حیرت ہے کہ بڑھتی جاتی ہے اور کتاب یاد آتی ہے: جو لوگ غور نہیں کرتے‘ وہ بدترین جانور ہیں‘ بدترین! کیا ہم کبھی انسان بننے کی آرزو نہ پالیں گے؟ فقط انقلاب کے نعرے ہی لگاتے رہیں گے؟
ان لوگوں پہ حیرت ہے جو 66برس میں نفاذِ شریعت کے لیے رائے عامہ ہموار نہ کر سکے۔ اب گمان یہ کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے دبائو سے خوف زدہ کر کے مطالبہ منوا لیں گے۔ کئی بار کراچی کے جریدے ہیرالڈ کے ایک سروے کا حوالہ دیا‘ پندرہ برس پہلے‘ جس کا خود اس نے اہتمام کیا تھا۔ اس کے مطابق 98فیصد لوگ شرعی قوانین کے حامی ہیں۔ ایڈیٹر نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اگر خود ان کے اپنے ادارے نے یہ سروے نہ کیا ہوتا تو وہ اس پر کبھی یقین نہ کرتے۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ خلقِ خدا شریعت کی آرزو مند ضرور ہے مگر اس کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والی قیادت سے مطمئن نہیں۔ کیوں مطمئن نہیں‘ اس سوال کا جواب خود ان رہنمائوں اور پارٹیوں کو تلاش کرنا ہے۔ کیا انہیں فرقہ پرست سمجھا جاتا ہے؟ کیا رائے عامہ کا تصور یہ ہے کہ عہدِ جدید کی بجائے‘ وہ انہیں قدیم قبائلی انداز کی زندگی پہ مجبور کردیں گے؟ کیا ان کے سامنے ایران اور افغانستان کے تجربات ہیں‘ جہاں مذہبی طبقات نے مخالفین پر عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ داخلی اور خارجی محاذوں پر غیر ضروری محاذ آرائی میں ان قوموں کی توانائی برباد کردی؟ جدید معیشت استوار نہ کر سکے‘ کاروباری طبقات کی حمایت نہ جیت سکے اور عام آدمی کو یقین نہ دلا سکے کہ ان پر فوزو فلاح کے دروازے کھل جائیں گے۔
فرقہ وارانہ پارٹیوں کی بات الگ۔ مسالک کی بنیاد پر قوم کو تقسیم کرنے والوں کو‘ ظاہر ہے کہ کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا مگر جماعت اسلامی؟ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بعد‘ میاں طفیل محمد‘ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کی قیادت اس پارٹی کو میسر آئی۔ ذاتی زندگیوں میں سب صاف ستھرے لوگ۔ سید صاحب کا تو پورے عالم اسلام میں احترام کیا جاتا۔ خدمتِ خلق کے میدان میں ان کی خدمات قابلِ تحسین ہی نہیں‘ قابلِ رشک۔ اس کے باوجود قوم اسے زمام کار سونپنے پر آمادہ کیوں نہ ہوئی؟
اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت وہ کیوں محسوس نہیں کرتے کہ اسلام قلوب و اذہان میں اگتا ہے‘ سرکار‘ دربار کے جاہ و حشم سے اس کا نفاذ کبھی ممکن نہ ہو سکا۔ صلاح الدین ایوبی سمیت‘ مسلم تاریخ کے بہترین حکمران‘ اصل میں بڑے منتظم یا مجاہد تھے‘ علمائِ دین نہیں۔ ان کی تگ و تاز کا انحصار بھی مذہبی گروہوں نہیں بلکہ رائے عامہ پر تھا۔ اگر دستور کی حدود میں جدوجہد کی آزادی اور بعض اوقات بے مثال قربانیوں کے باوجود یہ منزل وہ حاصل نہ کر سکے تو ایک ڈرائونے خواب کی دھمکی سے کیونکر وہ اسے پا سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب بھی وہ نہیں دیتے کہ تدریج کے فلسفے کو وہ کیونکر مسترد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر عرض کرتا رہا کہ سود کی آیات نازل ہو جانے کے باوجود‘ رحمۃ اللعالمینؐ نے کچھ مہلت عطا کی‘ حتیٰ کہ صدقات کا نظام مستحکم ہو گیا۔ دولت کی محبت دلوں سے نکل گئی اور اَنفاق فی سبیل اللہ‘ طرز زندگی ہوگیا۔ تب‘ خطبہ حجۃ الوداع کے دن آپؐ نے ارشاد فرمایا: آج سے سارے سود میں باطل قرار دیتا ہوں۔ سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کا سود۔
تاریخ کی شہادت یہ بھی ہے کہ مذہب کا زوال تب رونما ہوتا ہے‘ جب مذہبی طبقہ طاقتور اور منظم ہو جائے۔ کیا اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا کیوں ہوا کرتا ہے؟ خبطِ عظمت اور زعم تقویٰ؟ کیا مخالفین سے روا رکھا جانے والا سلوک؟
کیا یہ واقعہ نہیں کہ اسلام جب بھی پھیلا تبلیغ‘ نرمی‘ علم اور کردار کی روشن مثالوں سے پھیلا۔ احمقانہ الزام یہ ہے کہ تلوار سے اس نے فروغ پایا۔ تاریخ کی شہادت مختلف ہے۔ ایران‘ مصر اور بلادِ شام میں اصحابؓ اور تابعین کے لشکر اترے تو پورے کے پورے معاشرے اللہ کے دین میں داخل ہو گئے۔ سپین میں آٹھ سو برس اور برصغیر میں سات سو سال تک مسلمان حکومت کرتے رہے مگر اکثریت نے انہیں گوارا ہی کیا۔ ان کا طرزِ حیات اختیار کیا اور نہ ان کے عقائد‘ آخر کیوں؟ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں کون سا لشکر اترا تھا کہ سب کے سب مسلمان ہو گئے؟ صرف چند سو تاجر مگر اخلاق ایسا بلند اور کردار ایسا اجلا کہ فوج در فوج‘ سبھی لوگ سرکارؐ کی اُمت ہو گئے۔
عبیدہ بن ابی جراحؓ نے شام کے شہر‘ حلب سے پسپائی کا فیصلہ کیا۔ رومیوں کا لشکر چڑھا آتا تھا۔ حکمت اسی میں تھی کہ کچھ دیر کے لیے علاقہ خالی کردیا جائے۔ امین الامتؓ کا مزاج بھی یہی تھا کہ جنگوں میں کم از کم جانی نقصان ہو۔ بیت المقدس کے سفر میں عمر فاروقِ اعظمؓ ان کی سادہ سی قیام گاہ میں داخل ہوئے تو کچھ دیر چپ چاپ کھڑے رہے۔ کمرے میں ایک زرہ تھی‘ ایک تلوار‘ ایک ڈھال‘ لکڑی کا ایک پیالہ اور سادہ سا بچھونا۔ آنکھیں نم ہو گئیں اور ارشاد کیا: ختم المرسلینؐ کا وصال ہو جانے کے بعد ہم سب تھوڑے تھوڑے بدل گئے‘ مگر آپ نہیں بدلے۔
حلب کے مکینوں سے کہا گیا کہ قطار در قطار وہ جمع ہوں اور جزیہ کی رقم واپس لے جائیں۔ ان کی حفاظت کا جو پیمان اسلامی لشکر نے کیا تھا‘ اب وہ اسے پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ تھے‘ وہ لوگ جنہیں دیکھ کر‘ اللہ یاد آتا۔ جن کی جبینوں پہ سجدوں کے نشان تھے اور انکسار و عاجزی کے وہ پیکر۔ آسمان نے ایسا منظر اس سے پہلے کہاں دیکھا ہوگا کہ شہر کے مکین پروردگار کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے: یا رب! ہمارے لیے ان کی واپسی مقدر کردے۔ ہماری بستیوں پر انہیں اقتدار عطا فرما۔
کبھی کبھی ایک ذرا سی جھلک بعد میں بھی دکھائی دی۔ سلطان سلیم کا لشکر آسٹریا کو روانہ تھا کہ ایک کھیت کو پامال کرنے کی خبر آئی۔ بتایا گیا کہ ایک سپاہی نے سبزی کھودی اور اپنی خُرجین بھرلی‘ کچھ دوسروں نے اس کی پیروی کی اور کسان کا ٹھٹھا اڑایا۔ ہیرالڈلیم نے لکھا ہے کہ سلطان نے لشکر کو قیام کا حکم دیا۔ اس وقت آگے بڑھا جب ان لوگوں کو دی جانے والی سزائوں پر عمل درآمد ہو چکا۔
افغانستان ا ور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو کیا دورِ اول کے مسلمانوں کی پیروی کا تصور بھی رکھتے ہیں؟ کیا وہ بستیوں کو امان دیتے ہیں؟ کیا وہ قرن اول کے مجاہد ہیں کہ جہاں کہیں وہ داخل ہوتے‘ مکینوں کو اپنے گھر‘ کاروبار اور کھیتوں کھلیانوں کے بارے میں کبھی کوئی اندیشہ لاحق نہ ہوا کرتا۔ دوسروں کو چھوڑیے‘ خود اپنے ہم وطنوں سے کیسا سلوک وہ کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ اپنی ہم مسلک حریف جماعتوں اور پارٹیوں سے؟ کیا مساجد‘ مارکیٹوں‘ مزارات اور امام بارگاہوں میں بے گناہوں کو قتل کرنے والوں کی طرف سے شریعت کا علم بلند کرنے سے‘ اس کی وقعت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ امید اور امکان پیدا ہوگا یا خوف اور اندیشوں کی خاردار فصلیں دلوں اور دماغوں میں نمودار ہوں گی؟ شریعت کیا ہے؟ ظاہر میں فقط نماز اور روزہ‘ باقی سب کچھ باطن میں۔ خیر خواہی‘ ایثار‘ وعدے کی پابندی‘ جھوٹ اور رزق حرام سے ہر حال میں گریز‘ محتاج کی دستگیری اور بے نوا کی رفاقت۔ کیا ہمارا مذہبی طبقہ اسی کردار کی تصویر پیش کرتا ہے؟ کیا وہ واقعی مذہبی لوگ ہیں؟
ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے؟ کیا ہمیں دنیا کو بدل ڈالنے کی ضرورت ہے یا خود کو؟ فقط استعمار کے مقابل مورچہ زن ہونے یا خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی؟ حیرت ہے کہ بڑھتی جاتی ہے اور کتاب یاد آتی ہے: جو لوگ غور نہیں کرتے‘ وہ بدترین جانور ہیں‘ بدترین! کیا ہم کبھی انسان بننے کی آرزو نہ پالیں گے؟ فقط انقلاب کے نعرے ہی لگاتے رہیں گے۔