"HRC" (space) message & send to 7575

مایوس کا عربی ترجمہ ابلیس ہے

اور ایک آخری نکتہ یہ کہ گریہ و ماتم میں نہیں، ملک اور معاشرے کم از کم اتفاقِ رائے میں نمو پاتے ہیں ۔ سانحہ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی بحران جنم لے ۔ زندگی کو پروردگار نے آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی ۔ کتاب میں رقم ہے : ہم نے تمہیں پیدا کیا کہ آزمائیں ۔ فرمایا: خوف اور بھوک سے ،مال اور جانوں کے اتلاف سے اور باغوں کی بربادی سے ۔ المیہ یہ ہوتاہے کہ امتحان کی نوعیت کا ادراک نہ کیا جائے، یکسوئی برباد ہو جائے اور قبیلہ ہیجان اور مایوسی کا شکار ہو جائے۔ کیا ہم پر غلامی کی مصیبت آپڑی ہے ، 1947ء سے پہلے جس میں ہم مبتلا تھے۔ اس حال میں کہ معاشی طور پر تباہ حال تھے اور سیاست میں منقسم۔ جداگانہ الیکشن کے باوجود، جس میں مسلمان ووٹر کو مسلمان امیدوار کا انتخاب کرنا تھا ، قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ 1937ء کا الیکشن ہار گئی تھی ۔ صرف سندھ میں جیتی۔ پنجاب میں صرف دو امیدوار اور ان میں سے ایک حکمران یونینسٹ پارٹی سے جا ملا تھا۔ کیا ہم پر اس سے بڑی مصیبت آپڑی ہے ، 1945ء میں ختم ہونے والی دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جاپان ، جرمنی، کوریا اور اٹلی جس کا شکار تھے ۔ جاپان کے دو شہر ایٹم بموں سے اڑا دئیے گئے تھے۔ فاتح روس کے اکثر شہر برباد تھے ۔ جرمن جہازوں کی بمباری سے لندن شہر ملبے کا ڈھیر تھا۔ پھر کیا انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے اور کیا ان کے دانشوروں نے یہ کہا تھا کہ ملبے کے اس ڈھیر سے حیاتِ نو کا آغاز ممکن نہیں ؟ خدا کی بارگاہ میں مایوسی سب سے بڑا جرم ہے ۔ لاطینی امریکہ کے اس عہد ساز ادیب کا قول میں پھر دہراتا ہوں ’’غلطی نام کی کوئی چیز زندگی میں نہیں ہوتی ۔ بس سبق ہوتے ہیں۔ اگر سیکھنے سے ہم انکار کر دیں تو قدرت ہمارے لیے انہیں دہراتی ہے‘‘۔ کنفیوشس کے اس قول کا اکثر حوالہ دیا جاتاہے : تاریکی کو کوسنے سے بہتر ہے کہ ایک چراغ جلا دیا جائے ۔ ٹیگور نے یہ کہا تھا: پیدا ہونے والا ہر بچہ یہ پیغام لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ایک تنکا اٹھایا ۔ خاک پر بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں اور پھر ایک سیدھی لکیر۔ فرمایا: یہ ایک سیدھا راستہ ہے اور باقی بھٹکنے کے ۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ سے تقویٰ کا مفہوم پوچھا گیا تو ارشاد کیا: جھاڑیوں سے بھرے راستے پر ، اپنا ملبوس بچا کر چلتے رہنا۔ زندگی امتحان میں ڈالتی ہے اور کبھی بہت سخت امتحان میں ۔ جو بات اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے ، وہ یہ ہے کہ بحرانوں میںمواقع چھپے ہوتے ہیں۔ ان مواقع کو اگر شناخت کر لیا جائے تو نجات کی راہ کھلتی اور رفتہ رفتہ کشادہ ہو جاتی ہے ۔ ملوکیت اور غلامی کے مارے کسی بھی دوسرے معاشرے کی طرح ، ہمارے لیڈروں اور دانشوروں کا حال یہ ہے کہ خود ترحمی کا شکار ہیں ۔ فریاد بہت کرتے ہیں ، روتے پیٹتے زیادہ ہیں ، مسئلے کا حال تلاش کرنے کی کوشش کم ہی کرتے ہیں۔ زندگی کے آخری ایام میں اقبالؔ آزردہ رہا کرتے ۔ صحت ان کی ٹوٹ چکی تھی ۔ سانس کی تکلیف نے زندگی اجیرن کر دی تھی ۔ دوسرے عوارض اس کے علاوہ ۔ آواز بیٹھ گئی تھی ۔ بیشتر بستر پر لیٹے رہاکرتے ۔ علی بخش ، م-ش اور دوسرے خدام ان کے گرد موجود رہا کرتے ۔ کچھ دیر کے لیے چوہدری محمد حسین آتے، ڈاکٹر چغتائی اور حکیم صاحب کہ شاعر کو انگریزی دوائوں سے چڑ تھی۔ برسات میں کھمبیوں کی طرح اگ آنے والی جماعتوں کا ذکر بیزاری سے کرتے ۔ سب سے زیادہ قلق انہیں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے اس فتوے پر تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ۔ دیو بندی مکتبِ فکر کے علما سے ان کے مراسم خوشگوار تھے ، جمعیت علمائِ ہند کی سیاسی فکر سے البتہ شدید اختلاف ۔ نجد میں امام محمد بن عبدالوہاب کی تحریک سے اوّل اوّل حسنِ ظن تھا کہ بدعات و رسوم کے خلاف اٹھی تھی۔ ایک فرقے کی شکل اختیار کی تو رنجیدہ ہوئے اور رنجیدہ رہے۔ اکثر یہ فرمایا کرتے کہ سب تنظیموں کو قائد اعظم محمد علی جناح کے جھنڈے تلے مسلم لیگ میں شامل ہو جانا چاہیے۔ فرقہ پرستی کے شدید مخالف ، ذہنی طورپر قبائلی عہد میں زندگی کرنے پر مصر مولوی صاحبان سے نا خوش۔ مغرب سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ جدید تعلیم کے حامی تھے لیکن مغرب کے مرعوب فرزندوں پہ ترس کھاتے۔ عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے لیے علماء سے زیادہ دردمند۔ اقبالؔ کے مقامات بہت ہیں ۔ الگ الگ ہی ان پر بات کی جا سکتی ہے ؛با ایں ہمہ، امام غزالیؒکی طرح وہ ان صاحبانِ علم میں سے ایک تھے ، جو اپنے عہد میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ درد مندی ان میں بہت تھی ۔ شعر مبالغے سے پاک نہیں ہوتا۔ جذبات کو وہ بھی آواز دیتے مگر دانش کو ،سب سے بڑھ کر دانش کو۔ (Reconstruction of religious thoughts) اسی غیر معمولی غور وفکر کا نتیجہ ہے ،جو ان کے شب و روز کو محیط تھا ؎ اسی کشمکش میں گزریں، مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی عجیب بات یہ ہے کہ مسائل کی اس یلغار کے باوجود ، جس میں راہ سجھائی نہ دیتی تھی ، مایوس وہ کبھی نہ ہوئے ۔ اسلامیانِ برصغیر کے مستقبل پر سوال کیا جاتا تو تکیوں کا سہارا لے کر اٹھ بیٹھتے ۔ فرماتے : مجھے اس کے منوّر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ یاد رہے کہ پنجاب مسلم لیگ پر قائد اعظم کے فیصلوں سے انہیں اختلاف تھا ، آخر ی وقت تک باقی رہا ؎ نہ ہو نا امید، نو میدی زوالِ علم و عرفاں ہے امیدِ مردِ مومن ہے، خدا کے رازدانوں میں پنجاب مسلم لیگ پر قائد اعظم اور اقبالؔ کے اختلاف کی تفصیل عاشق حسین بٹالوی کی تصنیف ’’اقبالؔ کے آخری دو سال‘‘ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ بٹالوی ایک اور طرح کا کردار ہیں ۔ گھر والوں سے ناراض، عام لوگوں سے نا خوش، بالآخر خود اپنے وطن سے مایوس ۔ آدمی اچھے تھے بلکہ اجلے مگر اس راز کو نہ پا سکے کہ زندگی کو اللہ نے کشمکش اور تنوع میں پیدا کیا ہے اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ لیاقت علی خان اور ان کے ساتھیوں سے نالاں، آزادی کے بعد وہ لندن چلے گئے اور بالاخر وہیں جان ، جانِ آفریں کے سپرد کی۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ہاں کئی بار انہیں دیکھا۔سرتاپا سنجیدگی، سرتاپا نا خوشی! 1937ء کی المناک ناکامی کے باوجود پاکستان حاصل کر لیا گیا ۔ بے شمار خرابیوں کے باوجود اوّلین تیس برس تک اس کی شرحِ نمو بھارت سے اوسطاً دو گنا تھی ۔ پانچ کروڑ انسانوں کو ہڑپ کر جانے والی عالمی جنگ کے بعد برباد معاشرے از سرِ نو تعمیر ہوئے اور عظمتِ آدم کے خیرہ کن نمونے ہو گئے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ سوویت یونین ٹوٹا اور روس بکھرنے لگا۔ اب وہ تعمیرِنو کا استعارہ ہے ۔ 1981ء میں چین کی فی کس آمدن 180ڈالر فی کس اور ملائیشیا کی غالباً 50ڈالر تھی ۔ ترکی یورپ کا مردِ بیمار تھا اور لاچار وزبوں۔ وہ سب کے سب سدھر گئے، ہم کیوں سنور نہیں سکتے ؟ نعوذ باللہ، ہم کیا اللہ کی معتوب قوم ہیں ؟ خرابی ہمارے اندازِ فکر میں ہے ۔ خود ترحمی اور مایوسی ۔ یاد رہے کہ ابلیس کا لفظی ترجمہ ’’مایوس‘‘ ہے ۔ فرقہ پرست ملّا اور مغرب سے مرعوب ژولیدہ فکر دانشوروں کی مت سنیے۔ خود اپنے ذہن سے سوچیے۔ فقط اس ایک نکتے پر غور کیجئے کہ اگر 2013ء کے الیکشن میں تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے ابھرنے والے لاکھوں نوجوان جذبۂ تعمیر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو انشاء اللہ انقلاب برپا ہو سکتاہے اور ایک آخری نکتہ یہ کہ گریہ و ماتم میں نہیں ، ملک اور معاشرے کم از کم اتفاقِ رائے میں نمو پاتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں