ کے لگ بھگ‘ جن سے آپ کے دور میں ایک وقت کے کھانے کا امکان تک نوچ لیا گیا۔ اس دیار کی ہزاروں برس پر پھیلی تاریخ میں‘ اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ گھر گھر بھوک کی ڈائن کے ڈسے گر گر کے مرتے رہے۔ کتنے بچے تعلیم سے محروم رکھے گئے۔ اگر صرف یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف کے ہاتھوں برباد ہونے والا صوابدیدی فنڈ بچا لیا جاتا۔ اگر فقط لاہور کی ریپڈ بس سروس میں‘ آپ مروت کا ایسا مظاہرہ نہ فرماتے۔ ہنگامی تعمیر پر زائد صرف ہونے والے دس ارب روپے اگر بچائے جا سکتے؟ فقط تین رہنمائوں کی فیاضی سے قوم کو محفوظ رکھا جا سکتا تو ان تین کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکتا۔ کون ان کی زبان پکڑ سکتا ہے۔ کہنے والے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کہ دل جب درد سے خالی ہو کر پتھر ہو جائیں تو ایسے ہی لیڈروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسے ہی بھاشن سننا پڑتے ہیں‘ بے مغز‘ بے روح‘ بے سروپا۔ معترضین کا کیا‘ انہیں بکنے دیجیے۔ انتقالِ اقتدار کا عظیم تاریخی کارنامہ انجام دینے کی خوشگوار فضا میں‘ کچھ نہ کچھ امید تو جنابِ صدر کر ہی سکتے ہیں کہ نیا حکمران پرانے کی کچھ نہ کچھ پیروی تو لازماً فرمائے گا۔ کم از کم مفاہمت اور رواداری کے باب میں۔ وضع داری کے باب میں‘ سب سے زیادہ دلکش اور پسندیدہ جملہ وہی ہے نا؟ ’’جس طرح کا سلوک‘ بادشاہ‘ بادشاہوں سے کیا کرتے ہیں؟‘‘ رہے عام لوگ‘ جنہیں ازراہ سرپرستی اب ’’ہماری عوام‘‘ کہا جاتا ہے تو کیا یہ کافی نہیں کہ جناب صدر نے اس تاریخی ساعت میں انہیں یاد رکھا۔ اپنے مختصر سے خطاب میں بھی کئی بار ان کا نام لیا‘ کئی بار‘ ان کا ذکر فرمایا‘ حوالہ دیا! وہ ہم سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ کہاں ہم‘ کہاں یہ مقام اللہ اللہ