اُس وقت یورپ دلدل میں پڑا تھا‘ آج ہم پڑے ہیں‘ چودہ سو سال کے بعد! امید کی ایک کرن بالآخر پھوٹی تو ہے۔ قرآئن یہ ہیں کہ شریف حکومت بالآخر دہشت گردی پر ایک ایسی پالیسی پیش کر سکتی ہے‘ جو مسئلہ حل کرنے کا واضح امکان پیدا کردے۔ شواہد یہ بھی ہیں کہ سول اور عسکری قیادت کے انداز فکر میں فاصلے کم ہوئے ہیں۔ اگر دونوں اندازے درست ثابت ہوئے تو بھارتی اشتعال انگیزی کے باوجود‘ استحکام کا آغاز ہو سکے گا۔ بھارتی سیاست میں جنم لینے والی تبدیلیوں کا ادراک کیے بغیر تعلقات میں پیش رفت ممکن نہیں بلکہ سنگین اندرونی مسائل بھی حل نہیں کیے جا سکتے‘ ریاست جن سے کمزور پڑ گئی ہے اور ہر طرح کے دشمن حالات سے فائدہ اٹھانے پر تُلے ہیں۔ بدترین حالات میں ایک اور خوش آئند واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت جب بھارت کی عسکری اور سیاسی لیڈر شپ‘ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے متوازی آ گئی ہے اور جنگی بخار کو ہوا دے رہی ہے‘ نہ صرف حکومت بلکہ بحیثیت مجموعی پوری قوم نے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تحمل اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے مزاج میں مہم جوئی کم ہو رہی ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں حافظ سعید احمد نے بہت ہی تحمل سے دلائل پیش کیے۔ اقوام پر امتحان اترتے ہیں۔ ہمیشہ یہ جرأت نہیں بلکہ بصیرت کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ اوّل تو جنگ ایسی چیز ہی نہیں جس کی آرزو کی جائے‘ خاص طور پر عصر رواں میں کہ جدید جنگیں ہولناک حد تک تباہ کن ہوتی ہیں‘ پھر دو ایٹمی ملکوں کا تصادم! ماضی کا مزاج برقرار ہوتا تو کاکول اکیڈمی کے خطاب میں جنرل کیانی سخت الفاظ میں بھارت کو انتباہ کرتے۔ داد تو اس پر بہت ملتی مگر نتیجہ یہ نکلتا کہ بھارتیوں کے جنون میں اضافہ ہوتا۔ سرحد کے اس طرف بھی غیر ذمہ دار عناصر کی آواز بلند تر ہو جاتی۔ معاملے کو انہوں نے وزیراعظم پر چھوڑ دیا اور یہی کرنا چاہیے۔ بھارت کے برعکس‘ جہاں اب عسکری قیادت اور خفیہ ایجنسیوں نے انتہا پسند تنظیموں سے مراسم بڑھا لیے ہیں‘ پاکستان میں فوج کا کردار کم ہونے لگا ہے۔ اگر ملک کا نیا سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کی روایت کو آگے بڑھائے۔ ادھر سیاسی قیادت‘ فخر و ناز میں مبتلا بھارت کے ساتھ مراسم کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھے تو صورت حال بہتر ہوتی جائے گی۔ ملک کو بہرحال استحکام درکار ہے کہ حکومت قوانین نافذ کر سکے اور شورش پسند عناصر کو بتدریج محدود کردیا جائے۔ صرف کراچی‘ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اور سرحد کے انتہا پسند ہی نہیں بلکہ وہ سیاسی عناصر اور مفکرّین بھی‘ جو طوفانی ایّام میں ریاست کے جواز ہی کو چیلنج کرنے پر اتر آتے ہیں۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ پاکستان ایسی نئی ریاستوں کو یہ مسئلہ ہمیشہ درپیش ہوتا ہے۔ معاشی ترقی اور ریاستی اداروں کو کارگر اور خودنگر بنا کر بتدریج ہی ڈاکٹر مبارک علی ایسے ژولیدہ فکروں سے نجات پائی جاتی ہے۔ کل ٹی وی کے ایک مذاکرے میں انہوں نے ارشاد کیا کہ پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادتیں‘ آزاد ملک چلانے کی اہل ہی نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے صدمہ پہنچا اور مایوسی ہوئی۔ موصوف کو مؤرخ کہا جاتا ہے اور وہ تاریخ کی حرکیات سے اس درجہ نابلد ثابت ہوئے۔ اس ناچیز نے‘ جو ہرگز تاریخ کا اس قدر مطالعہ نہیں رکھتا‘ یاد دلایا کہ جن انگریز دانشوروں نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا‘ وہ بھول گئے کہ خود ان کی قوم پر صدیوں تک وائی کنگ‘ نارمن اور رومن حتیٰ کہ فرانسیسی حکومت کرتے رہے۔ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ برطانیہ ہمیشہ غلام ہی رہتا؟ پھر تاریخ میں چکا چوند پیدا کرنے والی وہ عظیم سلطنت کیونکر اُبھرتی‘ جس پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ جس کے بطون سے اُبھرنے والے صنعتی انقلاب نے کرّہ ارض کو بدل ڈالا۔ سامراج کے مظالم ایک دوسرا موضوع ہے لیکن آزادی کی بدولت ہی انگریز ذہنی اور علمی بلوغت سے آشنا ہوئے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح ایک فرد فرائض کا بوجھ سنبھالنے کے بعد ہی ذمہ دار شخصیت میں ڈھلتا ہے، اسی طرح اقوام کی بلوغت بھی ایک کے بعد دوسرا زینہ طے کیا کرتی ہے۔ حوصلہ افزائی کی بجائے کسی قوم میں مایوسی پھیلانا، بدترین جرائم میں سے ایک ہے؛ اگرچہ قانون میں اس کی کوئی سزا نہیں۔ کسی باضمیر شخص کو مگر ایسا نہ کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے تناظر میں ضمیر سے زیادہ یہ تعصب کا معاملہ ہے۔ کٹھ ملّا‘ آخری درجے کی عصبیت میں مبتلا قوم پرستوں اور ملحدوں کو پاکستان خوش نہ آیا۔ اس ملک کو مگر برقرار رہنا اور فروغ پانا ہے۔ ایسے دشمنوں اور ہماری تمام غیر ذمہ داریوں کے باوجود، بعض شعبوں میں اس ملک نے خیرہ کن ترقی پائی ہے۔ مثلاً ایٹمی اور میزائل پروگرام، مثلاً کراچی سے چترال تک پھیلے، اس کے سماجی بہبود کے رضاکار ادارے، بے شمار سکول جو مفت تعلیم دیتے ہیں، بے شمار ہسپتال جہاں مفت علاج میسر ہے۔ اس قوم میں زندہ رہنے ا ور نمو پانے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت سے مراسم بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ زیادہ صحیح الفاظ میں، بہرحال امن برقرار رکھنے کی۔ وزیراعظم کو اب ادراک ہونا چاہیے کہ دہلی سے تعلقات بحال کرنے میں غیر معمولی گرم جوشی اور بے تابی الٹا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایک زینے کے بعد دوسرا زینہ اور ایک منزل کے بعد دوسری منزل۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔ ثانیاً قوموں کے باہمی مراسم افراد کی مانند نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے کو گوارا کرسکتی ہیں۔ ایک دوسرے کی مددگار بھی ہوسکتی ہیں مگر دوست کبھی نہیں۔ بین الاقوامی مراسم میں ’’دوستی‘‘ کا لفظ مثبت تعلقات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر اس سے دھوکہ نہ کھاناچاہیے۔ مثبت انداز فکر کا مطلب حقائق کو نظر انداز کرناہرگز نہیں۔ سبھی کی بات سن لینی چاہیے اور پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس میں مشورہ دینے والے ہیں بھی بہت ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکہ بہادر ، یورپی یونین یا فرانس اور جرمنی کے سفیر ہمیں سکھائیں کہ بھارت سے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ گھر کی دیوار سلامت نہ رہے تو راستہ بن جاتا ہے، اس کا علاج ازسرنو دیوار تعمیر کرنا ہے‘ راہگیروں کی ضیافت نہیں۔ ریاست کی مکمل بحالی‘ فوج کی اپنی حدود میں واپسی‘ سول حکومت کی قوّت میں بتدریج اضافہ کہ کوئی بغاوت نہ کرسکے ، کوئی شورش نہ پھیلا سکے۔ ملک میں امن اور عدل کا قیام‘ خیر کے وہ کام ہیں، جن میں سبھی کو حکومت کی مدد کرنی چاہیے اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر۔ خود حکومت کی ذمہ داری کیا ہے ؟… اس کی اخلاقی اساس مضبوط ہونی چاہیے۔ ترکی اور ملائیشیا کا تجربہ اور مصر کے خونچکاں واقعات کیا بتاتے ہیں ؟ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ کہ مہذب اور منظم سیاسی پارٹیوں کے بغیر جدید ریاست نہیں چلائی جاسکتی۔ طاقتور لیکن مہذب پولیس، ٹیکس وصولی کا ممکن حدتک بے عیب نظام اور ایسے عدالتی ادارے جو نچلی سطح تک بروقت جھگڑے نمٹا سکیں۔ کیا حکمرانوں کو اس کا ادراک ہے ؟ ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بہت کم۔ ایک کے بعد دوسری حکومت میں وہی کچھ رونما ہوتا ہے۔ اقتدار ہتھیانے اور دولت جمع کرنے کا جنون۔ سیاست حکمت عملی ہے، چکمہ دینے کی صلاحیت نہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا کا کام حکومتوں کو اس قدر کمزور کردینا ہرگز نہیں کہ وہ امن قائم نہ کرسکیں۔ عدل عطا نہ کرسکیں۔ طالبان کا پاگل پن، فقط استعمار اور حکومتوں کے احمقانہ اقدامات سے نہیں پھوٹا۔ ہم سب، پورا معاشرہ اس کا ذمہ دار ہے۔ تو اب بالآخر امید کی جاسکتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک مؤثر حکمت عملی بنالی جائے گی، پھر یکسوئی سے اس عمل کا آغاز ہوگا، جس کے بغیر ریاست تکمیل نہیں پاتی، ایک مہذب حکومت جو اپنے فیصلے پوری طرح نافذ کر سکتی ہو۔ جی ہاں‘ اخلاقی اساس کے ساتھ۔ احسن اقبال کسی اخبار نویس سے ناراض ہوکر زچ کرنے کی کوشش فرمائیں گے تو شاید اس کا کچھ نہ بگڑے مگر خود ان کی حیثیت کیا رہ جائے گی ؟۔ اگر خواجہ آصف اپنے ایک بدنام رشتہ دار کو خود اپنی وزارت میں ایک بہت اہم عہدہ سونپ دیں تو خود ان کے حق میں نتیجہ کیا ہوگا؟ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم سب ریاست کے دشمن ہیں۔ نہیں جانتے کہ جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لیے پائیدار اور مضبوط ریاست کا کوئی دوسرا بدل کبھی تھا ہی نہیں اور کبھی نہ ہوگا۔ زوال سے دوچار ہونے کے بعد مسلمان تاریخ کے مطالعے؛چنانچہ تاریخی شعور سے بھی محروم ہوتے گئے۔ کاش، انہیں یاد ہوتا کہ مدینہ منورہ میں تشریف لے جانے کے کچھ ہی دن بعد، سرکارؐ نے بے لگام قبائلی معاشرے کو جو اولین تحفہ عطا کیا، وہ ریاست کی تشکیل تھی، میثاق مدینہ ! پھر آپؐ اسے طاقتور بناتے گئے۔ اس وقت یورپ دلدل میں پڑا تھا ۔ آج ہم پڑے ہیں، چودہ سوسال کے بعد۔