یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے اور انسان کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے ۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو مگر ایسا لگتا ہے کہ ملّاح اپنی کشتی کسی چٹان سے ٹکرا دے گا کہ ہوش سے وہ بیگانہ نظر آتاہے ۔ گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ میاں محمد نواز شریف کبھی ایک بہت دانا او ردبنگ آدمی نہ تھے مگر اب تو یکسر متذبذب ہیں۔ ان کی سیاست فوج کے سائے میں پروان چڑھی ۔ آئی ایس آئی کے قائم کردہ اسلامی جمہوری اتحاد کے لیڈر بنائے گئے تو پیپلز پارٹی کے مخالفین اورکاروباری طبقات ان سے آملے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر پاکستان توڑنے کا الزام تھا۔ اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں آزادیء اظہار کو انہوں نے بے دردی سے کچل ڈالا۔ بینکوں ، انشورنس کمپنیوں اور دوسری صنعتوں کو قومیا کر برباد کر دیا۔ حریفوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے فیڈرل سکیورٹی سروس کے نام سے اپنی ذاتی فوج تشکیل دی اور 1977ء کے انتخابات میں ڈٹ کر دھاندلی کی ۔ 1983ء میں گیلپ پاکستان نے عوامی سروے کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے مگر 59فیصد رائے دہندگان اس کے مخالف ہیں۔ ان میں اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ ، سندھ کے اردو بولنے والے بھی شامل تھے، بعد ازاں ایم کیو ایم جن کی جماعت بن کر ابھری۔ بھٹو حیرت انگیز خامیوں اور خوبیوںکا مجموعہ تھے ۔ 1965ء کی جنگ کے ہنگام وہ ایک قوم پرست بن کر ابھرے، جب بھارت کے خلاف ہزار سالہ جنگ کا انہوںنے نعرہ لگایا۔ جاگیرداروں اور ایوب خان کے عہد میں سرکار کے سائے میں تیزی سے ابھرتے ہوئے صنعت کاروں کے ہاتھوں ستائے گئے غریب آدمی کے احساسات کا انہوںنے ادراک کیا۔ سندھ اور پنجاب میں وہ ایک مقبول رہنما بن کر ابھرے مگر 1970ء کے انتخابی نتائج کو عملًاانہوںنے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تو جنرل یحییٰ سے انہوںنے گٹھ جوڑ کر لیا او رانتقالِ اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ۔ ان دو آدمیوں کی ہوسِ اقتدار نے پاکستان کے دو لخت ہونے کی بنیاد فراہم کی ۔ اگرچہ بھٹو نے دستور کی تشکیل، ایٹمی پروگرام کے آغاز اور باقی ماندہ ملک میں استحکام کے کارنامے انجام دیے مگر ان کے سفاکانہ طرزِ عمل کی بناپرآبادی کے بڑے بڑے طبقات اس شخص کے مخالف رہے ، جس نے نجی سکول اور آٹے کی ملیں تک سرکاری تحویل میں لے لی تھیں ۔ جس نے بلوچستان پر فوج چڑھا دی تھی اور اپوزیشن کے جلسوں پر گولیاں برسائی تھیں ۔ 1977ء کے انتخابات کا مرحلہ آیاتو تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کے خلاف متحد ہو گئیں اور اسی پسِ منظر میں جنرل محمد ضیا ء الحق 11سال کوسِ لمن الملک بجاتے رہے ،حتیٰ کہ اگست 1988ء میں امریکیوں نے ان کاطیارہ تباہ کر دیا۔ میاں محمد نواز شریف جنرل محمد ضیا ء الحق کے سیاسی جانشین کی حیثیت سے برسرِ اقتدار آئے تھے ۔ اپنے المناک انجام سے چند سال قبل پنجاب اسمبلی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے دعا کی تھی کہ ان کی باقی ماندہ عمر نواز شریف کو لگ جائے ۔ یہ اس وقت ہو اتھا ، جب ان کے اس پسندیدہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد ہر سال 17اگست کو وہ ان کے مزار پر جاتے اور یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کا مشن مکمل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ مرحوم کا مشن کیا تھا؟ ایک حکمران کے طور پر میاں محمد نواز شریف کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ تمام تر اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرنے کے آرزومند رہتے ہیں ۔ 1990ء اور پھر 1996ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد غلام اسحٰق خان ، جنرل مرزا اسلم بیگ ، جنرل آصف نواز اورسپریم کورٹ سے ان کے تصادم اور تلخی کا سبب یہی تھا۔ میاں محمد نوا زشریف کا ہنر یہ ہے کہ میڈیا کو استعمال کرنا وہ خوب جانتے ہیں ۔ شاید یہ ہنر انہوںنے گجرات کے چوہدریوں سے سیکھا ہے ؛اگرچہ چوہدری صاحبان منکسر مزاج اور وضع دا رواقع ہوئے ہیں ۔ ممنونِ احسان نیاز مندوں کے ساتھ بھی وہ عاجزی سے ملتے ہیں اور مخالفین سے بھی کشادہ پیشانی کے ساتھ ۔ 1992ء میں نواز شریف برطرف کیے گئے تو یہ تاثر دیا گیا کہ اس حادثے سے انہوںنے بہت کچھ سیکھا ہے مگر تین برس کے بعد وہ اقتدار میں آئے تو سیف الرحمٰن کے ہاتھ میں انہوںنے احتساب کی تلوار تھما رکھی تھی۔ نواز شریف کے مخالفین پروہ پل پڑے اور مقدمات ہی نہ بنائے بلکہ ان کی توہین پر بھی تلے رہے ۔ شریف خاندان کی آٹھ سالہ جلا وطنی کے دوران اس بات کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ نا مساعد حالات سے انہوںنے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب وہ ایک بدلے ہوئے آدمی ہیں ۔ پنجاب میں پچھلے پانچ برس وہ اسی پولیس اور پٹوار کی مدد سے حکومت کرتے رہے ، خلقِ خدا کے لیے جو سب سے بڑا عذاب ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ابتلا کے مہ و سال سے انہوںنے قطعاً کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ برصغیر کے روایتی سیاستدانوں کی طرح ، وہ ایک نعرہ فروش ہیں ۔ ہر اس شخص اور گروہ کی سرپرستی پر آمادہ ، جو اقتدار کے حصول اور بقامیں ان کی مدد کر سکے ۔ ایک طرف تو کاروباری طبقے کی ہر طرح سے وہ مدد کرتے ہیں ، جو ان کی پارٹی کے لیے چندوں اور ووٹوں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ دوسری طرف امریکہ اور ان عرب ممالک سے ان کے گہرے مراسم ہیں ، پاکستان میں جن کے مستقل مفادات ہیں ۔ وطن واپسی کے بعد انہوںنے سوویت یونین کی تباہی کے بعد امریکی کشتی میں سوار ہو جانے والے ترقی پسندوں کی تائید حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کامیاب رہے ۔ امریکہ اور یورپ کے علاوہ بھارت ان لوگوں کے سر پہ دستِ شفقت رکھتاہے ، جن میں سے اکثر پاکستان کے وجود ہی پر یقین نہیں رکھتے ۔یہ لوگ قائد اعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں؛ حالانکہ اپنی نصف صدی کی سیاسی زندگی میں ایک بار بھی بابائے قوم نے یہ لفظ استعمال نہ کیا تھا۔ اب کی بار نواز شریف معمول سے کہیں زیادہ الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ بیک وقت چینیوں ، عربوں ، امریکیوں اور مقامی مالدار طبقات سے انہوںنے بہت سے وعدے کر رکھے ہیں ؟ حکومت سنبھالے انہیں پچاس دن ہونے کو آئے مگر وہ مسلسل مخمصے کا شکار ہیں ۔ دہشت گردی ، امن و امان کے قیام، ٹیکس وصولی ، بجلی کے بحران اور خارجہ پالیسی کی تشکیل سمیت ،کسی میدان میں ان کی حکمتِ عملی واضح نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ روپے پیسے کے لیے ان کی محبت بہت بڑھ گئی ہے ۔ 60ہزار ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد ، نندی پور ، ایل این جی سمیت، سات ہفتوں میں کتنے ہی سکینڈل سامنے آچکے ہیں اور تیزی سے ان کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے ۔ تازہ ترین کارنامہ ایم کیو ایم سے اتحاد ہے ، جو دیہی سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور سرحد میں ایک ناپسندیدہ پارٹی ہے ۔ کیا اس کا سبب کراچی میں تحریکِ انصاف کی مقبولیت ہے کہ صدارتی الیکشن کے لیے تو انہیں اس جماعت کی ضرورت نہ تھی ؟ سیاسی مبصرین نواز شریف کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن اس پر وہ متفق ہیں کہ بلوچستان میں قوم پرستوں کو حکومت سونپنے کے سوا اب تک وہ ڈھنگ کا ایک فیصلہ بھی نہیں کر سکے ۔ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے اور انسان کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے ۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملّاح اپنی کشتی کسی چٹان سے ٹکرا دے گا کہ ہوش سے وہ بیگانہ نظر آتاہے ۔ گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ