"HRC" (space) message & send to 7575

ہم قلم سے شرمندہ

خلق ہم سے کہتی ہے پورا ماجرا لکھیں ہم قلم سے شرمندہ چشمِ نم سے شرمندہ سوچتے ہیں ، کیا لکھیں ؟ میر تقی میرؔ کو خدائے سخن کہا گیا۔ مبالغہ تو یقینا ہے۔ محبت کے وفور سے حیرت جاگ اٹھے تو اور کیا؟ میرؔ صاحب یاد آتے ہیں۔ سرسری ہم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا‘ جہانِ دیگر تھا افسوس کہ ہم غور نہیں کرتے ۔ اقتدار کے حریص، طولِ امل کے مارے ، سطحی نعرہ بازوں کو ، ریاکاروں کو ہم دیوتا سمجھتے ہیں اور امید پالتے ہیں کہ ادبار سے نجات پائیں ۔ منحصر مرنے پہ ہو، جس کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے عمران خاں نے فرمایا : طالبان کے لیے دفتر کھولا جائے ۔ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی بجائے ایم کیو ایم ، پیپلز امن کمیٹی ، اے این پی اور سنّی تحریک کے دفاتر کیوں نہ کھولے جائیں ؟ کوئٹہ میں ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی کے لیے کیوں نہیں ؟ عمران خان تو چلیے مالی معاملات میں دیانت دار ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے معمار ہیں ۔ اس مردِ نجیب محمود خان اچکزئی کو ملاحظہ کیجئے ۔ پہلی بار موقعہ ملاتو بھائی کو گورنر بنا دیا ۔ خان عبدالغفار خان کی وراثت عبدالولی خان اور بیگم نسیم ولی خان سے ہوتی ہوئی اسفند یار تک چلی آئی ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین چوہدری ظہور الٰہی کے فرزند اور پرویز الٰہی ان کے بھتیجے ۔ لاہور کے ایک کالم نگار سے چوہدری پرویز الٰہی نے کہا تھا: مونس الٰہی کا بھی خیال رکھیے، وہ ہماری توسیع (Extension)ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے فدائین تاثر دیتے ہیں کہ ان سے بڑا سیاسی لیڈر تاریخ نے پیدا نہیں کیا۔ پارٹی انہوںنے بیگم صاحبہ کے حوالے کر دی تھی اور محترمہ نصرت بھٹو نے بیٹی کے ۔ جس روز مرتضیٰ بھٹو اور خود ان پر بے نظیر بھٹو کی پولیس نے فائرنگ کی تو رو کر مرحومہ نے کہا : یہ تو ضیاء الحق سے بھی بدتر ہے ۔ کیا یہ جملہ بہت تلخ ہے ؟ ہاں! خود میں نے کوفت اور کراہت سے لکھا مگر ٹھیک یہی الفاظ تھے۔ تازہ ترین کارنامہ میاں محمد شہباز شریف نے انجام دیا ہے ۔ جناب حمزہ شہباز شریف کو عوامی امور کی کمیٹی کا چیئرمین بنادیا ۔ حمزہ صاحب کے مدّاح ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے قربانیاں بہت دی ہیں ۔ جاوید ہاشمی سے زیادہ؟ جن کی رہائی پر لیگ کے کارکنوں کو جلوس میں شامل ہونے سے روک دیا گیا۔ میاں صاحب کے سامنے خواجہ آصف اور چوہدری تنویر جن کا مذاق اڑایا کرتے ۔ جن کے بارے میں اخبار میں لکھوایا گیا کہ وہ احسان فراموش ہیں۔ جیل میں انہیں کھانا بھجوایا جاتا رہا اور میاں صاحبان نے ان کی تیمار داری کا کارنامہ انجام دیا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کمیٹی ارکان اسمبلی کے جھگڑے چکانے کے علاوہ تمام اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے گی اور سفارشات دیا کرے گی ۔ وزیرِ اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری اس کمیٹی میں شامل ہیں ۔ باقی بچا کیا؟ صوبے میں اقتدار چار آدمیوں کے پاس ہو تاہے ۔ وزیراعلیٰ ، پرنسپل سیکرٹری ، وزیرخزانہ اور آئی جی ۔ تین اس کمیٹی کی پشت پر ہیں ۔ باقی بھی ’’پیچھے اس امام کے‘‘۔ جمہوریت نہیں ، یہ بادشاہت ہے ۔ جمہوریت میں کابینہ ہوتی ہے ۔ پارٹی امور نمٹانے کے لیے اس کے عہدیدار ۔ ترقیاتی منصوبے صوبائی حکومت بناتی ہے یا ضلع کونسل۔ سپریم کورٹ چیخ رہی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں ۔ انگریزی کا محاورہ یاد آیا Camel is a horse, made by a committee۔ اونٹ اصل میں گھوڑاتھا، جو کمیٹی نے بنایا۔ شریف خاندان اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرے۔ جس طرح شہباز شریف کو وزارتِ اعلیٰ سونپی گئی ، صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر حمزہ شہباز کو جتانے کے بعد ، انہیں ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا جائے ۔ عملاً اب بھی وہی ہیں ۔ تحریکِ انصاف کے پرویز خٹک نے ہر اس رشتہ دار کو اسمبلی میں پہنچا دیا، جسے وہ پہنچا سکے۔ محترمہ نصرت بھٹو نے کہا تھا: Bhuttos are born to rule۔ بھٹو خاندان کے بچے حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان سب کا کیا ہو اکہ اقتدار اب زرداری خاندان کے ہاتھ میں ہے ۔ دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص حلقہ زن ہو کے پکارا، کوئی یاں ہے کہ نہیں 87سالہ نوجوان روئیداد خاں اور ساٹھ سالہ جواں سال سیّد مشاہد حسین نے عدالتِ عظمیٰ میں دہائی دی کہ وزیر اعظم نے اسلام آباد کے حسن کو برباد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شہر کے ساتھ ایک اور شہر۔ مارگلہ کا کلیجہ چیر کر سرنگ بنائی جائے گی اور روات میں ایک نیا ہوائی اڈہ ۔ ایک پہلے سے موجود ہے ، دوسرا زیرِ تعمیر اور تیسرا اب بنے گا۔ ماجرا کیا ہے؟ آسانی سے معلوم کیا جا سکتاہے کہ زمینیں کس نے خریدی ہیں ۔ اگر میڈیا معلوم کرنا چاہے۔ سید مشاہد حسین نے آج صبح فکرمندی سے کہا : سرنگ کے بارے میں تم کیوں نہیں لکھتے ؟ کیا لکھیں ؟ رہا اس دیار کا جمال تو حکمرانوں کو کیا پروا؟ وہ جو درہم و دینار اور اختیار و اقتدار میں مبتلا ہو جائے ، پھول پودے کیا، اس کے لیے آدم زاد بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر، ان کو ہو اس کی کیا خبر غم بھی کسی کی ذات تھی، دل بھی کسی کا نام تھا یاد دلاتا ہوں کہ ’’دل پتھر ہو جاتے ہیں ، بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت‘‘۔ یاد دلاتا ہوں کہ ’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں‘‘۔ خدا کی قسم، ہم نے انہیں ہرگز نہیں چنا۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ وہ چن لیے گئے ۔ امریکہ نے، عربوں نے، مالدار طبقات نے ، ریزہ چینی کرنے والوں اور حصۂ رسدی کی امید رکھنے والوں نے۔ کراچی کے حلقہ 258 کے بارے میں الیکشن کمیشن کی گواہی یہ ہے کہ 73فیصد ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشان ہی نہیں ۔ ملاجلا کر 93فیصد ایسے ہیں کہ منسوخ کرنا ہوں گے ۔ اس کے باوجود کسی کو شرم آئی ؟ خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی جمہوریت بجا کہ پاکستان میں اس کا بدل خاندانی بادشاہت نہیں ، مارشل لا ہے اور مارشل لا جو کچھ تعمیر کرتاہے ، آخر کار خود ہی اسے تباہ کر ڈالتاہے ۔ اخلاقی اصولوں کے بغیر ، جزا وسزا اور نظامِ احتساب کے بغیر کون سی جمہوریت ؟ بھٹو جمہوریت، بے نظیر جمہوریت، زرداری جمہوریت اور شریف جمہوریت؟ بجٹ بنانے سے پہلے ہی 60ہزار 1200سی سی ہائبرڈ کاریں اور بجٹ کے بعد نندی پور اور حمزہ شہباز۔ ع حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا بے شک مایوسی گناہ ہے ۔ ہاں !مایوسی اور ایمان کسی دل میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ امید مگر اللہ سے ہے ، بندوں سے نہیں ۔ جدوجہد سے ہے ، ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے سے نہیں۔ رہنمائوں کے احتساب میں ہے ، اندھی پیروی میں نہیں ۔ سبھی کے لیے ایک ترازو۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ کا وہ جملہ ایک بار پھر یا دکیجئے، جو انہوںنے شام کے جلیل القدر گورنر امیر معاویہ سے کہا تھا: انسانوں کو اللہ نے آزاد جنا تھا، تم کب سے انہیں اپنا غلام بنانے لگے ۔ جمعہ کی شام سے وزیراعظم پہ گل پاشی ہے کہ جنرل اسمبلی کے خطا ب میں ٹیپو سلطان کی یاد تازہ کر دی ۔ بے شک یہ ایک متوازن خطاب ہے ۔ بھنگڑا ڈالنے والوں سے مگر ایک سوال : طالبان اور دہشت گردی کے بارے میں عالی جناب نے جو کچھ نیو یارک میں ارشاد فرمایا، وہ پاکستان میں کیوں نہیں کہتے؟ ارشاد فرمایا کہ طالبان باز نہ آئے تو فوج اور پولیس پوری قوت سے کارروائی کریں گی۔ یہاں ممتا کیوں جاگ اٹھتی تھی؟ ’’ہمارے لوگ‘‘ خلق ہم سے کہتی ہے پورا ماجرا لکھیں ہم قلم سے شرمندہ چشمِ نم سے شرمندہ سوچتے ہیں، کیا لکھیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں