"HRC" (space) message & send to 7575

مرعوبیت

ایک استعمار سے مرعوب اور ایک فرقہ پرست مولوی سے۔ جدید زندگی کیا‘ جو مذہب سے آشنا بھی نہیں۔ اقبال نے سچ کہا‘ فرانزز فینن نے سچ کہا‘ غلامی عقل و خرد کو چاٹ جاتی ہے۔ 
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر 
سچی بات تو یہ ہے کہ میں دنگ رہ گیا‘ جب میرے محترم دوست نے جوابی دلائل پیش کیے۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ انٹیلی جنس کے ذریعے قابلِ اعتماد اطلاعات کے بعد حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی۔ وہ سب کے سب مار ڈالے گئے اور خوش قسمتی سے‘ کوئی شہری زد میں نہ آیا۔ وہ ازبک تھے‘ انتہا پسند اور کرایے کے کارندے۔ یہ گزارش بھی کہ جمعرات کو اعلیٰ سول اور فوجی قیادت کے اجلاس میں بڑے پیمانے کی کارروائی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ مکالمے کو ابھی ایک موقع دیا جائے گا۔ جو بات کرنا چاہتے ہیں‘ ان سے بات کی جائے گی؛ البتہ جو مذاکرات پر آمادہ نہیں‘ ظاہر ہے کہ ان کے خلاف اقدام کرنا پڑے گا۔ 
جواب میں‘ ششدر کر دینے والے‘ دلائل سے واسطہ پڑا۔ اوّل یہ کہ جہازوں کے ذریعے‘ ایسی کارروائی ممکن ہی نہیں‘ جس کی بنیاد انٹیلی جنس کی فراہم کردہ معلومات ہوں۔ ثانیاً یہ اقدام امریکہ کی خواہش پر ہوا‘ جسے اپنا سامانِ جنگ افغانستان سے واپس لے جانا ہے۔ ثالثاً یہ طالبان کی کامیابی ہے کہ وہ ایسے سردسفاک موسم میں‘ پاک فوج جس کی خوگر نہیں‘ خطرناک علاقوں میں اسے کھینچ لے گئے ہیں۔ 
میں ہکا بکا رہ گیا‘ بلکہ عزیزی کے بقول‘ پہلے ہکا اور پھر بکا۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر فضا سے بمباری کیوں ممکن نہیں؟ دہشت گردوں کے ٹھکانے بلندیوں پہ اگر الگ تھلگ ہوں تو کیوں وہ 
زد میں نہیں آ سکتے؟ رہی امریکی انخلا کی بات اور واشنگٹن سے موصول ہونے والے احکامات‘ تو یہی فوج ہے‘ جس نے سات ماہ تک افغانستان کے لیے سپلائی کو روکے رکھا۔ یہ بھی ہے کہ اگر ہم انکل سام کو سامانِ جنگ سمندر تک پہنچانے کے لیے‘ پاکستانی سڑکیں استعمال نہ کرنے دیں تو وہ شمال میں وسطی ایشیا کی راہ لے گا۔ اخراجات زیادہ ضرور ہوں گے مگر کتنے زیادہ؟ دو تین بلین ڈالر۔ امریکی بجٹ میں اس رقم کی اہمیت کیا ہے؟ ہم کس قدر دانا ہیں کہ امریکہ واپس جانا چاہے تو رکاوٹیں کھڑی کریں۔ رہا پاک فوج کو شمالی وزیرستان میں کھینچ لے جانے کا دعویٰ تو سرے سے ایک مفروضہ ہے۔ فوج نے فیصلہ کیا ہی نہیں‘ یہ سول حکومت کو کرنا ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ عسکری قیادت اپنی مرضی سے ہرگز اقدام نہ کرے گی‘ نہ صرف حکومت بلکہ اسے عوامی تائید کی ضرورت ہے۔ جنگ عوام کی پشت پناہی سے لڑی جاتی ہے۔ پھر طالبان اتنے بڑے حکمت کار کیسے ہو گئے کہ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک کو‘ اپنی پسند کے وقت پر‘ اپنی مرضی کے میدانِ جنگ میں لے جائیں۔ 
اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے کہا کہ چل پھر کے دکھا۔ پھر اس پہ ناز فرمایا اور یہ ارشاد کیا کہ کسی کو جو کچھ بھی دوں گا‘ تیرے طفیل دوں گا اور جو بھی لوں گا‘ تیری وجہ سے لوں گا۔ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا بار بار ناچیز حوالہ دیتا ہے: جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ جو جیا وہ دلیل سے جیا۔ 
جانور اور آدمی کا بنیادی فرق کیا ہے؟ عقل و شعور۔ غوروفکر کی استعداد اور علم۔ روزِ ازل فرشتوں نے جب آدمی کو اللہ کا خلیفہ بنانے پر تعجب کیا تو ان کے درمیان ایک مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے تو سوالوں کے جوابات فرفر دیئے۔ فرشتوں نے یہ کہا: تو پاک ہے‘ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں‘ جو تو نے ہمیں عطا کیا۔ 
فرد یا قوم‘ تخلیقی اندازِ فکر کے بل پر آدمی آگے بڑھتا ہے۔ روایتی مذہبی طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتا ہے اور ہیجان کا شکار ہوتا ہے۔ دنیا بدل گئی۔ صنعتی انقلاب اور سائنس نے زندگی کو یکسر تبدیل کردیا۔ ہمارا مذہبی آدمی مگر قبائلی عہد میں جیتا ہے۔ خود دین کو بھی وہ پچھلی دو صدیوں میں جنم لینے والے مکاتبِ فکر کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن و حدیث‘ سیرت اور تاریخ کے براہِ راست مطالعے سے نہیں۔ اکثر وہ غلط نتائج اخذ کرتا ہے۔ ایک صاحب کو دیر تک میں سمجھاتا رہا کہ مسواک سنت نہیں بلکہ دانتوں کی صفائی۔ اگر کراچی کے دو کروڑ شہری صبح سویرے مسواک ڈھونڈنے نکلیں تو کیا ہوگا۔ بولے: کمال کرتے ہیں آپ‘ یہ مولانا انور شاہ کاشمیری کا فتویٰ ہے۔ ایک ذرا سا غور کیا ہوتا‘ مولانا کاشمیری کے زمانے میں ٹوتھ پیسٹ نہیں تھی‘ مسواک کا حصول آسان تھا‘ اب تقریباً ناممکن۔ بجا طور پر امام ابو حنیفہؒ کو اہلِ علم کا امام کہا گیا۔ آج ان کے فتوے پر مگر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ سفر کی نماز 29 کلو میٹر کے بعد روا ہے۔ بارہ سو برس پہلے جیٹ طیارے نہیں تھے۔ اب نیویارک جانے والا‘ ہوائی اڈے پر سفر کے دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔ 
ہم اپنے عصر میں جیتے ہیں۔ سرکارؐ سے منسوب یہ ہے کہ دانا وہ ہے جو اپنے زمانے کو جانتا ہے۔ ابدی چیز‘ اقدار اور اصول ہیں‘ طرزِ حیات کے ظاہری عنوانات اور مظاہر نہیں۔ ہم طالبان کی شریعت کے تحت کیسے زندگی گزار سکتے ہیں‘ جو داڑھیاں ماپتے ہیں اور جن کا فرمان ہے کہ وہ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور بینک کو بروئے کار رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دین کی روح سے وہ بے خبر ہیں‘ ایک انتہا پسند مذہبی مکتب فکر کے اسیر‘ فرقہ پرست۔ جو نہیں جانتے کہ رحمۃ اللعالمینؐ نے فروغِ علم سے معاشرے کو بدلا تھا‘ طاقت کے بل پر نہیں۔ ابوجہل تک کے دروازے پر آپؐ تشریف لے گئے۔ خیرخواہی‘ نرمی اور محبت کا درس دیا۔ ریاست قائم کی تو مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ‘ مسلمانوں کو ایک امت قرار دیا‘ قوانین کا اطلاق جن پہ یکساں تھا‘ حقوق و فرائض بھی یکساں۔ مسلمان کی ذاتی زندگی الگ ہے اور ریاست ایک دوسری چیز۔ عمرؓ فاروق اعظم کی فوج میں دس ہزار یہودی موجود تھے۔ وہی کیا‘ بعد کے ادوار میں بھی مسلمان حکومتوں میں یہودی محفوظ و مامون رہے۔ 
سید منور حسن نے سچ کہا‘ نہ بمباری سے فساد ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ بندوق کے بل پر شریعت نافذ کی جا سکتی ہے۔ امریکہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملک کو طاقتور ہونا چاہیے‘ مستحکم! اور یہ نفاذِ قانون سے ممکن ہے۔ ایسی پولیس اور ایسی عدالت‘ جو طاقتوروں کو سزا دے سکے۔ قبائلی علاقوں کا ذکر کیا‘ جمعہ کو خرم دستگیر کے حامیوں نے کیا کیا؟ بالکل وہی اندازِ فکر۔ گوجرانوالہ شہر میں کشمیری برادری کے غلبے کا اعلان۔ یہ میاں محمد نوازشریف کی عنایت کے طفیل ہے‘ جن کی آدھی کابینہ نسلی بنیاد پر چُنی گئی۔ کشمیری خوب ہیں‘ مگر دوسرے؟ 
تقریباً تمام کی تمام قومی توانائی انتشار کی نذر ہے۔ غور کیجیے کہ فقط ٹیکس وصولی‘ بھارت کے برابر‘ 16 فیصد ہو جائے تو امریکہ کے ہم محتاج نہ رہیں گے۔ حقیقی امن اگر قائم ہو سکے اور انصاف میسر ہو تو چند برس میں پاکستانی شہری چھ ہزار ا رب سالانہ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ 
عفریت دو ہیں‘ ایک افغانستان میں در آنے والا امریکہ اور دوسرے ریاست کو ادھیڑ دینے پر تلے ہوئے طالبان۔ کیسا ظلم ہے کہ کچھ لوگ امریکہ کے خلاف زبان ہی نہیں کھولتے‘ جو عالمِ اسلام کی تباہی کے در پے ہے‘ اسرائیل اور بھارت کا پشتیبان۔ کچھ دوسرے مساجد‘ مزارات اور مارکیٹوں میں قتلِ عام کرنے والوں کے لیے جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ایک استعمار سے مرعوب اور ایک اس فرقہ پرست مولوی سے۔ جدید زندگی کیا‘ جو مذہب سے آشنا بھی نہیں۔ اقبال نے سچ کہا‘ فرانزز فینن نے سچ کہا‘ غلامی عقل و خرد کو چاٹ جاتی ہے۔ 
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں