خوف پھیلانے و الوںکو اندازہ نہیں کہ مہلت کم رہ گئی ۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پوری کی پوری ایک قوم نے خود کو کسی مسلّح گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہو ۔
مولانا عبد العزیز نے حیران کر دیا کہ طالبان نے 500 خود کش بمبار خواتین کو تربیت دے رکھی ہے۔ ارشاد دراصل یہ ہے کہ خوف زدہ ہو کر قوم طالبان کے سامنے جھک جائے۔ وگرنہ اس کے بے گناہ شہری ، بوڑھے ، بچے اور خواتین وحشیانہ یلغار کی زد میں ہوں گے ۔ مساجد، مزارات اور مارکیٹوں میں دھماکے برپا ہوں گے ۔ کراچی سے پشاور تک موت اور تباہی کا ایک طوفان اٹھے گا۔ کیسا یہ اندازِ فکر ہے؟ کیسی یہ ذہنیت ہے؟
صرف ایک ہی بار ، مولانا کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہو سکا۔ انہوں نے مدعو کیا اور ازراہِ کرم دیر تک اس ناچیز کو گوارا کیا۔ یہ لال مسجد کے سانحہ سے چند ماہ پہلے کا واقعہ ہے ۔ مولانا عبد الرشید غازی مرحوم کی سوزوکی گاڑی متعلقہ افسر اٹھا کر لے گئے تھے کہ ان کے مطابق یہ ایک دہشت گرد کے استعمال میں رہی تھی ۔ ان کے بعض دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور ان افسروں سے التجا پہ اصرار کیا۔ جیسے ہی ان صاحب کی خدمت میں ، میں جا حاضر ہوا اور گفتگو کا آغاز کیا ، بے بسی سے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا "Hands Off"۔ پھر بے چارگی سے بتایا کہ لال مسجد والے سنتے کسی کی نہیں ۔ مجبور سرکاری افسروں سے واسطہ آن پڑے تو وہ انہیں اخبارات میں گھسیٹتے ہیں ۔ نوکری ہی نہیں ، زندگی بھی ان کے لیے دشوار بنا دیتے ہیں ۔ میں نے ان سے معذرت کی اور
ارادہ کیا کہ چائے کی پیالی تمام کر کے رخصت طلب کروں ۔ بھلا آدمی تھا ۔ بولا : میری مجبوری کا آ پ کو اندازہ ہونا چاہیے لیکن اگر آپ مصر ہیں تو وزیرِ داخلہ سے ایک فون کرادیجئے۔ خیر، یہ گاڑی انہیں واپس مل گئی اور میں حیران ہوتا رہا۔ سرکار کے اندازِ کار پر ، ایک دینی ادارے کے اندازِ فکر پہ۔
ای سیون میں ، جہا ں مدرسے کی وسیع و عریض عمارت استوار تھی ، اساتذہ کرام سے عرض کیا کہ ریاست کے اندر ریاست کا وجود تادیر باقی نہیں رہتا۔ شہر کی اخلاقی حالت کی کہانیاں انہوں نے سنائیں ۔ ظلم اور درندگی کے واقعات اور کہا کہ مظلوم ان کے پاس مدد کے لیے آتے ہیں۔ وہ مداخلت پر مجبور ہیں ۔ گزارش کی کہ ان کاکام آگہی ہے یا سرکاری اداروں پر دبائو ڈالنا۔ نفاذِ قانون کی ذمہ داری اگر انہوں نے قبول کر لی تو خرابی پیدا ہوگی اور بڑھتی جائے گی ۔ ریاست اگر اپنے فرائض ادا نہ کرتی ہو تو اسے جھنجھوڑا جاتا ہے۔ متبادل ادارے قائم نہیں کیے جاتے وگرنہ فساد پھیلتاہے اور بڑھتا ہی چلا جاتاہے ۔
واپسی پر مدرسے کی عظیم الشان عمارت پہ نگاہ ڈالی ۔ وسیع و عریض مگر غیر مرتّب ۔ پوچھا: کیا یہ سرکاری اجازت سے بنا یا گیا‘ نقشے کی منظوری لی گئی ؟ ہنس کر وہ بولے : جی نہیں۔ انکشاف کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے توسط سے حکومت، نے بیرونِ شہر ایک سو ایکڑ کی پیشکش کی تھی مگر مسترد کر دی۔ ادب سے التماس کی کہ آپ کا کام تعلیم و تدریس ہے ۔ یہ پیش کش آپ کو قبول کر لینی چاہیے۔ مودبانہ یہ بھی گزارش کی کہ اپنے فرقہ ورانہ کردار کا تاثر انہیں دور کر نا چاہیے۔ لوگ انہیں تشویش اور خوف سے دیکھتے ہیں... باقی تاریخ ہے۔
مشرف حکومت نے لال مسجد میں جو کارروائی کی، دنیا بھر میں اس کی مذمّت کی گئی ۔ جنرل نے اس کی قیمت چکائی ؛حتیٰ کہ اس کی حلیف قاف لیگ نے بھی۔ چند ماہ بعد چوہدری شجاعت حسین سے اتفاقاً ملاقات ہو ئی۔ سانحے پر سوال کیا تو فرطِ جذبات سے وہ روپڑے اور دیر تک روتے رہے۔
لال مسجد میں بے گناہ بچیوں کے قتل کا واقعہ المناک تھا اور بے حد المناک ۔ وزیراعظم شوکت عزیز شاید عمر بھر کبھی اپنے وطن میں گیہوں کے کھیتوں کا نظارہ نہ کر سکیں ۔ تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ عبادت گاہ کے اندر القاعدہ کے دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی تھی ۔ کمسن طالبات کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اندر ایک بڑا اسلحہ خانہ تھا ۔ گولی سب سے پہلے انہی کی طرف سے چلائی گئی۔ مولانا عبد العزیز خود تو باہر نکل گئے مگر اپنے سگے بھائی ، والدہ محترمہ اور بچّیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے ۔ مولانا عبد العزیز کیا معصوم ہیں کہ ان کے خلاف قانون کبھی حرکت میں نہ آسکا۔ کیا یہ ایک منظم مذہبی گروہ کا خوف ہے کہ انصاف ان کے سامنے سرنگوں ہو جاتاہے ۔ پولیس اور عدالتیں بے بس !
مذاکرات جاری ہیں اور قوم کی تمنّا ہے کہ کامیاب رہیں ۔ مولانا سمیع الحق اور سینیٹر ابراہیم خان کے نظریات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں مگر دوسروں کے جذبات کا بھی انہی خیال رہتا ہے ۔ کبھی دلیل بھی دیتے ہیں ۔ مخالف کی سن بھی لیتے ہیں، خاص طور پر ابراہیم خاں۔ ایک آدھ بار تو انہوںنے حیران ہی کر دیا کہ عین مباحثے کے دوران اپنی غلطی مان لی۔ تھوڑی سی امید بندھتی ہے کہ خون خرابے کے بغیر ہی، شاید معاملہ نمٹ جائے ۔ ایک عشرے سے خوں ریزی کی شکار سرزمین کو امن عطا ہو ۔ رفتہ رفتہ بتدریج شاید قانون کی عمل داری بڑھ سکے اور معاشرے کے مختلف طبقات اپنے متنوع نظریات کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کر نا سیکھ لیں۔ پھر مولانا عبد العزیز کی گونجتی گرجتی آواز سنائی دیتی ہے۔ گردوپیش سے ناآشنا‘ دلیل سے ماورا‘ پچاس ہزار شہداء کے لہو سے بے نیاز۔ کیسا جری آدمی ہے‘ صاحب کیسا جری آدمی!
بے سبب نہیں کہ طالبان نے مولانا عبد العزیز کا انتخاب کیا،برسوں پہلے اپنے خاندان کے قتل پر جن کے باطن میں ریاست کے خلاف نفرت پل رہی تھی اور نفاذِ شریعت سے جن کی مراد قانون اپنے ہاتھ میںلینا ہے۔مولانا سمیع الحق بھی غالباً اسی لیے چنے گئے کہ حکومتِ پاکستان سے حال ہی میں ان کا تنازع ہوا تھا لیکن غیر متوقع طور پر وہ قدرے اعتدال سے کام لے رہے ہیں۔کیا ایسی کمیٹی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ مذاکرات ناکام ہوں اور ذمہ دار حکومت ٹھہرے؟ کیا کوئی ان لوگوں سے سوال کرنے کی جسارت کر سکتاہے کہ وہاں جہاں طالبان کی عمل داری ہے ، کون سا شرعی نظام نافذ ہے ؟ کیا عدالتیں وہاں کام کرتی ہیں ؟ کیا وہاں ہر مظلوم کو انصاف ملتا ہے؟ بالکل برعکس کیا ہر مقامی کمانڈر کے منہ سے نکلا ہر لفظ قانون کا درجہ نہیں رکھتا؟ سینکڑوں قبائلی ملک قتل کر دیئے گئے۔ کس قانون کے تحت؟ کس کی اجازت سے؟ کیا وہ سب مثالی مسلمان ہیں یاان میں بھتہ خور، منشیات کے سوداگر اور جرائم پیشہ بھی شامل ہیں؟
امن کے سبھی آرزومند ہیں ۔ وہ بھی مذاکرات کی تائید کرتے ہیں، جنہیں طالبان سے حسنِ ظن ہرگز نہیں۔ پھر دھمکیوں کا سلسلہ کیوں جاری ہے۔ خوف پھیلانے و الوںکو اندازہ نہیں کہ مہلت کم رہ گئی ۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پوری کی پوری ایک قوم نے خود کو کسی مسلّح گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہو۔