"HRC" (space) message & send to 7575

لوٹ کے گھر جانا ہے

اورکھڑی شریف کی مٹی اوڑھ کر سوئے ہوئے عارف میاں محمد بخش نے یہ کہا تھا ۔ لوئے لوئے بھر لے کڑیے جے تد بھانڈا بھرنا شام ہوئی، بن شام محمد، گھر جاندی نے ڈرنا عجیب گلی ، عجیب گھر اور عجیب لوگ۔ کتنے زمانے گزرے کہ اس گلی سے گزر نہیں ہوا۔ کبھی لگتاہے کہ عہدِ فراموش کا کوئی دن تھا، دھندلا سا اور کبھی یہ محسوس ہوتاہے کہ کل کی بات ہے ۔اٹھارہ برس ہوتے ہیں، خالد مسعود خان سے پہلی ملاقات تمام جزئیات کے ساتھ یاد ہے ۔ افتخار عارف کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوا ، جو اب ایران میں بستے ہیں اور دل میں بستے ہیں ۔ کسی نے کہاتھا: تم سے وہ ملنا چاہتے ہیں ۔ دفتر کا پتہ اس سے پوچھا ۔ بس میں سوار ہوا اور کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد ان کے کمرے میں جا داخل ہوا۔ وہ کچھ حیران سے مگر فورا ًہی سنبھلے اور گنوار آدمی کا خیر مقدم کیا ۔ چائے منگوائی اور بات سے بات نکلنے لگی ۔ مشکل یہ تھی کہ ان کے موضوعات میرے نہ تھے ۔ جن چیزوں اور جن لوگوں سے مجھے دلچسپی تھی ، ان میدانوں سے انہیں حذر تھا۔ پھر معلوم نہیں کیوں اور کیسے بیگانگی کی دھند اڑنے لگی ۔ ایسی شناسائی کہ گویا برسوں کی رفاقت ہے ۔ ان کے کمرے سے باہر نکلا تو خالد مسعود چلے آتے تھے ۔ اس تپاک سے ملے گویا سالہا سال کی شناسائی ہے ۔ پانچ سات منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ساری کہانی کہہ دی : دو عدد رائفلیں میرے پاس ہیں۔ ایک شکار اور دوسری انقلاب کے لیے۔ مجھے شکار کا حوصلہ تھا اور نہ انقلاب کا مگر خالد مسعود کی شخصیت اور شاعری کا قتیل تھا، جو شاعری نہیں ہے ۔ خدا جانے کیا ہے مگر دل کو چھو لیتی ہے ۔ کبھی کبھی ازراہِ مزاح ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ کالم نگاری تو خیر ، مگر آپ کے کلا م کو شعر کیسے مان لیا جائے ۔ وہ ایک عجیب سی ہنسی ہنستے ہیں اور یہ کہتے ہیں : کس نے آپ سے کہا ہے کہ شاعر مجھے تسلیم کیجئے ۔ ایسے آدمی کا کوئی کیا کرے ؟ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے آخری ایام ۔ عید الفطر کے لیے مجھے رحیم یار خان جانا تھا ۔ ملتان میں ایک عمارت ہے ۔ شاہ رکن عالم کا مزار ۔ غالباً یہ 1989ء تھا ، جب پیرس میں آغا خان فائونڈیشن کے زیرِ اہتمام دنیا بھر کے منتخب ماہرینِ تعمیرات نے اسے تاریخِ انسانی کی جلیل ترین عمارتی تخلیق قرار دیا (تاج محل کو دوسری)۔ ایسی مسرّت مسافر کو ہوئی کہ بیان نہیں کر سکتا۔ 1982ء میں پہلی بار اسے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ بس سے رحیم یار خان جانا ہوتا تو ملتان میں رک جاتا۔ شام شاہ رکنِ عالم کے مزار کے باہر اور شب کسی سستے سے ہوٹل میں ۔ اب کی بار مگرخالد مسعود خان سے ملاقات کا قصد تھا ۔ سوال پوچھا تو امیر المومنین عمر فاروقِ اعظم کو سیّدنا علی ابن ابی طالب کرّم اللہ وجہہ نے بتایا تھا کہ آدمی آدمی کی طرف کیوں کھنچتا ہے ۔ روزِ ازل جو ایک دوسرے کے قریب پائے گئے ، اس دنیا میں بھی شناسائی کے وہی آرزومند ہوتے ہیں ۔ جو چیز مجھے حیران کیے رکھتی ، وہ اس کی ہولناک بے باکی تھی ۔ محبت بھی ، مروّت بھی مگر بے ساختگی ۔ صاحب! ایسی بے ساختگی!! سبزگلی میں اس کا گھر، میں نے بہت بعد میں دیکھا۔ جی ہاں، اس گلی کا نام Green Streetہے ۔ ہر گھر کے سامنے سبزہ ۔ میں حیران ہوا تو اس نے بتایا کہ ایک معاہدے کے تحت مکینوں نے خود سے بندوبست کیا ہے ۔ خود ہی تعمیر کی ، خود ہی مالی رکھے ۔ کچھ زیادہ خرچ نہ اٹھا اور چمن سا لہلہا گیا۔ ایک چمن اس کے گھر میں آباد تھا۔ ایسا کہ کہیں کم دیکھا۔ کل اسی کی کہانی اس نے لکھی اور رُلا دیا۔ کچھ حادثے ایسے ہیں کہ ہمیشہ تازہ ؎ پھر موجِ ہوا پیچاں‘ اے میرؔ نظر آئی شاید کہ بہار آئی ‘زنجیر نظر آئی ایک حادثہ میرے ساتھ مسلسل ہے ۔ جس دن میں یہ سوچتا ہوں کہ آج تو سارا درد اورتمام تجربہ نچوڑ دیا ، اسی دن کوئی ایسی تحریر کہ تمام پندار باطل ہو جاتاہے ۔ اکثر اظہار الحق ، کبھی رئوف کلاسرا اور آج خالد مسعود خان ۔ عبار ت آرائی نہیں ، یہ کچھ اور ہوتاہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا ؎ مصرع کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں شاعر بہت ہو گزرے مگر میرؔ سا کوئی نہ تھا۔پہلے بھی لکھ چکا ہوں، پروفیسر صاحب سے پوچھا: کشف المحجوب کتنی بار آپ نے پڑھی ہے ۔ جواب ملا: میں نے پڑھی نہیں ، مجھ پر بیت گئی ہے ۔ جس تن لاگے ، سو تن جانے ۔ ایک نکتہ ہے ، جو اقبالؔ نے بیان کیاتھا ؎ نغمہ ہے بلبلِ شوریدہ‘ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی عربی کے نادرِ روزگار شاعر زُہیر بن ابی سلمیٰ جانتے تھے کہ ایک سال سے پہلے کسی کو کبھی نہ سناتے ۔ میرؔ انیس مہینے بھر کے لیے غزل گھڑے میں ڈال دیتے ۔ مشتاق احمد یوسفی ،برسوں کے لیے۔ ہم اخبار نویس خیال پر اس طرح لپکتے ہیں ، جیسے بھوکا شکاری اپنے شکار پر ۔ ہمت نہیں پڑ رہی کہ جس عنوان پر خالد مسعود نے لکھا ہے ، اس کا ذکر کروں… بیگم خالد مسعود خان، جو ایک برس ہو تاہے ،ا س دنیاسے چلی گئیں اور اس طرح گئیں کہ بھُلائی نہ جا سکیں گی ۔ عرب شاعر نے کہا تھا اور سرکارؐ کے وصا ل کے بعد ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ اسے پڑھا کرتیں : جب سے اس دنیا سے گئے ہو، ہر قبر سے مجھے تمہاری قبر کی یاد آتی ہے ۔ اپنے میاں کے قریبی دوستوں سے بیگم خالد مسعود خان پردہ نہیں کرتی تھیں ۔ پہلی نظر ہی میں مگر احساس ہوتا کہ ایک مسلمان عورت ہوتی کیا ہے ۔ شائستگی ، شرافت، وقار، سلیقہ اور نسائیت۔ ماں ، بہن اور بیٹی! مشرق کی وہ بیٹی ، جس کا کبھی اعتراف نہ کیا گیا ۔ لڑکپن میں جو والدین او ر بہن بھائیوں کی خدمت کرتی ہے ، پھر شوہر ، پھر اپنے بچوں کی ۔ خدا کی قسم، یہ وہی ہے ، جس نے آج بھی اس سماج کو تھام رکھاہے ۔ خدا کی قسم ، ہم سب اس کے قرض دار ہیں اور ہماری گردنوں سے اس کے احسانات کا بوجھ کبھی نہ اترے گا۔ خالد مسعود خان کی حسّ مزاح کا حال تو یہ ہے کہ والدِ گرامی ہی عاجز آجاتے ۔ آداب ملحوظ رکھنے کی کوشش مگر پھل جھڑی پہ پھل جھڑی ۔ حد یہ ہے کہ مسجد الحرام کے دروازے پر دربان سے بحث کرتے پائے گئے : کرنسی نوٹ پر بادشاہ کی تصویر ہے اور تم مصوّر قمیض کے ساتھ مجھے اندر جانے سے روکتے ہو۔ اس پر آوارگی اور ایسی آوارگی۔ ع ایک چکر ہے میرے پائوں میں زنجیر نہیں ہر بار جب اس گھر میں ، میں قیام کرتا تو حیران ہوتا کہ کس ظرف کی خاتون ہیں ۔ محدود سے وسائل میں اس قدر سلیقہ مندی، کھانے کا ایسا اہتمام ، مہمان کی ایسی خوش دلی سے تواضع۔ آدمی ناشکرا ہے۔ جن چیزوں کو وہ کبھی نہیں سمجھ سکتا، ان میں سے ایک یہ ہے ۔ آدمی اپنے گھر ہی میں آسودہ رہ سکتاہے ۔ اپنے گھرکے سوا بھی مگر کچھ گھر ہوتے ہیں ، جنہیں دیکھ کر احساس ہوتاہے کہ اللہ کی رحمت ان پہ برستی ہے ۔ مگر سہل نہیں ہے ۔ ادراک اور احساس کے بغیر سہل نہیں ہے۔ شاعر نے بے سبب نہ کہا تھا ؎ میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتا ہوں، اس کو گھر کر دے آدمی کا المیہ یہ ہے کہ گھر اس کی زندگی سے رخصت ہوا۔ اپنے گھروں کو ہم نے مکان بنا دیا۔ آج خالد مسعود خان نے اپنے گھرکی کہانی لکھی تو یہ المیہ قلب وجگر میں جاگ اٹھا اور برپا ہے ۔ اپنے گمشدہ چین کو آدمی کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔گھر میں ہے ، وہ گھر میں ؎ اتنا بے سمت نہ ہو لوٹ کے گھر جانا ہے دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے اورکھڑی شریف کی مٹی اوڑھ کر سوئے ہوئے عارف میاں محمد بخش نے یہ کہا تھا ۔ لوئے لوئے بھر لے کڑیے جے تد بھانڈا بھرنا شام ہوئی، بن شام محمد، گھر جاندی نے ڈرنا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں