لیجیے آج پھر بات ادھوری رہ گئی ۔ یار زندہ ، صحبت باقی ۔ مزید یہ کہ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے بیس برس ہوتے ہیں ، واہ میں چین اور پاکستان کے اشتراک سے بنائے گئے الخالد ٹینک کے نمونے (Prototype)کی افتتاحی تقریب تھی ، جس سے وزیر اعظم نواز شریف اور سپہ سالار جنرل اسلم بیگ کو خطاب کرنا تھا ۔ شب ایک چونکا دینے والی خبر آئی۔ وقتِ مقررہ سے تین ماہ قبل ہی نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کر دیا گیا… جنرل آصف نواز جنجوعہ! جنرل اسلم بیگ بجھے ہوئے تھے اور ان کے لہجے میں وہ روانی نہیں تھی ، جس کے لیے وہ معروف تھے ۔ ان کے برعکس وزیراعظم بشاش تھے ۔ خطاب کے بعد ، وہ ٹینک میں گھس گئے ۔ اسے سٹارٹ کیا اور یہ کہتے ہوئے باہر نکلے ’’یہ تو بالکل مرسڈیز کی مانند ہے‘‘ جنرل اسلم بیگ کا خطاب رسمی تھا، مگر ایک جملہ! ’’اب ہم دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں گے‘‘ سیاق و سباق سے ہٹ کر درمیان میں ، بظاہر بالکل غیر متعلق ۔ صرف ایک اخبار نویس سمجھ سکا۔ اسلام آباد اور لاہور سے شائع ہونے والے اخبار کا جواں سال مدیر۔ خود اپنے ہاتھ سے اس نے خبر لکھی اور اسے اخبار کی شہ سرخی بنایا ’’اب ہم دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں گے‘‘ کسی دوسرے اخبار میں ذکر تک نہ تھا ۔ فوجی افسروں کے خطابات کو ، جب وہ اشارۃََ سیاست کے بارے میں بات کریں ، زیادہ انہماک سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خاص طور پر اس وقت ، جب اہم فیصلے صادر کیے جا رہے ہوں ۔ الیکشن سر پہ کھڑے ہوں یا نئے آرمی چیف کا تقرر ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اب کی بار بھی ، ٹھیک اسی مرحلے پر ، پاکستانی پریس ہی نہیں ، عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی پانچ روز قبل جنرل کیانی کے خطاب پر وہ توجہ نہیں دی ، جس کا وہ مستحق تھا۔ اب کی بار بھی یہ رخصت ہوتے ہوئے سربراہ کا اظہارِ خیال ہے ۔ فرق یہ ہے کہ جنرل اسلم بیگ توسیع کے آرزومند تھے اور جنرل کیانی ہرگز نہیں۔ ریٹائرمنٹ کا خود اعلان کر کے انہوں نے بساط لپیٹ دی۔ تب فیصلہ صدر غلام اسحٰق خان کو صادر کرنا تھا کہ اختیار انہی کا تھا ۔ اب وزیر اعظم کو ، 1998ء میں جنہوںنے جنرل پرویز مشرف کا انتخاب کر کے اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری تھی ۔ سیاستدانوں کے برعکس ، جو دعوے کرتے اور نعرے فروخت فرماتے ہیں ، اکثر فوجی افسر دھیمے لہجے (Under Statement) کے عادی ہو تے ہیں ۔ گاہے بات وہ کہہ دیتے ہیں مگر مفاہیم کے سب پہلو وہ روشن نہیں کرتے ۔ فارسی محاورے کے مطابق غیر ضروری بے باکی ’’برہنہ گفتن‘‘ ان کا طریق نہیں ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی فارسی روایت کے آدمی ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ صدیوں پہلے ان کے اجداد ایران سے آئے تھے۔ ان کی پچھلی نسل تک بول چال میں فارسی الفاظ دوسروں کی نسبت قدرے زیادہ ہوتے ۔ ایک ملاقات میں انہوںنے اس کی کچھ مثالیں بھی دی تھیں۔ اگر میں حافظے پر زور دوں تو شاید ایک آدھ اجاگر ہو جائے لیکن یہ پھر کبھی ۔ کاکول اکیڈمی میں جنرل کے خطاب کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا حصہ وہ ہے ، جس میں انہوںنے 2008ء کے الیکشن کو اپنایا ہے ، انگریزی روزمرہ کے مطابق اس کی ownershipلی ہے مگر 2013ء کی نہیں ۔ 2013ء کے الیکشن سے ابھرنے والی حکومت کے سامنے سرکاری افسر نے سر تسلیم خم کیا ہے اور کرنا ہی چاہیے مگر اشارہ کیا ہے کہ الیکشن کے انتظامی پہلو سے ان کا تعلق نہیں تھا۔ جو کچھ رونما ہوا ، وہ سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن کا کارنامہ تھا۔ الیکشن کے نتائج تسلیم کر کے ہارنے والوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا۔ عمران خان نے مگر واضح کیا کہ انہوںنے نتائج مانے ہیں ، دھاندلی نہیں ۔ پاکستانی سیاست کے ا س طالبِ علم کا خیال ہے کہ آئندہ چند دنوں کے اندر شاید کچھ سنسنی خیز انکشافات ہوں گے۔ بعض عدالتی شخصیات کے بارے میں تنازعہ کھڑاہو سکتاہے ۔ الیکشن میں ان کی مداخلت کے حوالے سے ۔ نہایت احتیاط کے ساتھ ، جو جنرل اشفاق پرویز کیانی کا شیوہ ہے ، انہوںنے قوم کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ جمہوریت ہی استحکام کا واحد راستہ ہے اور اگرچہ ترجیحات طے کرنے کا اختیار منتخب حکومت کے پاس ہے ، مگرجہاں تک 2013ء کے الیکشن کا تعلق ہے ، پاک فوج کا انعقاد کے عمل سے ہرگز کوئی واسطہ نہیں تھا۔ جنرل کے الفاظ یہ ہیں ’’2008ء کے انتخابات کے نتائج تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی میعاد پوری کی اور نئی منتخب حکومت کو پر امن انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار کی منتقلی ہوئی‘‘۔ فوراً بعد کی سطور یہ ہیں ’’2013ء کے انتخابات میں ، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں، 1970ء کے بعد سب سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔ اب مرکز اور صوبوں میں عوام کی رائے سے بننے والی نئی حکومتیں کام کر رہی ہیں ۔ ہم اس وقت جمہوری اقوام کی صف میں کھڑے ہیں ۔ فوج نے بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ انتخابات کے دوران امن وامان قائم رکھنا ایک مشکل ذمہ داری تھی لیکن آرمی نے باقی اداروں کے ساتھ مل کر انتخابی ماحول سازگار بنایا‘‘۔ وہ بات جو جنرل نے 2008ء کے الیکشن پر کہی ’’انتخابات کے نتائج تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیے‘‘، 2013ء کے بارے میں ، وہ نہ کہہ سکتے تھے ۔ ان کا تو کام ہی نہیں کہ وہ انتخابی عمل پہ تبصرہ کریں ۔ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ الیکشن کمیشن کے جسٹس کیانی عملاً کمیشن کے سربراہ کا کردار نبھا رہے تھے کہ فخر الدین جی ابراہیم کمزور یادداشت کے بوڑھے آدمی ہیں۔ اپنا زیادہ وقت انہوں نے کراچی میں گزارا اور ان کے اختیارات عام ارکان سے زیادہ نہ تھے ۔امن و امان کی جس مشق کا جنرل کیانی نے ذکر کیا ہے، اس کی بجا آوری کے لیے انہوںنے فخر الدین جی ابراہیم اورجسٹس کیانی سے کئی ملاقاتیں کیں ۔ ان ملاقاتوں کے دوران یہ سوال زیرِ بحث رہا کہ کیا فوجی افسر پولنگ سٹیشنوں کی مکمل ذمہ د اری قبول کر سکتے ہیں تا کہ دھاندلی نہ ہونے پائے۔ جسٹس کیانی سے جنرل کیانی نے سوال کیا کہ کیا فوجی افسر کو کارروائی کا اختیار ہو گا، مثلاً! پولنگ روکنے یا دھاندلی کرنے والے کے لیے سزا تجویز کرنے کا۔ جج صاحب کا جواب نفی میں تھا۔ اس پر جنرل کیانی نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سامنے کی بات یہ تھی اور جج صاحب بھی خوب سمجھتے تھے کہ ذمہ داری اختیار کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ فوجی افسروں کو اختیار دینے پر آمادہ نہ تھے ۔ آخر کیوں ؟ اس بارے میں اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں یا تحقیق کی جا سکتی ہے ۔ چند چوکس لوگوں نے الیکشن کے فوراً بعد انگوٹھوں کے نشان جانچنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر ناچیز نے اسی کالم میں عرض کیا تھاکہ ووٹ کی بہت سی پر چیوں پر سرے سے انگوٹھوں کے نشان ہی نہیں۔ افسوس کہ اس اہم اطلاع پر کسی نے توجہ نہ دی ، خود میں نے بھی نہیں کہ مزید تحقیق کرتا۔ دریں اثنا کراچی کے دو حلقوں میں انگوٹھے جانچنے کی مشق ہوئی تو معلوم ہوا کہ دو تہائی سے زیادہ ووٹ جعلی ہیں۔ پنجاب میں ایسا نہیں ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ یہاں تیس چالیس سیٹوں پر دھاندلی ہوئی ۔ ہوئی یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ نادرا کی مدد سے الیکشن کمیشن ہی اس کا تعین کر سکتاہے یا سپریم کورٹ جو اس معاملے کو ترجیحی طور پر دیکھنے کے لیے آمادہ نہیں۔ کیوں نہیں ؟ یہ معزز جج صاحبان ہی بہتر جانتے ہیں ۔ کون سامعاملہ زیادہ اہم ہے ، یہ فیصلہ ان کاکام ہے ، ہمارا نہیں۔ یہ تو بہرحال سب نے دیکھا کہ عمران خان کٹہرے میں کھڑے تھے اور کسی کی سمجھ میں یہ نہ آتا تھا کہ انہوںنے ایسا تلخ جملہ کیوں کہا اور بعد میں اس کی ایسی تاویل کیسے کی ، جوسب کے لیے قابلِ قبول ہو گئی ۔ یہ تو اسلام آباد کا ہر با خبر آدمی جانتاہے کہ نادرا کے چیئرمین پر بے حد دبائو ہے اور کسی وقت بھی کوئی واقعہ رونما ہو سکتاہے ۔ عدالتِ عظمیٰ کو بلدیاتی الیکشن پہ بجا طورپراصرار ہے ۔ جہاں تک آئینی اور قانونی پہلو کا تعلق ہے تو اس پر اظہارِ خیال کی ضرورت ہے نہ جواز ۔ جہاں تک کارِ سیاست کا تعلق ہے تو پنجاب اور کراچی میں اس الیکشن کا انعقاد سہل نہیں ۔ کراچی بد امنی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی پارٹی امتحان میں مبتلا ۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف ، جماعتِ اسلامی او رقاف لیگ کا اتحاد متشکل ہو رہا ہے ۔ اگر ہو سکا تو جماعتِ اسلامی کا نیٹ ورک، قاف لیگ کی سیاسی ذہانت اور چار ماہ کی کارکردگی کے علاوہ ، دھاندلی کے تناظر میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں کا جوش و جذبہ ، ایک طوفان اٹھا سکتاہے ۔ نون لیگ آسانی سے جیت نہیں سکتی اور شکست کی وہ متحمل نہیں ۔ گیلپ اور پلڈاٹ کے سروے میں تو میاں محمد نواز شریف مقبولیت کی معراج پر ہیںمگر زمینی حقائق ذرامختلف ہیں ۔ سعد رفیق کے سوا ایک بھی وزیر نہیں ، جس کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہو۔ لیجیے آج پھر بات ادھوری رہ گئی ۔ یار زندہ ، صحبت باقی ۔ مزید یہ کہ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے