اللہ کی آخری کتاب میں ارشاد یہ ہے کہ بہترین وہ ہیں، ہمہ وقت جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ اپنے فیصلے جو مشورے کے بغیر صادر نہیں کرتے ۔ ’’و امرھم شوریٰ بینہم‘‘ ۔ کچھ چیزیں غیر معمولی احتیاط اور رازداری کا تقاضا کرتی ہیں۔ طالبان سے بات چیت ایسا ہی نازک معاملہ ہے۔ اوّل ایک سرکاری افسر نے بی بی سی کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو کی۔ پھر وفاقی وزیر اطلاعات نے ایک عدد بیان داغ دیا۔ اس سے پہلے مولوی صاحب وزیر اعظم سے ملاقات کر کے ایک کردار ادا کرنے کی پیشکش فرما چکے تھے ۔ یہ سرکاری افسر جو بھی ہیں ، ظاہر ہے کہ معاملات سے با خبر ہیں ۔ انہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ اخبار نویس سے کیا جانے والا کوئی مکالمہ خفیہ نہیں رہتا۔ اس کا کام اظہار ہے ، اخفا نہیں ۔ وزیرِ اطلاعات جوش میں آگئے کہ قوم کو خوشخبری دیں ۔ کون سی خو شخبری؟ ابھی فقط رابطے استوار ہوئے ہیں ، مذاکرات کا آغاز نہیں ۔ رہے مولوی صاحب تو ابھی کل تک میاں محمد نواز شریف ان کانام تک سننے کے روادار نہیں تھے ۔ اب انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف پر دبائو رکھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی لازم ہے ۔ ایوانِ صدر سے باہر نکلتے ہی انہوںنے پیش گوئی فرمادی کہ پشاور میں تحریکِ انصاف کی حکومت ایک ڈیڑھ ماہ میں ختم ہو جائے گی وگرنہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا۔ مولوی صاحب اس وقت انتقام پر تُلے ہیں اور حواس ان کے بجا نہیں ۔مخالف جماعتیں متحد بھی ہو جائیں تو آسانی سے پشاور میں نئی حکومت تشکیل نہیں دے سکتیں ۔ شیر پائو احمق نہیں اور نہ اے این پی والے۔ فرض کیجئے، اقتدار کی کشش انہیں کھینچ لے جائے تو جماعتِ اسلامی بہرحال مولوی صاحب کی حلیف نہ بنے گی ۔ بالفرض محال حکومت بن جائے تو چلے گی کیسے؟ عمران خان مزاجا ً اپوزیشن لیڈر ہے اور جماعتِ اسلامی کے جوہر بھی اختلاف میں کھلتے ہیں۔ ایسا ہنگامہ اٹھے گا کہ دن میں تارے نظر آجائیں گے ۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کی حکومت اور پشاور میں تحریکِ انصاف کو خوش دلی سے موقع دے کر نون لیگ نے جو نیک نامی کمائی ہے ، وہ آناً فاناًتحلیل ہو جائے گی ۔ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور ہزار مسئلے چھوڑ گیا ہے ۔ بلوچستان اور کراچی کی بد امنی ، معیشت کی زبوں حالی اور اب خرابی پر تُلا بھارت۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد، ایک طوفان اٹھ سکتاہے ۔ نون لیگ صورتِ حال کسی قدر بہتر بنالے تو یہی بڑا کارنامہ ہوگا؛ چہ جائیکہ پشاور کا محاذ کھولا جائے ۔ کامیابی دوسروں کی نفی نہیں ، اپنے اثبات سے حاصل کی جاتی ہے ۔ تحریکِ طالبان کے ساتھ بات چیت میں مولانا فضل الرحمٰن اور حضرت مولانا سمیع الحق کو کوئی اہم کردار سونپنے کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ان کی ایک اہمیت ضرور ہے اور اسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ملک کے مفا دمیں اسے برتنا بھی چاہیے لیکن مولوی صاحب کو اگر ٹھیکہ دے دیا گیا، جس کی وہ کوشش کر رہے ہیں تو چیزیں ہاتھ سے نکل جائیں گی ۔ طالبان سے ان لوگوں کا رابطہ ضرور ہے‘ وہ مگر ان کا کچھ زیادہ احترام نہیں کرتے ۔ پھر یہ کہ اس طرح کے نازک معاملات میں کتنا بھروسہ ان پر کیا جا سکتاہے ۔ کچھ لوگ وہ ہیں ، جو غیر ملکیوں کے ساتھ رابطے میں رہے ۔ صدام حسین اور کرنل قذافی سے روپیہ لیتے رہے ۔ مذہبی لوگوں کی امداد اگر درکار ہے اور یقینا درکار ہو گی تو زیادہ محترم اور قابلِ اعتماد لوگوں، بالخصوص قبائل کے عمائدین سے رابطہ کیا جا سکتاہے۔ این اے 1پشاور میں تحریکِ انصاف کی ناکامی پر اسے دھچکا ضرور لگاہے لیکن یہ خود فریبی ہے کہ وہ سخت نامقبولیت کا شکار ہے ۔ نون لیگ کی مرکزی حکومت کی طرح پختون خوا کے مکین ابھی اسے مہلت دینے پر آمادہ ہیں ۔ نامقبول اگر کوئی ہوا ہے تو مولوی صاحب ۔این اے 27لکی مروت میں ان کے ووٹ 90ہزار سے کم ہو کر 55ہزار رہ گئے اور تحریکِ انصاف کے 18ہزار سے بڑھ کر 60ہزار ہو گئے ۔ خواہشات کی شدّت خود فریبی کی طرف لے جاتی ہے اور خود فریبی وہ گڑھا ہے ، جس میں گرنے والا آسانی سے باہر نہیں نکل سکتا۔ عمران خاں کی پارٹی 2011ء کے موسمِ سرما سے 2012ء کے موسمِ بہار تک ملک کی مقبول ترین جماعت تھی لیکن پھر وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے ۔ پارٹی الیکشن ، عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم اور پھر ضمنی الیکشن میں اس کا اعادہ ۔ زندگی مہلت دیتی ہے مگر کتنی مہلت؟ میاں محمد نواز شریف کو تیسری بار اقتدار ملا ہے۔ اگر کرپشن کا یہی عالم رہا اور اگر یہی لوگ ان کے مشیر رہے جو انا کو گنّے کا رس پلانے پر تلے رہتے ہیں تو آئندہ الیکشن میں ان کا انجام پیپلزپارٹی سے مختلف نہ ہوگا۔ طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کا روّیہ خوش آئند ہے ۔ ایسے بحرانوں سے اتفاقِ رائے کے ساتھ ہی نمٹا جا سکتاہے ۔ افغانستان اور بھارت کے باب میں بھی زیادہ سے زیادہ لوگوںکو انہیں اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرا سکینڈل ہے اور کچھ ابھی منظرِ عام پر آنے والے ہیں۔ شام پر حملہ ہوا تو پاکستان لا تعلق نہ رہ سکے گا۔ انکل سام نے اگر افغانستان کی طرح دمشق میں بھی اپنی مرضی کی حکومت بنانے کی کوشش کی تو نتیجہ مختلف نہ ہوگا۔ نصیریوں کی اقلیتی آمرانہ حکومت بڑی ہی سفّاک ہے اور اکثریتی آبادی پر اس نے بے پناہ ستم ڈھایا مگروہ خود اپنے بوجھ سے گرنے والی ہے۔ بعض عرب بادشاہ جذبات سے مغلوب ہو کر ناعاقبت اندیش ہوچکے۔ ع کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنوں پیدا مصر میں جو کچھ انہوںنے کیا، اس کی قیمت انہیں چکانا ہو گی۔ فوج تادیر اقتدارمیں نہیں رہ سکتی اور اخوان کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ ان کی جڑیں عوام میں ہیں اور قربانیاں تاریخ ساز۔ کارِ سیاست جنرلوں کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ خود پسند جمال عبد الناصر اور ہوسِ اقتدا رکے مارے انور السادات اور حسنی مبارک بھی یہ بات جانتے تھے ؛چنانچہ فوج کو پسِ منظر میں رکھا۔شام میں امریکی مہرے برسرِ اقتدار آگئے تومذہبی اکثریت کیا خاموش رہے گی ؟ ملائشیا اور ترکی سمیت عالمِ اسلام کی تاریخ یہ ہے کہ مسلم عوام کو جہاں کہیں موقعہ ملا، اپنی روحانی اور اخلاقی اقدار کے احیا کی انہوںنے بھرپور کوشش کی۔ شام کے مخالف عرب ممالک سے بھی مراسم خوشگوار رہنے چاہئیں لیکن تجزیہ درست ہونا چاہیے۔ مصر اور شام کا مستقبل ترکی کے حال سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ کیا میاں محمد نواز شریف ، ان کے مشیروں اور دفترِ خارجہ کو احساس ہے کہ عسکری طور پر شام یکسر تباہ ہو گیا تو اسرائیل کے راستے کی آخری رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی ۔ پھر فتنۂ کبریٰ کا آغاز ہو جائے گا ۔ اللہ نہ کرے ، پھر یہ تیسری عالمگیر جنگ کا آغاز ہو سکتاہے ۔ حیرت ہے ، افغانستان میں ایسی شدید ناکامی کے باوجود صدر اوباما پہ ایسا تکبّر سوار ہے کہ صدر بش کو مات کر دیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ افراد ہی نہیں ، جماعتیں اور اقوام بھی گاہے پاگل پن کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ پچھلی صدی کے تیسرے عشرے کی طرح… ہٹلر اور مسولینی کی طرح ۔ 1974ء اور 1979ء کے سوویت یونین کی طرح۔ اقبالؔ نے کہا تھا ’’میں نے دیکھنے کے لیے کسی سے آنکھیں نہیں مانگیں ، صرف اپنی آنکھوں سے کائنات کو دیکھا ہے‘‘۔ اللہ کی آخری کتاب میں ارشاد یہ ہے کہ بہترین وہ ہیں، ہمہ وقت جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ اپنے فیصلے جو مشورے کے بغیر صادر نہیں کرتے۔ ’’و امرھم شوریٰ بینہم‘‘۔