یہ اللہ کے قانون ہیں اور بدلتے کبھی نہیں ۔ تاریخ خود کو دُہراتی ہے اور ہمیشہ دُہراتی رہتی ہے ۔ پروپیگنڈہ ایک ہتھیار ہے ، بہت سلیقہ مندی کے ساتھ جسے برتنا چاہیے وگرنہ آخر کار افریقی ہتھیار بوم رنگ کی طرح پلٹ کر آتا ہے۔ اختلافی آوازوں کو دبائے رکھنے کی کوشش بالآخر تباہی لاتی ہے ۔ تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال ایڈولف ہٹلر ہے ، جوآنے والی سب نسلوں کے لیے مثال بن گیا۔ ضمنی الیکشن کے بارے میں جو تجزیے رقم فرمائے جا رہے ہیں، وہ سستے پروپیگنڈے کی شاہکار مثالیں ہیں ۔ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کی فتح بے داغ ہے اور نون لیگ کے سوگوار فریادی جو انشا پردازی فرمارہے ہیں ، اس میں اور تو سبھی کچھ ہے مگر دلیل نام کو نہیں ۔ پشاور میں پی ٹی آئی ایک فضول امیدوار کی وجہ سے ہاری ۔ اے این پی نہ بڑھ سکی ،پی ٹی آئی گھٹ گئی ۔ غلام احمد بلور کا یہ دعویٰ اکیسویں صدی کا سب سے بڑ الطیفہ ہے کہ دھاندلی نہ ہوتی تو 11مئی کو بھی وہ جیت جاتے۔ گنجی نہاتی کیا، نچوڑتی کیا؟ نوّے ہزار اور بائیس ہزار ووٹوں میں مبلغ اڑسٹھ ہزار کافرق ہے ، نصف جس کے چونتیس ہزار ہوتے ہیں ۔ عمران خان کے مقابلے میں بلور صاحب کے ووٹ تقریباً ایک چوتھائی رہے۔ مولوی صاحب کے بارے میں اس سے زیادہ کیا عرض کیجے کہ وہ مغالطہ پید اکرنے کے بادشاہ ہیں ۔ خود ناکامی سے دوچار ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ پختون خوا نے تحریکِ انصاف کو مسترد کر دیا ۔ یہ تو تحریکِ انصاف کی حماقت ہے کہ انہیں اپنا حریف بنا لیا وگرنہ عوامی نیشنل پارٹی اور نون لیگ کی حمایت کے باوجود وہ کچھ نہ کرسکے اور کبھی کچھ نہ کر سکیں گے ۔ بیان بازی میں البتہ ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ ایسی ایسی تاویل اس عمرو عیار کی زبنیل میں ہے کہ قبر میں گوئبلز فرطِ رشک سے اپنا گریباں چاک کرتا ہوگا۔ سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی کچھ اصل ہے ، کچھ خواب ہے ، کچھ حسنِ بیاں ہے دعویٰ ہے کہ ایک ذرا سی کوشش سے نون لیگ دارالحکومت کی سیٹ جیت لیتی ۔ کس طرح جیت لیتی ؟ 11مئی کو دیہی علاقے میں اس کے ووٹ زیادہ تھے ، اب بھی ہیں ۔ شہر میں جناب انجم عقیل یا حضرت حنیف عباسی اشرف گجر سے بھی کم ووٹ لیتے ۔ دونوں پر الزامات ہیں اور نہایت سنگین الزامات۔ اشرف گجرکو عام لوگ جانتے ہی نہ تھے ۔ ان کااچھا تاثر تھا‘ نہ برا۔ جس پارٹی کے وہ امیدوار تھے ، دارالحکومت نے اسے مسترد کیا اور دونوں بار ۔اگر انجم عقیل نے الیکشن میں سرگرمی سے حصہ نہ لیا یا سازش کی تو دیہی علاقے میں اشرف گجر کو اکثریت کیسے ملی؟ چلیے جاوید ہاشمی تو ایک بڑے لیڈر ہیں ۔قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے ۔ اسد عمرکراچی سے آئے اور ایک پنج ستارہ ہوٹل میں قیام فرماکر جیت گئے ۔ لگتاہے ،نو ن لیگ کے اندرجاری جنگ آئندہ انتخاب کی امیدواری کے لیے برپا ہے۔ اشرف گجر اسی لیے چیخ رہے ہیں اور انجم عقیل بھی ۔ سیاسی لیڈروں کاالمیہ یہ ہے کہ وہ عوام کو احمق سمجھتے ہیں اور انہیں الّو بنانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ اپنے گریباں میں کبھی نہیں جھانکتے ۔ اپنی غلطیاں کبھی تسلیم نہیں کرتے ۔ خود احتسابی اور اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتے ۔امریکی رہنما رینڈ پال کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کے دماغ چھوٹے اور دل بڑے ہوتے ہیں… مالِ مفت دلِ بے رحم! رہے قلمکار تو شوکتِ اقتدار نگاہ خیرہ کیے رکھتی ہے۔ حسین بن منصور حلّاج نے بغداد کے گورنر سے کہا تھا: کسی دربار میں جو شخص ایک بار بیٹھ جائے عمر بھر کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ پشاور کی د استان اور بھی سادہ ہے ۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے گل بادشاہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صمد مرسلین ان سے کہیں بہتر تھے ۔ عمران خاں کی بھرپور کوشش ، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا کی جان توڑ جدوجہد کے باوجود گل بادشاہ مخالف مرسلین سے صرف پانچ ہزار ووٹ زیادہ لے سکے ۔ وہ بھی یقینا جماعتِ اسلامی کے۔ اتنی مخاصمت تحریکِ انصاف اور اے این پی میں نہیں ، جتنی جماعتِ اسلامی اور سرخپوشوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک صوبائی حلقے میں جماعت کا مقامی لیڈر پاگلوںکی طرح دن رات جُتا رہا۔ پی ٹی آئی کے لیے حادثہ یہ ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی کارکن گل بادشاہ کے لیے میدان میں نکلے ۔تقریبا اسی قدر صمد مرسلین کی حمایت میں۔ چالیس پچاس فیصد گھروں میں بیٹھے رہے ۔ انہوںنے اپنی خاموشی سے ووٹ ڈالا، پارٹی فیصلے کے خلاف۔ مرسلین جیت جاتا اور اگر وہ نہیں تو کوئی دوسرا غیر متنازعہ امیدوار۔ عمران خان یہ دعویٰ کیسے کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے انہیں کوئی شکایت نہیں؟ کیا گل بادشاہ کو انہی نے مسلّط نہ کیاتھا؟ کیا وہی ڈیرہ اسمٰعیل خاں سانحے کے ذمہ د ار نہیں ؟ جہاں انہوںنے فوج طلب کرنے سے گریز کیا۔ اپنے رشتہ داروں سے اسمبلی کو بھر دیا ۔ دوسرے لیڈروں کی طرح عمران خاں کا المیہ بھی اب یہ ہے کہ خوشامدیوں میں گھرے ہیں ۔ا س پر مستزاد یہ کہ سیاست کا کچھ زیادہ فہم نہیں رکھتے ۔ پارٹی فنڈ کا انہیں آڈٹ کرانا ہوگا۔ ناقص، ناکردہ کار اور صدر دفترکے مشکوک لوگوںسے نجات حاصل کرنا ہوگی جن سے آج بھی وہ مشورہ کرتے ہیں اور یہی بربادی کی بِنا ہے۔ اسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں سبھی کے لیے پیمانے ایک نہیں ہوتے ۔ ہر آدمی کو اس کے اپنے ماضی، اپنے طے کردہ معیار اور دعوے پر پرکھا جاتاہے ۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے معمار کو مولانا فضل الرحمٰن ، میاں محمد نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری والے ترازو میں کبھی نہ تولا جائے گا۔ سپیکر اسد قیصر اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک اگر اپنی جماعت پہ رحم کریں اور پارٹی عہدے چھوڑ دیں تو خوب وگرنہ جماعت کو اقدام کرنا چاہیے۔ جہانگیر ترین کو چاہیے کہ کم از کم پرویز خٹک کو قائل کریں کہ انہی کی مدد سے وہ جیتے تھے ۔ اوّل تو ناقص طریقِ کار کی وجہ سے پارٹی الیکشن میں ادنیٰ لوگوںکا تسلّط ، ثانیاً اس الیکشن میں وقت کی برباد ی ؛چنانچہ امیدواروں کا انتخاب کرنے کی مہلت ہی باقی نہ بچی۔پھر خوشامدیوں اور سازشیوں کے طفیل ٹکٹوں کے اجرا میں پہاڑ ایسی غلطیاں۔ اس کے بعد ضمنی الیکشن میں اسی طرزِ عمل کا اعادہ۔پے درپے کپتان نے غلط فیصلے کیے ۔ اس کے باوجود ان کی ذاتی ساکھ اب بھی حریفوں سے زیادہ ہے ۔ جہاں کہیں وہ ہارے ، وہاں بھی ان کی پارٹی دوسرے نمبر پر ہے ۔ نون لیگ اسی لیے ان سے خوف زدہ ہے۔باقی ملک میں پولنگ اگر تیس پینتیس فیصد تھی تو میانوالی میں 80فیصد کیسے ہو گئی ؟ الیکشن کمیشن مانتاہے کہ لاہور کے ریٹرننگ افسر نے فیصلہ کرنے میں تعجیل سے کام لیا مگر میاں شہباز شریف پولیس کی لاٹھیوں سے فیصلہ لکھتے ہیں ۔ بڑے بھائی اس پر انہیں شائستگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ کیا کہنے ، کیا کہنے ۔ پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں مگر پیپلز پارٹی کا عہد تمام ہوا۔ اگر جمہوریت برقراررکھنی ہے تو کم از کم دو مضبوط سیاسی جماعتیںدرکار ہیں۔ حریف سیاستدانوں اور اخبارنویسوں کا منہ نوچنے کی بجائے نون لیگ کارکردگی دکھائے ۔ تحریکِ انصاف خود احتسابی کرے ۔ اگر یہ دونوں تباہ ہوئیں تو کچھ بھی ہو سکتاہے ۔اس کرّۂ خاک پہ کبھی کہیں خلا باقی نہیں رہتا۔ یہ اللہ کے قانون ہیں اور بدلتے کبھی نہیں۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور ہمیشہ دہراتی رہتی ہے۔