انفرادی صلاحیت ہی معاشرے کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے جو فقط آزادی میں بروئے کار آ سکتی ہے۔ کیا چودھری نثار علی خان یہ بات سمجھتے ہیں؟… زیادہ حدّادب! اُن کا تجزیہ بنیادی طور پر درست ہے۔ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی‘ اگر بروقت وہ رپورٹ پیش کردے اور اس کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔ جمعرات کو پیش آنے والا واقعہ معمولی نہیں۔ دارالحکومت بلکہ ملک بھر کے حفاظتی نظام کا کھوکھلا پن آشکار ہو گیا۔ دہشت گردوں کے حوصلے اور بلند ہو سکتے ہیں اور آج یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 1995ء میں کراچی کی المناک بدامنی کے ہنگام نصیر اللہ بابر نے ایک اخبار پر جھوٹی اور جعلی تصویر چھاپنے کا الزام لگایا۔ سچی نکلی تو اسی شام پاکستانی ٹیلی ویژن سے ایک بیان جاری کر کے انہوں نے معافی مانگی۔ اس قدر نہ سہی مگر کچھ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ تو چودھری نثار علی خان بھی کر سکے کہ اپنی ذمہ داری مان لی۔ دوسری بات بھی ٹھیک ہے‘ باون تولے پائو رتی کہ میڈیا کا کردار مثبت نہ رہا۔ قومی المیوں کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا پرلے درجے کی خودغرضی نہیں تو اور کیا ہے؟ ابتدا ہی میں براہ راست نشریات روک دی جاتیں۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ پیمرا سے بات کی تھی۔ پیمرا والے فرماتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار ہی نہیں۔ یہ کیا تماشا ہے؟ ذمہ داری کا احساس ہو تو کسی نہ کسی طرح مقصد حاصل کر لیا جاتا ہے۔ کیا حکومت میڈیا سے خوف زدہ ہے؟ خوف زدہ لوگ فیصلے نہیں کر سکتے۔ حکمت عملی تشکیل نہیں دے سکتے۔ پولیس کا نظام اب ایک سائنس ہے۔ معاملے کو دس پندرہ منٹ میں نمٹانا ممکن تھا۔ قیمتی وقت ضائع کردیا گیا۔ اس کے بعد بھی ہجوم بہرحال نہ ہونا چاہیے تھا۔ کیا یہ بھی اختیارات کا مسئلہ ہے؟ کیا پولیس افسروں کی قوّتِ عمل مفقود ہو چکی؟ جب بھرتیاں بے تکی ہوں‘ تربیت ناقص‘ تقرر صوابدید سے اور ذمہ دار افسر ہر چیز کے لیے من مانی کے عادی سیاستدانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں تو نتیجہ اس کے سوا اور کیا؟ زمرّد خان کی شجاعت اور حسن نیّت پر دو آرا نہیں‘ طرز عمل پہ ہو سکتی ہیں۔ با ایں ہمہ ان کے اقدام سے مسئلہ حل ہو گیا۔ پھر پولیس افسروں کی معطلی؟ کہا جائے گا کہ یہ حسد کا شاخسانہ ہے۔ وزیر داخلہ کو اعلان کی ضرورت بہرحال نہ تھی اور اگر اقدام لازم ہی ٹھہرا تو خاموشی سے کیا جاتا۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ بحث نے ہر چیز واضح کردی‘ جیسے بارش کھنڈرات کی اینٹوں کو اجاگر کرے۔ سبق سیکھنے کا ارادہ سچا ہے تو بہت سی چیزیں بہتر ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ ویسی ہی حکمت عملی ہے جو الیکشن میں دھاندلی کے لیے اختیار فرمائی تو نتیجہ ظاہر۔ پانچ بار پنجاب اور اب تیسری بار مرکز میں برسر اقتدار نون لیگ کا ریکارڈ اس سلسلے میں کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ خود چودھری نثار علی خان راولپنڈی ڈویژن کی پولیس پر آہنی گرفت کی روایت رکھتے ہیں۔ جس رائفل کی گولی بے ہوش کرتی ہے‘ سات سال پہلے وزارتِ داخلہ نے وہ خریدنے کی سفارش کی تھی۔ ظاہر ہے کہ راولپنڈی میں بھی موجود نہیں۔ شہباز شریف کے پانچ شاہکار برسوں کے بعد کیوں نہیں؟ اور اس ایک سال میں وہ تھانہ کلچر بدلنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بنیادی اصولی رہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے مگر باقی کام پیشہ ورانہ ماہرین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وزیر داخلہ نے فسادی کے بیوی بچوں کو بچانے کا حکم صادر کیا تو قابل فہم لیکن ہر حال میں مجرم کو زندہ پکڑنے کا ارشاد؟ قانون ہی نہیں‘ اخلاق کی بارگاہ میں بھی‘ قتل کرنے پر تلے آدمی کا قتل جائز ہے۔ بچانے کی کوشش کی جاتی لیکن بہرحال کا مطلب کیا؟ ظالم پہ رحم مظلوموں پر ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے‘ فوراً ہی ہم آئی ایس آئی اور فوج پر چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ان کی بھی ذمہ داری ہے مگر اوّلین حصار پولیس ہے۔ 1995ء کے کراچی‘ 2002ء کے کوئٹہ اور 2008ء کے گوجرانوالہ میں پولیس ہی نے دہشت گردی پر قابو پایا۔ کبھی مرکز اور کبھی صوبوں کے خفیہ اداروں کی مدد سے۔ کراچی کی دہشت گردی روکنے میں وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے علاوہ آئی بی کے ان افسروں کا کردار روشن تھا‘ فرائض سنبھالنے سے قبل جو مدینہ منورہ پہنچے اور بہتے آنسوئوں کے ساتھ التجا کرتے رہے۔ ان میں سے ایک اب بھی اسی ادارے کے ساتھ وابستہ ہے۔ آخری دنوں میں ایک گروہ کو ٹھیک اس وقت پکڑ لیا گیا‘ جب سکول کے بچوں کی ایک بس اڑانے والے تخریب کار فون پر باہم بات کر رہے تھے۔ یہ دشمن کا پروپیگنڈہ ہے کہ پاکستانی کمزور قوم ہیں۔ ہاں‘ ان کے حکمران! اہم ترین نکتہ وہ ہے خود چودھری صاحب نے جو بیان کیا۔ پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک کرنا۔ یہی سب سے بڑا المیہ ہے اور یہ وہ باب ہے‘ جس میں خود وزیر داخلہ سے کچھ زیادہ حسن ظن ممکن نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کا سبب کیا ہے۔ بہرحال اگر وہ کچھ کر ہی دکھائیں تو کون ہے جو انہیں داد نہ دے گا‘ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ تلافی ہو جائے تو ماضی کی خطائیں معاف کردی جاتی ہیں۔ اللہ مہربان ہے اور اس کے بندے بھی کچھ ایسے کٹھور نہیں۔ انگریز کے لیے 1861ء میں تشکیل دیئے گئے قوانین کو 2001ء کے پولیس آرڈر نے بدلا۔ یہ بہترین پولیس افسروں کی ریاضت کا نچوڑ تھا۔ ان میں سے بعض عالمگیر شہرت کے حامل تھے۔ بدقسمتی سے فوراً بعد نون لیگ سے خوف زدہ جنرل پرویز مشرف نے الیکشن کا ڈرامہ رچایا۔ صوبائی حکومتوں نے کہا: پولیس کے ہاتھ ہم باندھ نہیں سکتے کہ انتخاب جیتنا ہے۔ اب کیوں بندھے ہیں؟ پاکستانی اخبار نویسوں کے ایک وفد نے دہلی میں مشرقی پنجاب کی شورش تسخیر کرنے والے سکھ افسر کی تعریف کی تو اس نے کہا: بادشاہو‘ ہم نے 1995ء کے کراچی سے‘ سیکھا ہے۔ آٹھ برس ہوتے ہیں‘ نادرا کے چیئرمین سے پوچھا کہ زمینوں کا ریکارڈ وہ کمپیوٹرائز کیوں نہیں کر دیتے۔ کہا: 180 دن میں کرسکتے ہیں‘ صوبائی حکومتیں اجازت نہیں دیتیں۔ کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب ان کے پاس نہ تھا۔ صوبائی حکومتوں کے کرتا دھرتا‘ ان کی اولادیں اور عزیز و اقارب جائیدادوں کے کاروبار فرماتے ہیں‘ الیکشن بھی انہی کے بل پر لڑے جاتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا؟ ع چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے سستے ڈرامے کی تیاریاں جاری ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ حکم دے چکی۔ شہباز حکومت کی توجہ ایک نکتے پر مرکوز ہے۔ ان اداروں کو اختیار نہ ملنے پائے۔ خودمختاری کی کوئی رمق ان میں باقی نہ رہے۔ شہری حکومتیں کس لیے قائم کی جاتی ہیں؟ جمہوری معاشروں کا ڈیڑھ سو سال کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ مقامی ضرورتوں کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور نچلی سطح تک‘ قیادت کی تربیت کے لیے۔ اگر ڈی سی او کو ضلع کونسل کے فیصلے مسترد کرنے کا اختیار ہو اور وزیراعلیٰ ناظم کو معطل کر سکے تو باقی بچا کیا؟ صرف شہباز شریف۔ صرف فیصل آباد کا گھنٹہ گھر۔ اس معمّر خاتون نے عمر فاروق اعظمؓ سے کیا کہا تھا؟ جب اللہ اور اس کے رسولؐ نے مہر مقرر نہ فرمایا تو آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ انہوں نے سر جھکا دیا۔ فرمایا ’’ایک بڑھیا نے عمرؓ کو گمراہ ہونے سے بچا لیا‘‘۔ عمرؓ ابن خطاب کون تھے؟ پیغمبروں کے بعد غالباً واحد آدمی‘ جو عسکری‘ سیاسی‘ علمی اور انتظامی ہر اعتبار سے نابغہ تھا۔ جینیئس بھی ایک میدان کے مرد ہوتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا۔ میرے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو عمرؓ ابن خطاب۔ مغرب نے اوّلین عہد کے انہی مسلمان حکمرانوں کی روایت سے سیکھا‘ مگر ہم نے انکار کردیا۔ کیا ہماری عقلیں پہاڑوں کے برابر ہیں؟ نہیں‘ اِن سروں میں بھوسا بھرا ہے اور خودغرضی کا خنّاس۔ پوری قوم اور پورے معاشرے کو عضو معطل بنا کر‘ ایک شخص کو مرکز نگاہ بنا دینا اور تمام امیدیں اسی سے وابستہ کر دینا غلامی ہی کی ایک شکل ہے۔ قدیم یا جدید تاریخ کے تمام ترقی یافتہ معاشروں کا تجربہ یہ ہے کہ انفرادی صلاحیت ہی معاشرے کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے جو فقط آزادی میں بروئے کار آ سکتی ہے۔ کیا چودھری نثار علی خان یہ بات سمجھتے ہیں؟… زیادہ حدّادب!