عربوں کا محاورہ ہے ’’خذما صفا ودَع ماکدر‘‘ جو صاف ہے لے لو‘ جو میلا ہے چھوڑ دو۔ شاعر نے یہ کہا تھا: بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں شام ڈھل رہی ہے اور بحیرہ عرب کے کنارے ایک پُرسکون گوشے میں جہاں بوگن ویلیا کی شاخیں دیواروں سے لپٹ رہی ہیں، یہ طالب علم فیض احمد فیض کو یاد کرتا ہے۔ کوشش کے باو جود اخبار ملا نہیں اور ٹیلی ویژن دیکھا نہیں۔ ایسے میں کسی مذاکرے میں شرکت کے لیے طبیعت کیسے آمادہ ہوتی۔ دوست مگر مہربان ہیں اور فون پر فون آتا ہے۔ معذرت کرتا ہوں، وہ مانتے نہیں۔ میری درخواست پر رانا آصف نے انٹر نیٹ کھولا اور اشعار پڑھے ؎ شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اْتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار سرنگوں ،محو ہیں بنانے میں دامنِ آسماں پہ نقش و نگار ……… شانۂ بام پر دمکتا ہے! مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل سبز گوشوں میں نیلگوں سائے لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں موجِ دردِ فراقِ یار آئے ……… دل سے پیہم خیال کہتا ہے اتنی شیریں ہے زندگی اس پَل ظلم کا زہر گھولنے والے کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں کون چاند کو گل کرسکتا ہے۔کون سورج بجھا سکتا ہے۔ ظلم کا زہر گھولنے والے درندوں کو آخر ناکام ونامراد ، اور پست وپامال ہی نہیں ہونا، عبرت کا نمونہ بن جانا ہے ۔ اﷲ کے ابدی قوانین کون بدل سکتا ہے؟ خیال پھر بھٹکتا ہے۔ ٹیلی ویژن والے کس کے ساتھ ہیں؟ ظالم کے حامی ہیں یا مظلوم کے۔ سرسیّد احمد خان سے کسی نے پوچھا: ’’امیرالمومنین سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ اور امیر معاویہ کی کشمکش کے ہنگام، اگر آپ موجود ہوتے تو کس کی تائید کرتے ؟ ‘‘ڈٹ کرکھڑے ہونے اور کھڑے رہنے والے سرسیّد نے کہ طعنہ زنی کی پروانہ کرتے تھے، مذاق میں بات ٹال دی۔ کہا : ’’میں اپنے لیے کوشش کرتا۔‘‘ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ٹیلی ویژن والے بالکل مذاق نہیں کرتے۔ محسوس ہوتا ہے کہ حسِ مزاح سے وہ پاک ہیں۔ وہ صرف اپنے ساتھ ہیں۔ وہ سنجیدہ لوگ ہیں۔ کہاجاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ آزاد چینلوں نے عام آدمی کو شعور بخشا۔ اس کا ادراک اور اُس کی ذہنی سطح بلند کردی۔ اخبار نہ پڑھنے والے آدمی کو بھی کاروبارِ سیاست کا حصہ بنادیا۔ کرپشن کو بے نقاب کیا اور پیپلزپارٹی کی موت اسی کے ہاتھوں واقع ہوئی کہ ایک حیرت انگیز عمل انگیز(CATALYST) کا کردار اس نے ادا کیا۔ یہ بھی تو مگر اتنا ہی بڑا سچ ہے کہ شریف حکومت ان کی وجہ سے مسلط ہوئی اگرچہ عمران خان نے بھی خود کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ تو ٹیلی ویژن کیا فقط ایک عمل انگیز ہے؟ جی ہاں ایک عمل انگیز۔ اخبار بھی کاروباری ادارہ ہے مگر ٹیلی ویژن کو بقا کی جنگ درپیش ہے۔ ڈارون نے کہا تھا ’’جہد للبقا‘‘ (Survival of the fittest) ایسا معرکہ کہ جس میں صرف طاقتور بچتا ہے اور کمزور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اشتہارات درکار ہیں اور اس کے لیے مقبولیت، چنانچہ قبولیت کے لیے ہر حربہ جائز ہے۔ درندے کا شکار ہونے والی ایک کمسن بچی کا چہرہ دکھایا جاسکتا ہے۔ وہ جو ذرائع ابلاغ کے لیے نگہبان (Gate Keeper) کا تصور تھا، وہ بھاپ بن کر اڑگیا۔ یہی کیا‘ رمضان المبارک میں اﷲ اور اس کے رسولؐ ، اﷲ اور اس کی کتاب کو بیچا جاتا ہے۔ پوری بے دردی اور کمال بے رحمی کے ساتھ ۔ مقبولیت کے پیمانے جانچنے والے آدھے ٹیلی میٹر کراچی میں نصب ہیں۔ آبادی اس کی دوکروڑ ہے اور قوت خرید تیس بتیس فی صد۔ کراچی غالب رہے گا اور جو کراچی پر مسلّط ہیں، وہ ٹیلی ویژن پر بھی۔ آزادی سے قیمتی اور کیا ہے کہ انسانی صلاحیت حریت ہی سے پنپتی ہے، جس طرح پھول کو بادِنسیم کھلاتی ہے مگر کوئی نظم؟ کوئی ڈسپلن ؟ کوئی اصول؟ کوئی اخلاقی ضابطہ؟ وگرنہ ممکن ہے، خرابی اس حد کو پہنچے، جس کا اندیشہ اقبال کوسیاست سے ہوا تھا۔ شیطان کی زبان سے اس نے کہلوایا۔ ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک اچھے پروگرام ہیں اور قابل رشک بھی ہیں۔ دنیا ٹی وی سے محمدمالک اور سمیع ابراہیم کے پروگرام، صبح آٹھ بجے رؤف کلاسرا اور قاضی صاحب کی بحث۔ بہت سے ایسے ہیں جو فساد پرتُلے رہتے ہیں۔ کنفیوژن پھیلانے کے سوا جو کچھ نہیں کرتے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ٹیلی ویژن والے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کریں۔ خود ان کے علاوہ دونوں طرف کے ارکان اسمبلی، سول سوسائٹی کے کچھ لوگ، کچھ سنجیدہ دانشور۔ ملک کے حالات سنگین ہیں اور ایسے میں میڈیا کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے۔ دہشت گردی سمیت، مختلف میدانوں میں گاہے ، وہ فیصلہ کن بھی ہوجاتا ہے۔ پیمرا کا چیئرمین،سپریم کورٹ کے کسی معزز جج یا کسی نیک نام سکالر کی طرح محترم ہونا چاہیے۔ اس کی میعاد مقرر اور اس کے پاس جزا و سزا کا اختیار ہونا چاہیے، جسے ذمے داری مگر آزادی کے ساتھ وہ استعمال کرسکے ۔ وقت ایسا ہے کہ قوم کی بقا، فرد کے مفاد سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اتنی اہم کہ اسی پر مستقبل کا تمام تر انحصار ہے۔ عربوں کا محاورہ ہے ’’خذما صفا ودَع ماکدر‘‘ جو صاف ہے لے لو‘ جو میلا ہے چھوڑ دو۔ شاعر نے یہ کہا تھا: بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں