آدمی سوچنے سے انکار کرتا ہے تو حادثے پہ حادثہ نمودار ہوتا ہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا: آسودگیِ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ دامن کو ٹک ہلا کہ بجھی ہے دلوں کی آگ سوات سے فیصل آباد جاتے ہوئے بالآخر ایک دیوار پہ لکھا ہوا وہ جملہ پڑھا‘ جس نے خیال اور احساس کو حرکت دی۔ ’’خیبر پختون خوا‘ قدیم تہذیبوں کا مسکن‘‘۔ تہذیبوں کے مسکن‘ ان کے مدفن بھی ہوتے ہیں۔ کتاب میں لکھا ہے: ’’کتنے زمانے تھے جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا‘‘۔ اور کتاب میں یہ لکھا ہے: ’’سیروا فی الارض ثم انظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین‘‘۔ زمین میں گھوم پھر کے دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا؟ مسلمان معاشرے پر یونانی فلسفیوں کے اثرات گہرے ہوئے‘ ابن رشد جیسے فلسفیوں نے جنم لیا‘ اُن سے پوچھا گیا: سنا ہے آپ عاد و ثمود کے انجام کو نہیں مانتے۔ کہا‘ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ زمین پر اس نام کی قومیں کبھی آباد بھی تھیں یا نہیں۔ اولین زمانوں کے بعد قرآن کریم سے مسلمانوں کا تعلق کمزور ہوتا گیا وگرنہ کتنے ہی حقائق وہ بیسویں صدی سے پہلے ہی معلوم کر لیتے۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ مثلاً عصر جدید کے ممتاز ماہرینِ آثار قدیمہ کا یہ فیصلہ کہ Homosapiens اور Homoreligious یعنی اولین انسان ایک ہی مذہب پر تھے۔ قرآن کریم بھی یہ کہتا ہے کہ دورِ اول میں بنی آدم امت واحدہ تھے۔ غالبؔ نے کہا تھا: ہم مؤحد ہیں‘ ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم ملّتیں جب مٹ گئیں‘ اجزائے ایماں ہو گئیں تین ہزار برس ہوتے ہیں‘ بلادِ شام کے ان باسیوں نے افغانستان کے دشوار گزار علاقوں میں پڑائو ڈالا تھا‘ جو 27 برس کے بعد افغانستان کہلایا۔ احمد شاہ ابدالی کی تلوار سے تراشے گئے‘ اس نئے ملک کا نام اول افغانستان و ترکمانستان تھا۔ ابدالی ملتان میں پیدا ہوا اور نادر شاہ کے کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر تھا۔ افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں اسے احمد شاہ بابا کہا جاتا ہے۔ کسی بھی دوسرے اساطیری کردار کی طرح‘ عجیب و غریب داستانیں اس سے منسوب ہیں۔ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ ایک نئے افغانستان کی تخلیق کے علاوہ‘ پانی پت کی دوسری جنگ میں اس نے مرہٹوں کی کمر توڑ دی تھی‘ وگرنہ مسلمانوں کے لیے پورا ہندوستان مقبوضہ کشمیر یا احمد آباد کی طرح ہو گیا ہوتا۔ میر تقی میر نے کہا تھا۔ چور‘ اچکے‘ سکھ‘ مرہٹے‘ شاہ و گدا سب خواہاں ہیں چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے‘ فقر ہی اک دولت ہے یہاں پشتونوں کے قافلے اس سرزمین میں کب اترے‘ جسے اب پاکستان کہا جاتا ہے۔ کوئٹہ میں اے این پی کے ایک پرجوش کارکن نے مجھے بتایا کہ دو ہزار برس پہلے۔ بہرحال جہاں تک شمال مغربی پاکستان کا تعلق ہے‘ سات سو سال پہلے‘ طورخم سے ادھر ایک بھی پشتون آباد نہ تھا۔ اپنی خود نوشت تزکِ بابری میں ظہیر الدین بابر سوات میں کچھ یوسف زئی خاندانوں کا ذکر کرتا ہے۔ ایک خاتون کا بھی‘ جس سے اسے واسطہ پڑا اور جس کی بے باکی نے مغل فاتح کو حیران کردیا۔ سوات کی وادی میں‘ جہاں مسافر نے چار دن گزارے اور اس کے جمال پہ حیران ہوتا رہا‘ اب 70 فیصد سے زیادہ یوسف زئی آباد ہیں‘ ان میں سے بعض یہ کہتے سنے گئے کہ آبادی میں ان کا تناسب 99 فیصد ہے۔ کچھ دوسرے اداروں کے اعدادو شمار مختلف ہیں۔ 2011ء میں کیے گئے پاک فوج کے سروے میں بتایا گیا کہ دس فیصد‘ گجر ہیں اور دس فیصد سید۔ اگرچہ آبادی میں وہ گھل مل گئے ہیں اور پشتو ہی اب ان کی زبان ہے۔ بتیس سال پہلے مالم جَبّہ کی بلندی پر‘ جہاں ایک شاندار ہوٹل زیرِ تعمیر تھا اور جسے بعد میں طالبان نے تباہ کردیا‘ میں نے گوجروں کو ریوڑ چراتے دیکھا۔ ادھر مقبوضہ کشمیر کے کالے جنگلوں میں بھی وہ بڑی تعداد میں ہیں۔ برادرم سجاد غنی لون اور بلال غنی لون‘ انہی کے لیڈر ہیں۔ کبھی شمالی اور وسطی پنجاب پر ان کی حکومت تھی۔ گجر خان‘ گجرات‘ گوجرانوالہ اور گوجرہ اسی دور کی نشانیاں ہیں۔ اب بھی کبھی کبھی حکمرانی کی تمنا اس قبیلے کے کسی جانباز کی رگوں میں برق بن کر چمکتی اور گل کھلاتی ہے۔ سوات میں‘ انتہا پسندی اور عسکریت کے بیج کب اور کیسے بوئے گئے۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے‘ جسے ایک کہانی کی شکل میں لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیا بات اتنی ہی سادہ ہے کہ 1969ء تک برقرار رہنے والے ریاستی عہد میں انصاف تیزی سے دستیاب تھا اور بعد میں مشکل اور گراں ہو گیا‘ جس کا ردعمل پیدا ہوا اور ایک کے بعد دوسری تحریک اٹھی‘ بالآخر طالبان اور القاعدہ سے جن کا رشتہ استوار ہوا؟ تاریخی عمل اتنا سادہ کبھی نہیں ہوتا۔ زندگی کو اللہ تعالیٰ نے ایک خیرہ کن تنوع میں پیدا کیا اور کشمکش میں وہ بروئے کار آتی ہے۔ صرف عمران خان ایسا ایک سادہ لوح لیڈر ہی یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک نظام کی تشکیل بجائے خود مسائل حل کر ڈالے گی۔ کچھ سچے‘ مخلص‘ پُرعزم مردانِ کار درکار ہوتے ہیں۔ سیف اللہ نیازیوں‘ صداقت عباسیوں اور عامر کیانیوں کے بل پر انقلاب نہیں لائے جاتے۔ کچھ بنیادی اخلاقی اقدار ہیں‘ جن کا خیال نہ رکھا جائے تو حیات اجتماعی انتشار میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ایک جملے میں بات سمو دی تھی۔ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے‘ مگر ظلم کی نہیں۔ تاتاریوں کی یلغار کے ہنگام ایک جلیل القدر صوفی نے فرشتوں کو کہتے سنا تھا: مارو ان منافق مسلمانوں کو۔ دیوار پہ ایک سوال لکھا ہے۔ ’’ساری دنیا میں مسلمان ہی ظلم کا شکار کیوں ہیں؟… اسلامی جمعیت طلبہ‘‘ کیا یہ سوال عام آدمی سے پوچھنے کا ہے؟ کیا اس کے جواب میں‘ اس کے سوا بھی کچھ کہے گا کہ غیر مسلم ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟ کیا وہ جانتا ہے کہ جہاد کے بارے میں قرآن کریم کی 28 آیات میں سے صرف 8 کا تعلق قتال سے ہے اور باقی کا جہاد اکبر‘ یعنی اصلاحِ ذات سے؟ کیا مذہبی جماعتیں اور مذہبی لیڈر اس بات کا ادراک رکھتے ہیں؟ کم از کم سوات میں ہنگامے پہ ہنگامہ اٹھانے والے صوفی محمد اور مولوی فضل اللہ ہرگز نہیں۔ افغانستان جاتے ہوئے جنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جدید جنگیں‘ غیر منظم لشکروں کے بل پر نہیں لڑی جا سکتیں۔ یہ سمجھنا مگر سادہ لوحی ہے کہ صرف طالبان ہی خرابی کا سبب ہیں اور صرف وہی بگڑے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کا اندازِ فکر کتنا ہی ناقص اور ان کے مذہبی تصورات کتنے ہی سطحی کیوں نہ ہوں‘ زمانہ کیسے کیسے طلوع ہوا کہ کچھ لوگ ان سے امیدیں وابستہ کرنے لگے؟ سوات کے دو ممتاز سکھ لیڈروں نے مجھے حیرت زدہ کردیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا رویہ غیر معمولی طور پر اچھا تھا۔ اقلیتیں خوف کا شکار ہوتی ہیں اور ہر طاقتور گروہ کے لیے گنجائش رکھتی ہیں۔ یہ بات آشکار ہے مگر ان واقعات کا کیا کیجیے‘ جو ہیجان کے زمانے میں پیش آئے۔ جب مالدار غیر مسلموں کو لوٹنے اور قتل کرنے سے انہوں نے گریز کیا‘ حالانکہ وہ ان کے رحم و کرم پر تھے۔ میں اس بارے میں کوئی آخری رائے نہیں دے رہا‘ بس ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سوات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ صوبے بھر کے پٹواری ہر روز مولانا فضل الرحمن کے لیے دعا کرتے ہیں۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ مولانا‘ عمران خان کا تخت اکھاڑ پھینکیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہے۔ رشوت لینا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور بنا دیا گیا ہے۔ پولیس کے لیے بھی‘ اور اب ناصر درانی کے آئی جی بن جانے کے بعد یہ اور بھی تو مشکل ہوتا جائے گا۔ میں حیران ہوا کہ ہمارے میڈیا کو خبر کیوں نہ ہوئی۔ شاید وہ کچھ زیادہ ضروری امور میں الجھا ہے۔ آدمی سوچنے سے انکار کرتا ہے تو حادثے پہ حادثہ نمودار ہوتا ہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا: آسودگیِ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ دامن کو ٹک ہلا کہ بجھی ہے دلوں کی آگ