توکّل‘ قائداعظمؒ کا اعجاز توکّل تھا۔ اوّل و آخر انہوں نے اپنے مالک پہ بھروسہ کیا اور وہ کارنامہ انجام دیا‘ ہمیشہ جس پہ حیرت کی جاتی رہے گی۔
ابدالآباد کے لیے‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوئی نمونۂ عمل نہیں‘ رحمتہ للعالمینؐ کے سوا اور اس پر قرآن کریم کی شہادت موجود ہے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اُسوۃ حَسَنہ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا۔ رسول اکرمؐ کا طرزِ کردار کیا تھا۔ فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ تیرہ سو برس گزر چکے تو اپنے زمان کے علمی مجدد نے یہ کہا۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول‘ وہی آخر
وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یٰسیں‘ وہی طٰہٰ
چودہ سو برس میں کتنی بے شمار نعت‘ قصیدہ بردہ سمیت جس نے مدحت کا اسلوب متعین کیا۔ کتنے بے شمار قصائد۔ اقبال کی بات مگر دوسری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شعر اس نے لکھا نہیں‘ اس پہ اُترا ہے۔ ایچی سن کالج کے انگریز پرنسپل نے ان سے پوچھا: کیا آپ بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم لفظاً لفظاً نازل ہوا تھا؟ فرمایا: قرآن مجید کیا‘ مجھ پہ پورا شعر اترتا ہے۔ معروف ہے کہ سرکارؐ کا ذکر ہوتا تو کبھی آنکھیں بھر آتیں۔ کہا تو یہ کہا:
وہ دانائے سُبل‘ ختم الرسل‘ مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
درویش نے کہا تھا: دو چیزیں شمار نہیں کی جا سکتیں۔ ایک تو نفس کے فریب اور دوسرے مصطفی کے مقامات۔ اصحابِ رسول کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: رضی اللہ عنھم ورضوعنہ۔ ''اللہ ان سے راضی‘ وہ اللہ سے راضی‘‘۔ بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں‘ ایسا افضل گروہ کبھی نہ اٹھا۔ اللہ کے رسولؐ کی گواہی موجود ہے: میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں‘ ان میں سے‘ جس کسی کی پیروی کرو گے‘ نجات پائو گے... نجات!
با ایں ہمہ اصحابِؓ رسولؐ کو بھی کامل نمونۂ عمل نہ کہا گیا۔ کبھی کوئی نہ ہوگا۔ امیر المومنین ہارون الرشید کے عہد میں ایک کے بعد دوسرا جھوٹا نبی اٹھا۔ مامون کے دور میں یہ فصل اور بھی فراوانی سے اُگی۔ تین چار سو برس پہلے عالمِ اسلام کے زوال کا آغاز ہوا تو ایک کے بعد دوسرا مہدی اور ایک کے بعد دوسرا مجدد نمودار ہوا۔ خاص طور سے‘ برصغیر میں۔ ان میں سے ہر ایک کو امت نے مسترد کردیا۔ سرخرو اگر ہوئے تو اقبال اور محمد علی جناح‘ جنہیں قائداعظمؒ مان لیا گیا۔ 1945-46ء کے انتخابات میں 75.5 فیصد ووٹروں نے ان کی حمایت کی۔ مسلمانوں کے لیے مختص 93 سیٹوں میں سے 87 مسلم لیگ نے جیت لیں۔
غالباً یہ شملہ شہر تھا‘ جہاں ان کے لیے کسی نے مولانا محمد علی کا نعرہ لگوایا۔ آپ نے منع کردیا۔ پھر ایک سے زیادہ مواقع پر وضاحت کی: میں کوئی روحانی لیڈر نہیں‘ مذہبی پیشوا نہیں۔ یہ بھی ارشاد کیا: میں تمہارا وکیل ہوں‘ مسلم برصغیر کا۔ ایک بار ارشاد کیا: تمہارے ایما پر‘ تمہارے لیے میں شطرنج کھیلتا ہوں‘ سیاست کی شطرنج۔
اقبال مسلمانوں کے فکری رہنما تھے۔ ان کے گرامی قدر والد نے کہا تھا: میری تمنا ہے کہ تم اپنی زندگی اسلام اور مسلمانوں کے لیے وقف کردو۔ بستر مرگ پر پوچھا گیا تو انہوں نے گواہی دی کہ ان کے فرزند نے اپنا عہد پورا کیا۔ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کردیا۔
جناح مختلف تھے۔ عمر بھر اسلام کی خدمت کا انہوں نے کبھی دعویٰ نہ کیا بلکہ یہ آرزو پالی کہ مسلم برصغیر کو ادبار سے نجات دلانے کے لیے اپنی ساری توانائی مختص کردیں۔ تحقیق سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ تب وہ ٹی بی کے مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے تھے یا نہیں۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ یہ 1937ء تھا۔ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: دنیا بھر کی نعمتیں میں دیکھ چکا۔ اب فقط ایک آرزو ہے‘ جب اس دنیا سے اٹھوں تو میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح‘ مسلمانوں کی خدمت کا تم نے حق ادا کردیا۔ پھر یہی بات علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وہی مشہور تقریر‘ جب یہ جملہ کہا تھا: جب آدمی کے دن پھرتے ہیں تو امیر رشتہ دار اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔ پنڈت نہرو نے پھبتی کسی کہ آخر عمر میں انہیں پذیرائی ملی۔ بالواسطہ یہ کہا کہ وہ نمود اور غلبے کے آرزو مند ہیں۔ بدگمانی! علی گڑھ یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف لا کی اعزازی ڈگری پیش کرنے کی استدعا کی تو فرمایا: میں ایک عام آدمی کی موت مرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش یہ ہے کہ مجھے صرف محمد علی کے نام سے یاد رکھا جائے۔ سینکڑوں تقاریر موجود ہیں۔ خود ستائی کا ایک جملہ بھی نہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے سچ کہا تھا: وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔
پروفیسر شریف المجاہد‘ ڈاکٹر صفدر محمود اور منیر احمد منیر کو بات کرنے کا حق زیادہ ہے۔ یہ ناچیز بھی مگر ان کی زندگی پہ غور کرتا رہا۔ اسی نے عرض کیا تھا کہ پوری زندگی سیکولرازم کی اصطلاح انہوں نے کبھی استعمال نہ کی۔ یہ بھی کہ ان کی پوری حیات میں خیانت‘ وعدہ شکنی اور غلط بیانی کا ایک واقعہ بھی نہیں۔ اقبال نے کہا تھا: وہ آدمی جو کبھی کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا۔
محمد علی جوہر شاعر بھی تھے۔ کہا ؎
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
کیا یہ شعر قائداعظمؒ پہ صادق نہیں آتا؟
بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حیرت انگیز سیاسی بصیرت کے حامل تھے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال ایسا عبقری ہی نہیں‘ محمد علی جوہر اور نواب بہادر یار جنگ ایسے‘ کبھی رو رعایت نہ کرنے والوں نے ان کی قیادت قبول کی۔ ان سے امید باندھی۔
قائداعظمؒ کا سب سے بڑا وصف کیا تھا۔ ان کی غیر معمولی دیانت‘ بے پناہ عزم یا حیرت انگیز سیاسی مہارت؟ میرا خیال ہے کہ ان سب سے بڑھ کر ان کا توکّل۔ غور کیجیے تو تین پہلو حیرت زدہ کرتے ہیں۔ بہت یکسو (Focused) وہ یقینا تھے مگر دوسرے بھی ہو گزرے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کی ذہانت اور توجہ ہمہ وقت بروئے کار رہتی۔ جسمانی انحطاط اور بڑھاپے کے باوجود‘ ثانیاً عمر بھر مقبولیت کی آرزو‘ انہوں نے کبھی نہ پالی۔ کبھی کوئی معمولی حرکت بھی ایسی نہ کی‘ جس میں پذیرائی کی آرزو پوشیدہ ہو۔ ثالثاً کبھی کسی شخص سے وہ مرعوب نہ ہوئے۔ لارڈ ویول نے انہیں ہندوستان کا لیفٹیننٹ گورنر‘ باالفاظ دیگر وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی تو نہ صرف ٹکا سا جواب دیا بلکہ ناراض ہو کر اٹھے اور پھر کبھی ان کے دفتر نہ گئے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا تھا: بہت ہی سرد مہر تھے‘ بخدا بہت ہی سرد مہر۔ "He was cold, my GOD, he was so cold".
ایک آدھ نہیں‘ کتنے ہی سیاسی کارکنوں اور لیڈروں سے عرض کیا کہ سیاست سیکھنی ہو تو اس آدمی کی زندگی کا مطالعہ کرو۔ کوئی نہیں کرتا۔ بعض تو مانتے ہی نہیں۔ جو مانتے ہیں‘ وہ بھی نہیں۔
تین سو سال کی جدید سیاسی تاریخ نے قائداعظمؒ سے بڑا کوئی سیاستدان پیدا نہیں کیا۔ ملال اس پہ ہوتا ہے کہ ان کی قوم کو ادراک ہی نہیں۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
توکّل‘ قائداعظمؒ کا اعجاز توکّل تھا۔ اوّل و آخر انہوں نے اپنے مالک پہ بھروسہ کیا اور وہ کارنامہ انجام دیا‘ ہمیشہ جس پہ حیرت کی جاتی رہے گی۔