مذہب سے ہاتھ اٹھا لیا گیا تو یہ ملک باقی نہ رہے گا۔ ہندو انتہا پسندوں کی چیرہ دستی رہ جائے گی۔ کشمیر کی طرح‘ الہ آباد کی طرح۔ سپین کی طرح۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
قوم مذہب سے ہے‘ مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
صدمہ ہوا۔ دانشور نے فرمایا: مذہب سے نجات پائے بغیر ترقی و کامرانی ممکن ہی نہیں۔ ملک کے فکری مصور نے تو یہاں تک کہہ دیا۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو خسارہ
پروردگار نے قسم کھائی تھی۔ والقلم وما یسطرون۔ قسم ہے‘ قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔ انہیں کیا ہوا کہ اپنے مقام اور منصب کا احساس ہی نہیں۔ غورو فکر ہی نہیں۔ نام نہاد مذہبی طبقات کے کردار اور مذہبی تعلیمات میں وہ کیوں امتیاز نہیں کرتے۔
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا
1895ء میں پہلی بار سیکولرازم کی اصطلاح ہولی اوک نے برتی۔ ایک پادری‘ پوپ نے‘ جسے انجیل کا ایک قابلِ قبول ایڈیشن مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ ریاضت کے مہ و سال کے بعد اس نے معذرت کر لی کہ یہ ممکن ہی نہیں۔ جیل میں وہ ڈال دیا گیا۔ چنانچہ نفرت اور ردعمل کا شکار ہوا۔ کارل مارکس کی طرح کہ سرمایہ دارانہ سفاکی نے‘ یکسر غیر فطری نظام پر آمادہ کیا۔ ہولی اوک نے قرار دیا کہ دوسری دنیا کے تصور سے نجات پائے بغیر فروغ ممکن نہیں۔ اس نے لکھا: اللہ کو ماننے والا کوئی شخص سچا سیکولر نہ ہوگا۔
مرعوبیت‘ ہولناک مرعوبیت۔ مغربی تہذیب کی یلغار سے خوف زدہ لوگ۔ الحاد کی تحریکوں کے زیر اثر یہ تصور گہرا ہوتا گیا کہ
مذہب کو الوداع کہے بغیر مسلمان معاشروں پر ظفر مندی کا دروازہ نہ کھلے گا۔ حال ہی میں کسی نے جنرل کیانی سے مایوسی کا اظہار کیا۔ کاکول میں کیونکر انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ کہا‘ انہوں نے یہ تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پہ رکھی گئی۔ کیا یہ غلط تھا؟ کیا پاکستان کی بنیاد اسلام پر نہ رکھی گئی؟ کیا قائداعظم نے یہ ارشاد نہ کیا تھا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا‘ جب برصغیر کا پہلا باشندہ مسلمان ہوا۔ کیا یہ نہ فرمایا تھا کہ ہندو اور مسلم دونوں اقوام کے ہیرو مختلف ہیں۔ ان کے ہیرو ہمارے ولن اور ہمارے ہیرو ان کے لیے قابل نفرین۔ خلق خدا سے پوچھ لیجیے کیا ہم محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان کے وارث نہیں؟
ٹیپو سلطان برصغیر کی تاریخ کا شاید سب سے بہتر مسلمان حاکم تھا۔ رعایا کی غیر مسلم اکثریت اس پہ فدا تھی۔ عدالتی نظام بہترین‘ حالتِ جنگ میں نہروں کی کھدائی‘ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے منصوبے۔
عہدِ اولین کے بعد صلاح الدین ایوبی کو بہترین مسلمان بادشاہ مانا جاتا ہے۔ سات سو سال بیت چکے اور آج بھی مغرب اس کا اعتراف کرتا ہے۔ کرد قبیلے سے تعلق رکھنے والا نرم خو‘ فراخ دست اور بہادر سالار جوانی میں دوسروں سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ ہیرالڈلیم کی مانی جائے تو بادہ نوشی بھی گوارا کرتا۔ صلیبوں کی یلغار سے گھبرائی ہوئی مصر کی فاطمی سلطنت منہدم ہو چلی تھی ۔ حکمران فرار پہ آمادہ تھے۔ سلطان نور الدین زنگی کے حکم پر اس نے قاہرہ کے دروازے پر دستک دی۔ شہر کے باہر شب بھر اس نے پڑائو کیا۔ اپنی عسکری شوکت کے وفور سے لبریز لشکری شہر پہ چڑھ دوڑنے کو بے تاب تھے۔ رات بھر سلطان جاگتا رہا۔ کہا تو یہ کہا: مسلمانوں پہ حکومت کرنا سہل نہیں۔ ذمہ داری کے بوجھ سے پریشان‘ آخر اس نے بادہ نوشی ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس طرح ظہیر الدین بابر نے کنواہ کی معرکہ آرائی کے ہنگام۔
دوسروں نے جب محلات پر قبضہ جمایا تو سلطان نے قدرے چھوٹی حویلی پر۔ سحردم اسے مسجد میں دیکھا جاتا۔ پھر وہ پھلوں کا ناشتہ کرتا۔ اس کے بعد فوجی پریڈ کے لیے کھلے میدان کا رخ۔ مدتوں کے بعد دنیا نے ایک سچے مسلمان حاکم کو دیکھا۔ سرکاری خزانے سے کبھی ایک سکہ بھی اس نے قبول نہ کیا۔ ایک بہت ہی سادہ زندگی، پیہم جہاد اور رعایا پروری۔ عکّہ شہر کے باہر اس کی فوج تھی، سمندرپہ صلیبوں کا راج اور شہر محاصرے میں۔ ایک عیسائی عورت کا بچہ کھو گیا تو تڑپتی ہوئی وہ سلطان کے دربار میں پہنچی۔
وقائع نگار نے لکھا ہے کہ فوج پھیلادی گئی اور ہر کارے ہر سمت دوڑائے گئے ، حتیٰ کہ وہ ڈھونڈ لایا گیا۔ ماں‘ فرط مسرت سے روتی اور سلطان کی مدح کرتی رہی۔ شرمیلے آدمی نے کہا: یہ تو میرا فرض تھا۔ حالتِ جنگ میں برطانوی فوج کا سالار رچرڈ شیردل بیمار ہوا تو بادشاہ نے اپنا معالج بھیجا۔ آخری جنگ وہ ہار گئے تو انہیں امان دی۔ یروشلم کی زیارت کا موقع دیا۔ فقط دس دینار فی کس کے عوض ، سب غیر مسلم رہا کردیے گئے۔ جو ادا نہ کرسکے ان کا فدیہ خود سلطان نے دیا اور اس کے ساتھیوں نے ۔یہ تھی اسلامی حکومت۔
پاپائیت؟ تھیوکریسی ؟ مذہبی لوگوں کی حکومت ؟افغانستان یا ایران کی طرح ؟ اسمٰعیل صفوی کی مانند، 1857ء میں لکھنئو کی شیعہ آبادی پہ چڑھ دوڑنے والے علماء کی طرح ؟ انیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے کی پشتون پٹی میں سید احمد شہید اور سید اسمعٰیل شہید کی سپاہ کا طرز عمل بیوہ عورتوں کی انہوں نے جبراً شادیاں کیں اور حقہ پینے والوں پر کوڑے برسائے۔ جی نہیں ، ہرگز نہیں۔ وہ کتنے ہی پارسا رہے ہوں۔ ان کا انداز حکومت سرکارؐ مدینہ کے مطابق نہ تھا۔ خلافت راشدہ میں ہزاروں غیر مسلم غلام‘ شہر نبیؐ میں آسودہ تھے۔ کبھی ان میں سے کسی کو ضرر پہنچا، حتیٰ کہ ان میں سے ایک کے ہاتھوں فاروق اعظم ؓ کی شہادت کے بعد بھی؟ یاد رہے کہ عہد فاروقی میں دس ہزار یہودی مسلم افواج میں شامل تھے اور بہت سے سندھی بھی، جن میں جاٹوں کی اکثریت تھی؛چنانچہ عرب انہیں ''زت‘‘ کہا کرتے۔
ایک ہندو اخبار نویس نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کی حکومت پاپائیت ہوگی۔ قائداعظم نے کراہت کے ساتھ کہا یہ ایک مضحکہ خیز مفروضہ ہے۔ یہ ایک جمہوری اقتدار ہوگا۔ '' ماڈرن مسلم سٹیٹ ‘‘ وہ کہا کرتے ، اسلامی جمہوری ، فلاحی ریاست آج کے ملائشیا کی مانند، ترکوں کی طرح۔ استعماری پروپیگنڈے سے مسحور‘ ان کی پھیلائی این جی اوز کے تنخواہ دار کارندوں کی تبلیغ سے متاثر پاکستانی دانشور کیا کسی اتاترک کے آرزو مند ہیں۔ قرآن کریم اور عربی زبان کی تعلیم پر جو پابندیاں لگادے؟مساجد سے اذان کی آواز بلند نہ ہوسکے؟ مسلمان عورتیں اپنے سر نہ ڈھانپ سکیں؟ اپنی قبروں میں ایران کے رضا شاہ پہلوی‘ افغانستان کے امان اللہ خان اور مصطفیٰ کمال اتاترک ناکام سور ہے ہیں۔قائداعظم سرخرو ہیں۔ اقلیت کو ان پہ ایسا اعتماد تھا کہ کتنے ہی پارسی ان کی خواہش پر ممبئی سے کراچی آئے۔ پنجاب اور یوپی ، سی پی میں بڑے پیمانے کا ہندو مسلم فساد ہوا تو دارالحکومت کراچی تک اثرات پہنچے۔قائداعظم اس شب بہت بے چین رہے۔ کئی ہندو زعما سے انہوں نے خود بات کی۔ ایک شودر اور پھر ایک قادیانی کو انہوں نے اپنی کابینہ میں شامل کیاتھا۔
زیادہ خوفناک حادثے مغرب میں برپا ہوئے۔ مختلف فرقوں کے لوگ جہاں ایک دوسرے کو زندہ جلایا کرتے۔ یہودیوں کو لوٹا۔ ہٹلر نے ان کا قتلِ عام کیا۔ آسٹریلیا اور امریکہ کے 6کروڑ سے زیادہ قدیم باشندوں کو یورپ والوں نے تہہِ تیغ کیا۔ عالم اسلام میں یہودی اور عیسائی محفوظ رہے۔
المیہ یہ ہے کہ دو سب سے اہم اداروں کو ہم نے ادنیٰ لوگوں پہ چھوڑ دیا۔ مذہب کو ملّااور سیاست کو شعبدہ کاروں پر۔ ہر معاشرے میں مذہبی انتہا پسند ابھرتے ہیں ، مذہبی ہی نہیں شورش پسند لسانی۔ علاقہ پرست اور نسلی تقاخر کے مارے گروہ بھی۔ کیا معاشرتی امراض اور فکری مغالطوں کا علاج علم سے ممکن ہے یا اللہ اور اس کے رسولؐ کو تیاگ دینے سے؟
مذہب سے ہاتھ اٹھا لیا گیا تو یہ ملک باقی نہ رہے گا۔ ہندو انتہا پسندوں کی چیرہ دستی رہ جائے گی۔ کشمیر کی طرح‘ الہ آباد کی طرح۔ سپین کی طرح۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
قوم مذہب سے ہے‘ مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں