سچ کہا تھا ، شاعر نے سچ کہا تھا ؎
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
جنون اور جذباتیت تو ہرگز کوئی اثاثہ نہیں مگر زمینی حقائق کے نام پر بے غیرتی کا درس دینے اور خودی سے دستبرداری کی تلقین کا مطلب کیا ہے ؟
درویش نے تسبیح کے سیاہ دانوں پر سے سر اٹھایا اور یہ کہا ''مسلمان کے لیے احمق ہونا ضروری نہیں‘‘ ان قندیلوں کی طرف اشارہ کیا جو رسالت کے 23سالہ سفر میں قدم قدم پر روشن ہیں ۔ حیرت کے ساتھ طالبِ علم نے سوچا کہ فتح مکّہ سے پہلے سرکارؐ نے کس عرق ریزی کے ساتھ منصوبہ بندی کی ہوگی؟ مزاحمت تو دور کی بات ہے ، مدینہ منوّرہ سے مکّہ مکرمہ تک 450کلومیٹر کے سفر میں دس ہزار قدوسیوں کے وجود کا انکشاف تک نہ ہو سکا۔
ہمّتیں جب ڈھے پڑتی ہیں تو عقلیں بھی گم ہو جاتی ہیں ۔ ہوش مندی رخصت ہوتی اور بیچارگی اس کی جگہ لیتی ہے ؎
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
ایران امریکہ معاہدے سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ اب انہی قوموں کے لیے زندہ رہنے کے امکانات ہیں ، جو استعمار کے مقابل سجدہ ریز ہو جائیں ؟ ایرانیوں نے امریکہ سے غیر ضروری محاذآرائی کی اور نعرہ بازی کو شعار کیا۔ وہ ایک تاریخی غلطی کے مرتکب ہوئے۔ وہ تنہا ہو تے گئے۔ اس لیے بھی کہ عربوں سے انہوں نے مخاصمت اختیار کی۔ بدترین لمحہ وہ تھا، جب ایران عراق جنگ کے ہنگام سعودی عرب نے تاوانِ جنگ ادا کرنے کی پیشکش کی مگر امام خمینی نے انکار کر دیا۔ اس جنگ سے عراق اور ایران کی معیشتوں کو دو ہزار بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان برباد ہو کر رہ گئے۔ اس محاذ آرائی کا فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچا کہ تصادم کی ایک جہت سنّی شیعہ اختلاف بھی تھا۔ خود پاکستان کے لیے بھی وہ تباہی کا باعث بنا کہ دوست ممالک نے اس کی آڑ میں مسلّح لشکروں کی سرپرستی کی۔ بغض و عناد کے ایسے جنگل اُگے ، جن کی جڑیں کاٹنے کے لیے سالہا سال کی مخلصانہ جدوجہد درکار ہوگی ۔
اس میں ہرگز کوئی کلا م نہیں کہ پاکستان تہہ در تہہ بحرانوں کا شکار ہے ۔ امن وامان کی حالت دگرگوں ہے ۔ معیشت بیمار کہ سرمایہ مسلسل فرار کی راہ پر ہے ۔ دہشت گردی کہ اس پر کوئی قومی پالیسی نہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور گروہ بندی ، ساری قومی توانائی جس میں رائگاں ہو جاتی ہے ۔ حکمران طبقہ بدعنوان ہے اور اس قدر بدعنوان کہ خدا کی پناہ۔عمران خان کا الزام ہے کہ میاں محمد نواز شریف سری لنکامیں شوگر مل پہ سرمایہ کاری فرمارہے ہیں ۔ برسوں سے ہم چیخ رہے ہیں کہ ملک کے اہم لیڈروں کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہے ۔ خود وزیرِ خزانہ کا بیشتر کاروبار سمندر پار ہے۔ کیا یہ خود اپنے ملک پہ اظہارِ عدم اعتماد نہیں اور کیا وہ خود ''سکیورٹی رسک‘‘ نہیں بن گئے؟
تین سال پیشتر وزیراعظم کا انکم ٹیکس صرف پانچ ہزار روپے تھا۔ عمران خاں نے و اویلا کیا تو یہ رقم بڑھ کر اٹھارہ لاکھ ہو گئی ۔ پرویز رشید کا استدلال یہ تھا کہ میاں صاحب کے نام پر کوئی کاروباری ادارہ ہی نہیں ۔ ٹیکس وہ کہاں سے ادا کریں ۔ پھر یہ رقم پانچ ہزار سے اٹھارہ لاکھ کیسے ہو گئی ؟ غضب خدا کا، جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں محصولات کی شرح 16فیصد تھی ، بھارت کے برابر ۔ گرتے گرتے یہ آٹھ فیصد ہوئی ، اب نو فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ سال بھر سے اخبار نویس شور مچا رہے ہیں کہ ایف بی آر نے جو 32لاکھ نادہندگان شناخت کیے ہیں، ان سے وصولی کی ابتدا کیوں نہیں کی جاتی ؟ کیا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ زمینی حقائق نے استعمار کے سامنے گڑگڑانے کے سوا سب راستے بند کر دئیے ہیں ۔ ماہرینِ معیشت کب سے فریاد کر رہے ہیں کہ امن کی بحالی ، نگرانی کے نظام اور قوانین کی بہتری سے سرمایے کے فرار کو روکا جائے۔ ٹیکس کی پوری ادائیگی ہو تو غیر ملکی قرضے کی ضرورت برائے نام رہ جائے گی۔
پھر معیشت کے دوسرے آفاق ہیں ۔ کم از کم دو ہزار بلین ڈالر کا سونا ملک میں موجود ہے ۔ صرف ایک امریکی کمپنی 150بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ ہے ۔ دوسری قیمتی معدنیات اس کے سوا ہیں ۔دیر پا منصوبہ بندی سے آئی ٹی اور قیمتی پتھروں کے شعبے میں ایک عشرے کے اندر بیس بلین ڈالر سالانہ کی آمدن ممکن ہے ۔ زراعت کے نامور ماہر ڈاکٹر ظفر الطاف یہ کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے فی ایکڑ خرچ کر کے پانی کا استعمال 90فیصد کم ہو سکتاہے ۔ نو گنا مزید رقبہ زیرِ کاشت لایا جا سکتاہے ۔ ملک کی افرادی قوت دنیا بھر میں بہترین تسلیم کی جاتی ہے ۔ منصوبہ بندی مگر برائے نام بھی نہیں ۔ شعبدہ بازی ہے ، فقط شعبدہ بازی۔
کوئی منظم سیاسی پارٹی نہیں ۔ ایک فرد ہے یا ایک خاندان اور پوری جماعت اس کی جیب میں پڑی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کی صحت کا عالم یہ ہے کہ مسلسل ان کا وزن بڑھ رہا ہے ۔ شدید ڈپریشن کی وجہ سے وہ پُرخوری کے عادی ہو گئے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات یکسوئی کھو بیٹھتے ہیں اور یادداشت ان کی مدد نہیں کرتی۔ صدر اوباما کے سامنے، اسی لیے وہ لکھی ہوئی عبارت پڑھتے رہے ۔ اسی لیے ملک کا موقف بیان کرنے کی بجائے امریکی آموختہ پڑھا کہ ہمیں اپنا گھر سنوارنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کرے ، یہ اطلاع غلط ہو، بہت دنوں سے مگر چرچا یہ ہے کہ میاں محمد شہبازشریف بھی ایک موذی مرض کا شکار ہیں ۔ اسی لیے بتدریج وہ حمزہ شہباز کے حق میں دستبردار ہوتے جار ہے ہیں ۔ ڈاکٹر توقیر ان کے مددگار ہیں ۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا حال یہ ہے کہ ہر ڈیڑھ ماہ بعد وہ اپنا پرسنل سیکرٹری اور تعلقاتِ عامہ کا افسر بدل ڈالتے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابوسے باہر ہو چکا۔ سرتاج عزیز تو بوڑھے آدمی ہیں ، اس لیے ان کی بیماری قابلِ فہم ہے مگر زاہد و متقی وزیرِ خزانہ کا دل بھی قابو میں نہیں ۔ زرداری صاحب کی حالت ان سے بھی بدتر ہے ۔ ڈیمنیشیا ہی نہیں، بائی پولر کے مریض بھی ہیں ۔ دل اور ذیابیطس کے بھی ۔ یہی حال جناب الطاف حسین کا ہے ۔ کالم نگار کی مت مانیے ، نفسیات کے ماہرین سے پوچھیے کہ امراض خوف اور بے یقینی سے بڑھتے ہیں ۔ تضادات سے نشو ونما پاتے ہیں ۔
سچ پوچھیے تو پورا معاشرہ ہی بیمار ہے ۔ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار۔ ہیجان اور جذباتیت ہے یا خود سپردگی ۔ کس احمق نے کہا کہ حکمت بے حمیتی کا تقاضا کرتی ہے ؟ بلکہ جذباتی توازن ، ہوش مندی اور سوچ سمجھ کر خطرات مول لینے کا۔ دنیا کی کون سی قوم ہے ، جس نے سپر انداز ہو کر ترقی کے مراحل طے کیے ہوں ؟ چین نے ؟ روس نے ؟ ترکی اور ملائشیا نے؟ ریاضت ، تحمل اور منصوبہ بندی کا بدل بے غیرتی کیسے ہو گئی ؟ دشمن کے سامنے سرجھکا کر کیا کبھی امن جیتا جا سکا؟ اعتدال چاہیے، ہم آہنگی اور قومی اتفاقِ رائے۔ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی بجائے اس کی امداد اور اصلاح ۔ کتاب کہتی ہے ''و امرھم شورٰی بینٰہم‘‘ ان کے معاملات باہم مشاورت سے طے پاتے ہیں ۔ کسی نے بے حمیتی کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو اس کی مرضی ۔ دوسروں کو مگر یہ مشورہ کیوں؟ ہمارے سامنے مشعلیں فروزاں ہیں ، اللہ کی کتاب، اللہ کے رسولؐ اور تاریخ کے چراغاں۔ اہلِ عزم کے طفیل ، امید کے طفیل۔ اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ۔ سچ کہا تھا ، شاعر نے سچ کہا تھا ؎
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی