اب کفر کے فتوے کا انتظار ہے ۔ اقبال ؔ پر لگا تھا ، ان کے ناکردہ کار مدّاح پہ لگے تو عین ثواب !اب دائود رہبر کا ایک شعر سن لیجیے ؎ کوئی فہرست سناتا تھا وفاداروں کی چل دیے اٹھ کے میرے نام سے پہلے پہلے اس ملزم کی طرح شعیب بن عزیز کے بھی دو ہی انداز ہیں ۔ چڑھایا تو بانس پہ چڑھادیا اور گرایا تو اپنے عزیز دوست سے یہ کہا: مقدمہ جتنا زیادہ جھوٹا ہو، آپ کے دلائل اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ۔ پانچ برس ہوتے ہیں ، جب مجھے دائود رہبر کو پڑھنے کی تلقین کی اور قصیدہ کہا۔ طالبِ علم تامّل کا شکار تھا ۔ شعیب کا کیا پتہ، کبھی سنجیدہ ہی ہو جائے۔ ملک کے سب سے بڑے پبلشر‘ پروفیسر صاحب کے طفیل مجھ پہ مہربان تھے۔ اتنے زیادہ ہوئے کہ میں گھبرا کے اٹھ بھاگا…افضال صاحب! پانچ ہزار کی کتب چنیں۔ ہدیہ پوچھا تو کہا: پانچ سو روپے ۔ پانچ سو؟ بولے : یہ بھی زیادہ ہیں۔ تبرّک اس سے زیادہ کیا۔ غالباً انہی میں دائود رہبر کی ایک کتاب بھی تھی ۔ پھر ان کا لکھا ہر ورق چاٹ لیا۔ قوت بادشاہوں کی بھی ہوتی ہے ۔ درویش مگر ایک قبیلہ تشکیل دیتاہے ۔ بھائی وہ بن جاتے ہیں اور صف آرا ہوئے بغیر لشکروں کو ماند کرتے ہیں ؎ از افق تابہ افق شہرتِ ظلم است ولے از ازل تابہ ابد فرصتِ درویشان است لکھنے والے کا اندازہ تشبیہ سے ہوتاہے اور تشبیہ کا انحصار فقط قوتِ خیال پر نہیں ہوتا، اس سے زیادہ مطالعے پر ۔ جس نے پڑھا نہیں ، وہ کیا خاک لکھے گا؟ اور جس نے غور و فکر نہ کیا ، گلدستے کے نا م پر وہ کوڑا جمع کرے گا اور کالم اس کا نام رکھّے گا۔ دائود رہبر کی نثر میں تشبیہات کا جہان ایک کہکشاں ہے۔ ’’پربتوں کی ترائیوں میں ردائے رنگ تنی ہوئی‘‘۔ جناب انتظار حسین کے کالم سے اس آدمی کی موت کا علم ہوا، اپنے وطن میں جو اجنبی تھا اور سمندر پار اس کا نیک نام اور نیک نہاد سفیر۔ علامہ اقبال ؔ کے ایک ہم نفس تھے، علّامہ محمود اختر شیرانی ۔ فارسی کے عالم ۔ افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کی دعوت پر علّامہ اقبالؔ ، سید سلیمان ندوی کے ساتھ کابل روانہ تھے ۔ گھر سے نکلے تو ڈاکیے نے خطوط ہاتھ پہ رکھے ۔ مرتبے یونہی عطا نہیں ہوتے ۔ علامہ کا معمول یہ تھا کہ خواہ مجلس برپا ہو ، اسی وقت سندیسوں کے جواب لکھتے ۔ کوئی مجلس سے اٹھ کر جا چکا ہوتا تو اس کے ذکر سے منع کرتے ۔ جواب رقم فرمایا اور لکھا کہ انشراح صدر کے لیے علّامہ محمود شیرانی سے رجوع کیا جائے ۔ پہلی بار کسی اخبا رمیں شیخ محمد اقبال کو علامہ اقبالؔ لکھا گیا تو لوگوں نے حیرت سے کہا : علامہ تو محمود شیرانی ہیں ۔ پہلی بار کسی نے حکیم الامت لکھا توتعجب کرنے والوں نے تعجب کیا کہ وہ تو مولانا اشرف علی تھانوی ہیں ۔ تاریخ بڑی ہی بے رحم ہے ۔ اب علاّمہ بھی ایک وہی ہیں اور حکیم الامت بھی وہی ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی مکتبِ فکر کے ایک معتبر پیشوا ہیں ۔ ماننے و الے ان کے اب بھی بہت اور ہم ایسے بھی کہ تحریکِ پاکستان کی تب حمایت کی، جب قرار دادِ لاہور بھی منظور نہ ہوئی تھی ۔رہی تعبیر رویا یا تصوف ، تو سچائی بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہے مگر حسنِ ظن زیادہ ؎ سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانہء ہستی کچھ اصل ہے ، کچھ خواب ہے ، کچھ حسنِ بیاں ہے تو وہ جو علّامہ محمود شیرانی تھے اور جن کی رائے میں اردو زبان پنجاب میں پیدا ہوئی ، ایک فرزند اللہ نے انہیں عطا کیا۔ اس کا نام انہوںنے دائود رکھا۔ ان کے ہم نفس شیخ محمد اقبال کو بھی اللہ نے ایک بیٹا بخشا تو اسے بھی یہی نام دیا گیا۔ گڑھی شاہو والے شیخ محمد اقبال نہیں بلکہ ماڈل ٹائون کے ۔ فارسی کے ایک متبحر عالم۔ علّامہ محمود شیرانی کے فرزند دائود نے ہوش سنبھالا تو اختر شیرانی ہوگئے ۔ ٹی وی کا نہیں ، یہ شاعروں ، افسانہ نگاروں اور حرّیت کیش لیڈروں کا زمانہ تھا ۔ ان میں سے بعض پوجے جاتے ۔ اختر شیرانی کا جادو سر چڑھ کے بولنے لگا۔ محبوب اور مقبول ہوئے تو برباد بھی ۔ طاقت بدعنوان بناتی ہے اور زیادہ قوت زیادہ بد عنوان ۔ مقبولیت گاہے ذہنی توازن بگاڑ دیتی ہے ، گاہے کیا اکثر۔ یاس یگانہ ؔ چنگیزی بڑے شاعر تھے ، بہت بڑے ۔ پذیرائی ہوئی تو غالب ؔ سے حسد کرنے لگے۔ فراق گورکھپوری پہ شہرت کا دروازہ کھلا تواقبال ؔ کو حریف کیا ۔ ان کا حریف کون ہو سکتا۔ دن بھر انہیں گالیاں دیا کرتے ۔ آخر کو پاگل ہو گئے ۔ جوش ؔسے زیادہ ، احمد فرازؔ سے کہیں زیادہ ۔ تن بدن کا ہوش نہ رہا ۔ صرف ایک قمیض پہنے ہوتے اور ہذیان بکا کرتے ۔ اقبالؔ کا معاملہ تو یہ تھا کہ اپنی وفات کے 50برس بعد بھی ’’مجاہدِ اوّل‘‘ سردار عبدالقیوم کو گردن سے پکڑ لیا تھا اور ایسا پکڑا کہ بلبلا اٹھے ۔ بہت بیمار ہیں ، اللہ انہیں صحت دے ۔ مجید نظامی کے اصرار پر معافی انہوںنے مانگ لی تھی ۔ اللہ معاف کرنے والا ہے ۔ اختر شیرانی کے ساتھ وہ ہوا، جو ایک اور شاعر کے ساتھ ہوا تھا ؎ سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے فراق کی طرح ، منٹو کی طرح ، انہوںنے بنتِ عم پہ جان دی ، رسوائی سمیٹی اور باپ کی بد دعا۔ آزردگی میں بھی گاہے حسِ مزاح جاگ اٹھتی ہے ۔ وہ لمحہ محمود شیرانی پہ طلوع ہوتا تو کہتے : شیخ محمد اقبال اپنے دائود کے بدلے اگر میرا دائود قبول فرمائیں؟ دائود رہبر کے باپ نے کہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک قابلِ صد احترام استاد تھے، اولاد کو ماں بن کے پالا۔ سب کے سب سعادت مند ۔ اولادجانتی نہیں کہ ماں باپ کی دعا خدا کی بارگاہ میں کیسی معتبر ہے ۔ اللہ نے خود اپنے آپ سے تشبیہ دی ہے : رب الرحم ھما کما ربیٰنی صغیرا۔ اے میرے پالنے والے‘ ان پر رحم فرما‘ جس طرح بچپن میں انہوںنے مجھے پالا ۔ شیخ محمد اقبال اولاد کو سونے کا نوالہ کھلاتے مگر دیکھتے شیر کی نگاہ سے ۔ خود ترتیب میں ڈھلے تھے ، انہیں بھی ڈھالنے کی کوشش کی۔ خود علم کے جویا تھے ۔انہیں بھی سکھایا۔ ماں پہ پوت، پتا پہ گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ جانتے تھے کہ زندگی کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک جان لینے کی مسرّت ہے ۔ شاعری کی ، نثر لکھی اور ایسی نثر کہ گدازبوتی اور رچائو اگاتی ہے۔ موسیقی میں بھی ایسا ہی کمال پیدا کیا۔ کوئی غور تو کرے کہ شاعر اور نثر نگار اگر موسیقار ہو جائے تو کیا سہ آتشہ نہ ہوگی ؟ افسوس کہ علمائِ کرام نے موسیقی کے باب میں سرکارؐ کے فرامین پر دماغ سوزی نہ کی۔ روایت کو علم کا درجہ دے دیا ۔ اس قدر سخت گیری کہ خدا کی پناہ ۔ موسیقی اچھی ہوتی ہے اور بری بھی ۔ 23برس ہوتے ہیں ، جناب واصف علی واصف نے 29شعبان کی شام مجھے طلب کیا اور پوچھا : کیا کبھی کسی روحانی پیشوا کی سرپرستی آپ نے فرمائی ہے ؟ پھر بولے : دل میں حرکت چاہیے، خواہ کسی خوش گلو کی ایک تان ہی سے ۔ مولانا روم کو سبھی مانتے ہیں ، سب سے بڑھ کر اقبالؔ مگر بانسری کی تان علمائِ کرام نے حرام ہی قرار دے ڈالی ہے ۔ چودھویں آتی ہے ۔ ان میں سے کوئی میرے ساتھ چولستان چلے اور ست پارہ جھیل۔ پھر اگلی سحر بتائے کہ کیا بانسری حرام ہے؟ آوازِ دوست!آوازِ دوست! ایک شام کراچی کی ایک محترم خاتون نے فون کیا، آواز میں خوف : نماز پڑھتی ہوں ، تسبیح کی پابندی بھی مگر خطاکار ہوں کہ غزل سنتی ہوں ۔ عرض کیا : علامہ اقبال بھی سنتے تھے بلکہ اس سے کچھ زیادہ اور آپ کے گرامی قدر استاد پروفیسر احمد رفیق اختر انہیں مجدّد مانتے ہیں۔ علمائِ کرام بھی مانتے ہیں ؛اگرچہ سیّد ابو الاعلیٰ اور ڈاکٹر اسرار سمیت بعض کو تنہائی میں بڑبڑاتے بھی دیکھا۔ ارے بھائی دائود رہبر تو بیچ ہی میں رہ گئے ۔ اچھا ، پھر کسی دن ۔ اب کفر کے فتوے کا انتظار ہے ۔ اقبال ؔ پر لگا تھا ، ان کے ناکردہ کار مدّاح پہ لگے تو عین ثواب ! اب دائود رہبر کا ایک شعر سن لیجئے ؎ کوئی فہرست سناتا تھا وفاداروں کی چل دیے اٹھ کے میرے نام سے پہلے پہلے