کبھی کبھار حکمرانوں سے بھی کوئی اچھا کام سرزد ہو جایا کرتا ہے۔ تب ان کی مدد کی جانی چاہیے‘ مزاحمت نہیں۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کیا کرو‘ گناہ اور زیادتی میں ہرگز نہیں۔ اِدھر حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا ارادہ کیا اور اُدھر احتجاجی آوازیں اٹھیں۔ مزدور انجمنوں کا رویّہ تو قابلِ فہم ہے مگر سیاسی لیڈروں کا قطعاً نہیں۔ وہ محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ معیشت کا حال بُرا ہے اور بے روزگاری کا جسے اندیشہ ہوگا‘ واویلا نہیں تو اور وہ کیا کرے گا۔ پھر یہ کہ انہیں سودے بازی کرنی ہے۔ قانون یہ حق انہیں دیتا ہے۔ اگر سبکدوش ہونا ہے تو کچھ رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خورشید شاہ جب یہ ارشاد کرتے ہیں کہ وہ قومی فضائی کمپنی اور سٹیل مل کو سرکار کے چنگل سے چھڑانے کی اجازت نہ دیں گے۔ جذبات سے مغلوب ہو جانے والے رضا ربانی جب دھمکی دیتے ہیں کہ مظاہرین سے وہ شاہراہوں کو بھر دیں گے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ چار پانچ سو ارب روپے سالانہ کا بوجھ قوم کی پیٹھ پر لدا رہے؟ غیر ملکی قرضوں کے لیے بھیک کا کشکول ہم اٹھائے رکھیں؟ عالمی مالیاتی ادارے کا شکنجہ ہمارے گرد کسا رہے؟ ہم مفلس سے مفلس تر اور محتاج سے محتاج تر ہوتے جائیں؟ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے اور بے رحمانہ اشتراکیت کا ستر سالہ تجربہ اس پر گواہ ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ کثیر القومی مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ ہر دس میں سے نو کاروبار کامیاب رہتے ہیں‘ اس لیے کہ کوئی اپنا ذاتی سرمایہ سوچے سمجھے بغیر نہیں جھونک دیتا۔ کوئی کاروباری عدم احتیاط اور مستقل کاہلی کا مرتکب نہیں ہو سکتا‘ وہ اپنی بہترین ذہنی صلاحیت بروئے کار لاتا ہے۔ کاروبار نہیں‘ حکومت کا کام عام خریدار کے مفاد کی حفاظت کرنا اور استحصال سے اس کو بچانا ہوتا ہے۔ اس انتظامی‘ علمی اور عسکری جینئس سیدنا فاروق اعظمؓ سے ایک تاجر نے یہ کہا: میں چاہتا ہوں کہ مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر گھوڑے پالوں۔ ان کا جواب یہ تھا: مگر مدینہ کا چارہ تم خرید نہیں سکتے کہ اِکا دُکا گھوڑا رکھنے والے تمام لوگ کیا کریں گے؟ جب کہ وہ مہنگا ہو جائے گا۔ جدید معاشیات کے اوّلین معلم ایڈم سمتھ سے پہلے بھی آدمی یہ جانتے تھے کہ حکومت کا فرض منڈی میں توازن برقرار رکھنا ہے۔ کاروبار کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنا اور اگر ضرورت ہو تو کسی خاص کاروباری طبقے پر دبائو ڈالنا۔ جدید دور میں یہ تقاضے اور بھی نازک ہیں‘ جب سرمایے کا فرار آسان ہے۔ پاکستان ایسے معاشرے میں خطرات زیادہ ہیں کہ بڑے کاروباری اور حکمران اکثر ایک جیسے بدعنوان ہوتے ہیں اور ان کے جرائم کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو قومی فضائی کمپنی (National flag carrier) کی اصطلاح ہے‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ گزرے زمانوں کی یادگار ہے‘ جب انکل سام اور برطانیہ ایسے ممالک اپنی سرکاری ایئرلائنوں پر فخر فرمایا کرتے تھے۔ مدتیں گزریں کہ ان کے دفاتر بند کیے جا چکے۔ اب محض ان کی یاد باقی ہے۔ اب تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک ہی اس عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں یا پاکستان ایسی لاچار اقوام‘ جہاں حکومتوں کو بعض اوقات بلیک میل کیا جاتا ہے یا حکمران سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے محنت کشوں کی انجمنیں پالتی ہیں۔ جب ایسا نہیں تھا تو ہم بھی پی آئی اے پر ناز کر سکتے تھے۔ نیک نامی کے علاوہ‘ وہ کچھ روپیہ بھی کما کر دیتی تھی۔ اب تو حال یہ ہے کہ قائم علی شاہ سے لے کر مشاہد اللہ خان تک سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ محض ان کی قائدانہ صلاحیت نہیں بلکہ اس لیے بھی شریف خاندان نے مشاہد اللہ خان کی سرپرستی کی کہ وہ فضائی کمپنی کی ایک یونین کے لیڈر تھے۔ تب ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ریلوے اور پی آئی اے کی مزدور انجمنوں کا الیکشن جیتنے کے لیے ذاتی طور پر منصوبہ بندی میں حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وگرنہ وہ کمیونسٹوں کے ہتھے چڑھ جائیں گی۔ پاکستان ریلوے کی پریم یونین کے لیے وہ اپنی جیب سے ایک قابلِ اعتماد کارکن کو پانچ سو روپے ماہوار دیا کرتے۔ یہ رقم گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم دینے والے ایک پروفیسر کی تنخواہ کے برابر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں صنعتوں کو قومیانے کی ان کے وطن نے بہت بڑی قیمت ادا کی اور اب تک کر رہا ہے۔ ان کے پانچ سالہ ا قتدار میں صرف بینکاری اور انشورنس کے شعبے کو 25 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا‘ جب کہ 1977ء میں کل غیر ملکی قرضے صرف ایک ملین ڈالر تھے۔ ان کی صاحبزادی جنرل محمد ضیاء الحق کی طرح نجکاری کی حامی تھیں اور میاں محمد نوازشریف سمیت‘ بعد میں آنے والے سبھی حکمران۔ 1990ء میں پہلی بار نوازشریف وزیراعظم بنے تو ملک میں ٹیلی فون کا حصول مشکل تھا‘ بعض صورتوں میں ناممکن۔ جس طرح بھٹو نے پاسپورٹ پر عائد پابندیاں ختم کر کے‘ معیشت میں خود اپنے ہاتھوں پھیلائی ہولناک تباہی کی تلافی کی‘ اسی طرح نوازشریف نے ٹیلی فون کے وہ جدید نظام متعارف کرائے‘ جو تب مغربی ممالک سے بھی بہتر تھے۔ اسی اثنا میں افسر شاہی سمیت حکمران طبقات میں کینسر کی طرح پھیلتی کرپشن نے ریلوے‘ واپڈا‘ سٹیل مل اور پی آئی اے کو خون پینے والے عظیم الجثہ دیو بنا دیا۔ پسند کی بھرتیاں‘ رشوت‘ سفارش‘ نااہلوں کی سرپرستی۔ ایک کے بعد دوسری حکومت نے یہی کیا اور اب ان سے نجات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ساری دنیا میں یہی ہوا اور ہمیں بھی یہی کرنا ہوگا۔ مشکل کام ہے لیکن بہرحال کرنا ہے۔ آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اَڑنا منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں ہاں مگر جذبات سے مغلوب ہو کر‘ ہیجان اور تعجیل میں نہیں بلکہ ماہرین کے مشورے سے‘ خوب سوچ سمجھ کر‘ شفاف انداز میں۔ شریف خاندان کے حواریوں سمیت کتنے ہی زردار پی آئی اے پر رال ٹپکا رہے ہوں گے۔ ملحوظ یہ رکھنا چاہیے کہ جلد از جلد اس کا حال بہتر بنا کر‘ جتنا روپیہ وصول کیا جا سکتا ہو‘ کر لیا جائے۔ جتنے زیادہ لوگوں کی ملازمت بچائی جا سکتی ہو‘ بچا لی جائے اور جنہیں فارغ کیا جائے‘ ان کی اس قدر مدد ضرور کی جائے‘ جتنی ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ 74 فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے‘ لہٰذا منافع ہوگا تو زیادہ حصہ ملے گا‘ خسارہ ہوا تو نسبتاً کم اور امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ خسارہ کم ہوتا جائے گا۔ 2007ء میں سٹیل مل کی نجکاری سپریم کورٹ نے روک دی تھی۔ قانونی اعتبار سے اس کا فیصلہ درست‘ مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ اب تک کس قدر نقصان ہو چکا۔ ایک سو ارب روپے سے زیادہ۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل اسی شخص جنرل عبدالقیوم کو پھر سے چیئرمین بنایا گیا‘ جس نے کبھی سب سے زیادہ منافع کما کر دیا تھا۔ کاروباری ادارے تباہ ہو چکیں تو گاہے پھر سے تعمیر نہیں ہو سکتے۔ تاجر کریں تو کریں‘ حکومت نہیں کر سکتی۔ تب روسی صدر پیوٹن ذاتی طور پر وزیراعظم پاکستان سے اپنے دوستوں کے لیے استدعا کر رہے تھے۔ اب کون خریدار ہوگا؟ ایسے ادارے کے اچھے خریدار کہاں ہیں جہاں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل انتظامیہ سے زیادہ ہو۔ 2012ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر سٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے چمالانگ بلوچستان میں اقتصادی معجزہ برپا کرنے والے جنرل فاروق کو نیا چیئرمین چُنا۔ فوراً ہی ایک بہت بڑا سرمایہ دار اس کے گھر پہنچا اور پیشکش فرمائی کہ وہ اس کی تجویز کردہ تنخواہ پر ذاتی کاروبار میں اسے ملازمت دینے پر تیار ہے۔ چودھری پرویزالٰہی سے کہ نائب وزیراعظم اور پیداوار کی وزارت کے نگران تھے‘ اس نے کہا کہ وہ مداخلت کریں کہ یہ ان کا دائرۂ کار ہے۔ کاروبار ہو یا کوئی اور شعبہ بہترین انسانی صلاحیت آزادی میں پنپتی ہے۔ ایسی آزادی جو قانون کی حدود میں بروئے کار آئے۔ ہمارے حکمران طبقات قانون کے دشمن ہیں۔ بوجھ بہت بڑھ جانے کی وجہ سے حکومت کی اب یہ مجبوری ہے کہ وہ بعض اداروں کی نجکاری چاہتی ہے۔ کبھی کبھار حکمرانوں سے بھی کوئی اچھا کام سرزد ہو جایا کرتا ہے۔ تب ان کی مدد کی جانی چاہیے‘ مزاحمت نہیں۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کیا کرو‘ گناہ اور زیادتی میں ہرگز نہیں۔