"HRC" (space) message & send to 7575

مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

اللہ کی کتاب ہی سچی ہے۔ باقی سب عارضی‘ باقی سب فانی ’’کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔ جو کچھ اس زمین پر ہے‘ سب فنا ہو جائے گا‘ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ بے کراں عظمت‘ بے پناہ بزرگی والا۔ محمودالرشید کے لاڈلے فرزند کی جواں مرگی کا غم دھیرے دھیرے دل میں اترنے لگا تو خیال کا رہوار کہاں کہاں بھٹکا۔ آغا شورش کاشمیری کا ذکر تھا کہ نواب زادہ نصراللہ خان کا لہجہ بھیگ گیا۔ ایک گہری سانس لی اور پڑھا: شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لیے بہتی ہے جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں سرتاپا سیاستدان مگر ان کی شخصیت کے بعض پہلو عجیب تھے۔ کمال کی وضع داری‘ کبھی نہ بہکنے والی یادداشت‘ برقرار رہنے والی شائستگی اور حاضر دماغی۔ ایسی سخن فہمی کہ باید و شاید۔ وہ دنیا سے اٹھ گئے تو آخری ملاقات کی یاد تڑپاتی رہی۔ آدھی رات کو آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔ نصف شب کو جوگر پہنے‘ دو کلو میٹر پیدل چل کر مرحوم کے دفتر پہنچا۔ چاروں جانب سناٹا۔ فاتحہ پڑھی‘ واپس آیا اور سو گیا۔ لوگ چلے جاتے ہیں‘ دل سے نہیں جاتے۔ مسافر خانہ کعبہ کے سیاہ غلاف کے سامنے کھڑا تھا۔ کون تھا جس نے سیاہ رنگ کے اس پیرہن میں سنہری تار پہلی بار پروئے؟ سیاہی میں سنہرا‘ تضاد نہیں‘ آہنگ میں نور بن کر دمکتا ہے۔ اللہ کے گھر کو یہی رنگ زیبا ہے کہ باقی سب اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ کالا ہی اللہ کا رنگ ہے۔ یکتائی‘ کاملیت‘ Oneness۔ بے شمار نعمتیں اس گھر کے طفیل اللہ نے عطا کیں۔ آج مگر دل میں شکایت اٹھی۔ شکایت اور دعا ایک ساتھ: تو فقط شکر کا رب ہے تو اے رب کریم کیا شکایت کو کوئی اور خدا ڈھونڈ کے لائیں ایک ایرانی خاتون ٹوٹ کے روئی تو دل نے کہا: یا رب‘ اگر تو اس گنہگار کو بھی درد کی دولت عطا کرتا۔ کچھ دیر میں آنکھ آباد ہونے لگی۔ کچھ دیر میں اپنے آپ کو زندہ پایا: دل گیا، رونق حیات گئی غم گیا، ساری کائنات گئی کسی زمانے میں اقبالؔ کو تفصیل سے پڑھنے کی کوشش کی تھی۔ سوچتا رہا‘ درد کی دولت کس فراوانی سے اللہ نے انہیں بخشی تھی۔ آنکھ با وضو رہتی۔ سرکارؐ کا نام آتا تو پگھل جاتے۔ قرآن پڑھا کرتے‘ متواتر اور مسلسل۔ صبح دیر تک‘ پھر بار بار۔ کبھی اس طرح گریہ کرتے کہ مصحف کو دھوپ میں سکھانا پڑتا۔ والدہ کی وفات پر ان کی نظم موت ہے ہنگامہ آرا عالمِ خاموش میں ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں ایک دوست کے انتقال پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا: آج بھی نہ روئیں تو کب روئیں گے‘ گریہ ا للہ نے کس دن کے لیے بنایا ہے۔ دور کی کسی بستی میں سرکارؐ چلے جاتے تھے۔ ایک قبر کے سرہانے بڑھیا کو روتے دیکھا۔ فرمایا: صبر کرو۔ بولی: کوئی آپ کا مرا ہوتا۔ عالی مرتبت چپ چاپ چلتے رہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی عظمت کو سکوت ہی زیبا تھا۔ وہ پہچانتی نہ تھی۔ کسی نے بتایا تو لپک کر آئی اور یہ کہا: اب میں صبر کروں گی۔ فرمایا: صبر پہلی چوٹ لگنے پر کیا جاتا ہے۔ محمود الرشید کے بھائی مصطفی سے گھر کا پتہ پوچھا۔ بولے: ان کی حالت اچھی نہیں۔ ایک غبار سا دل میں اٹھا۔ کتنی ہی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ چھوٹا بھائی جواں مرگ محمد زبیر‘ دنیا کے کسی ایک آدمی کو جس سے کبھی کوئی شکایت نہ تھی۔ آخری منظر آج تک آنکھوں کے سامنے ہے۔ عرب شاعر امرائو القیس نے کہا تھا ’’آنکھوں کے پیالے بھرے ہوئے‘ نہ گرنے والے نہ تھمنے والے آنسو‘‘۔ دل گرفتہ باپ کی طبیعت آج بھی ماند نہ ہو تو کب ہوگی۔ جوان بیٹے کو مٹی میں گاڑنے سے بڑا صدمہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اور بیٹا بھی کیسا؟ زمیں کے اندر بھی روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے حیرت تو یہ ہے کہ اس کے بعد بھی آدمی جیتا رہتا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے کہا: غم کی خبر آئی ہے۔ فرمایا: اللہ کے رسولؐ اس دنیا سے چلے گئے‘ اس کے بعد کون سا غم؟ زید جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تو کچھ دن بعد کسی نے ان کے جلیل القدر بھائی عمر فاروق اعظمؓ سے حال پوچھا۔ ارشاد کیا: جب سے زید رخصت ہوئے ٹھنڈی ہوا ادھر نہیں آتی۔ یوسفؑ کھو گئے تو سیدنا یعقوبؑ نے کہا تھا ’’فصبر جمیل‘‘۔ پیمبر تو کم روئے‘ آج تک یوسفؑ کو رویا جاتا ہے: غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن کہ نورِ دیدہ اش روشن کنند چشم زلیخا را (پیر کنعاں کے نور نے‘ چشم زلیخا کو جا روشن کیا) میں یہ شعر پڑھتا تھا کہ شعیب بن عزیزبولے: میرے چھوٹے بھائی‘ بچوں کے ساتھ کراچی چلے گئے‘ شیخ صاحب (مرحوم والد گرامی) نے سن لیا تو تاب نہ لاسکیں گے۔ محمود الرشید کا فرزند تو ساحلوں سے بھی آگے چلا گیا۔ دلّی کے شاعر نے کہا تھا۔ ع کس کو خبر ہے میر سمندر کے یار کی نصف شب کو چھوٹے بھائی کامران کا ذکر کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی آواز بدل گئی۔ بولے: دو برس کا تھا۔ بیٹے کی طرح پالا ہے۔ خاندان کے لیے ان کے ایثار کی دل گداز داستاں سے میں واقف تھا۔ چالیس برس پہلے کپتان کیانی نے دوپہر کا کھانا ترک کیا کہ روپیہ بچا کے گھر بھیج سکیں۔ کپتان کیانی پر یہ قیامت نہ ٹوٹتی تو وہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کبھی نہ بنتے۔ عمر بھر قیامت کے اس صبر کا مظاہرہ نہ کر سکتے‘ جس کے جمال کی کہانی ان کی سبکدوشی کے بعد لکھی جائے گی۔ کیانی کا جانشین بھی ایسا ہی صبر کر سکا تو ایک دن اس ملک کے درو بام پر سویرا اترے گا۔ سیاستدانوں سے تو کوئی امید نہیں۔ سیدنا علی ابنِ ابی طالبؓ کرم اللہ وجہہ نے کہا تھا: کارگہ حیات کی کلفتوں میں صبر ہی سب سے بڑا سرمایہ اور سہارا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اظہار سے غم دھلتا ہے۔ یہ آدھی سچائی ہے۔ پوری یہ ہے کہ جو خود کو تھامنے کی عادت ڈالتے ہیں‘ وہ شاخ سے شجر ہی نہیں بلکہ برگد ہو جاتے ہیں‘ صدیوں‘ عشروں تک زندہ! کشتگان خنجرِ تسلیم را ہر زماں از غیب جانے دیگر است (اللہ کے سامنے دل سے جھک جانے والے‘ آنے والے ہر زمانے میں زندہ) اقبالؔ نے کہا تھا: ایک مسلمان حکمران کی تمام اخلاقی صفات ٹیپو سلطان میں سمٹ آئی تھیں۔ امن کے لیے جنگ بندی کرنا پڑی۔ خزانہ خالی‘ تاوان ندارد۔ اپنے بیٹے یرغمال کر دیے۔ رعایا کو خبر ہوئی تو جلے ہوئے دیہات سے خلقِ خدا امڈ کر آئی اور بچا کھچا ڈھیر کردیا۔ سچا حکمران باپ کی طرح ہوتا ہے اور جھوٹا سوتیلی ماں کی مانند۔ ٹیپو مرا تو بہت دور فرانس کے ایک شاعر نے لکھا: ’’حوروں نے پھولوں کے ہار گوندھے کہ شہیدوں کے سردار کا سواگت کریں‘‘۔ صلاح الدین ایوبی کے سوانح نگار نے‘ کہ عمر بھر کا رفیق تھا‘ یہ لکھا ہے: عکّہ کی جنگ کے دوران فرزند ایسے بھتیجے کی موت کا سندیسہ ملا تو رو دیے۔ صبر کی تلقین کے لیے میں نے قرآن کی آیت پڑھی تو کئی بار مجلس سے معافی مانگی۔ دنیا سے اٹھے تو دمشق کا کوئی مکین گھر میں شاذ ہی جاتا۔ تین دن تک گلیوں میں لوگ روتے پھرے۔ زمین گویا خالی ہو گئی تھی۔ امیر المومنین ہارون الرشید کے فرزند کو تاریخ نے امین کے نام سے یاد رکھا ہے۔ اصل نام عبداللہ تھا۔اس کی اندوہناک موت پر شاعر ابو نواس نے لکھا: ’’جودو سخا سے میں نے سوال کیا‘ امین کی موت کے ساتھ تم مر کیوں نہ گئے۔ انہوں نے کہا: اس لیے ہم ٹھہر گئے کہ ہمیں امین کی موت کا پرسا دیا جائے۔ کل ہم بھی چلے جائیں گے‘‘ پہاڑ جیسے جناح بیوی کی قبر اور جیتے جی مر جانے والی بیٹی کے لیے پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ رونا فطری ہے‘ مگر کب تک۔ بیس سالہ حافظ حسین محمود کے لیے کیا رونا۔ وہ تو جنتی ہے جنتی۔ اتنی بے شمار گواہیاں جھوٹی کیسے ہو سکتی ہیں؟ فریدالدین تاجر تھے۔ ایک درویش نے کہا: ہر وقت سکّے گنتے ہو‘ کیا تمہیں مرنا نہیں۔ کہا: تم بھی مرو گے‘ ہم بھی تمہاری طرح ایک دن چلے جائیں گے۔ بولا: میری طرح؟ اور لیٹ گیا۔ دیکھا کہ روح پرواز کر چکی تھی۔ اس ایک واقعے نے انہیں فریدالدین عطّار بنا دیا۔ مولانا رومؒ نے لکھا ہے: ہفت شہرِ عشق در عطار گشت ما ہنوز اندر خمِ یک کوچہ ایم (عطار نے عشق کے سات شہروں کی سیاحت کی‘ میں ابھی ایک کوچہ کے خم پر حیران کھڑا ہوں) عطار کی کتاب تذکرۃ الاولیاء کے چند صفحات کی تاب لانا مشکل ہے۔ ایک ایک ورق پر اتنا علم! مولانا روم کی حیرت بجا تھی۔ کتاب کہتی ہے: لوگ سوئے پڑے ہیں۔ موت آئے گی‘ تب جاگیں گے۔ کتاب کہتی ہے: موتوا قبل ان تموتوا۔ مرنے سے پہلے ہی مر جائو۔ اللہ کی کتاب ہی سچی ہے۔ باقی سب عارضی‘ باقی سب فانی‘ ’’کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔ جو کچھ اس زمین پر ہے‘ سب فنا ہو جائے گا‘ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ بے پناہ عظمت‘ بے کراں بزرگی والا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں