اللہ اللہ، یہ تھا طالبانِ علم کا اعزاز۔ عارف نے کہا : اے کاش لوگ یہ جان لیں کہ حصولِ علم کی مسرّت ہوتی کیا ہے ۔ کوئی جائے اور جا کر طالبانِ عصر کے ہم نوائوں کو بتائے ۔ خاص طور پر ان مولوی صاحب کو ، شریعت کو جنہوں نے تلوار بنا رکھا ہے ۔
ژولیدہ فکری کے اس نا مہرباں زمانے میں کس کی یاد سے دل قرار پائے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ ۔ شعر تو منیر نیازی نے حمد کا لکھا مگرآج پڑھا تو یوں لگا کہ جیسے نعت کی آرزو بھی ہم رکاب ہو ۔
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
منیر صاحب اپنی ہی وضع کے آدمی تھے ۔ کسی کی سن کرنہ دیتے اور سناتے سبھی کو ۔ عہدِ جاہلیت کے عرب شاعروں ایسا ایک منفرد مسلمان ۔ زمانے کی رو سے کوئی غرض تھی نہ ادب کے چاروں طرف برپا مباحث سے ۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایک دن چند بڑے انگریز شعرا کا ذکر کیا۔ ان کے محاسن اور انداز۔ دیکھا کہ منیر صاحب خاموش ہیں ۔ پوچھا: آپ کی رائے کیا ہے ؟بولے : قسم لے لیجئے کہ کبھی ان کوپڑھا ہو ۔ دوسروں نے سینکڑوں ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالیں مگر جو لکھا نقش بر آب ۔ منیر لب کھولتے تو مصرعہ لہومیں برق بن کے تیر جاتا۔ جہاں کہیں سرکارؐ کی مدح کی ہے ، آواز دل کی گہرائیوں سے اٹھی ہے ۔
فروغِ اسمِ محمد ہو بستیوں میں منیر
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
سرکارؐ یاد آئے تو شاعر یاد آیا۔
کامل اس فرقہء زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے بھی تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
عمر بھر اقبالؔملّا سے بیزار کیوں رہے ؟ تب وہ دن خیال پر طلوع ہوا ، جب سیّدہ فاطمتہ الزہر ا ؓ آپ ؐ کے ہاں تشریف لائی تھیں ۔
سیرت کی کتابیں بہت ۔ ایک سے ایک بڑھ کر ۔ بعض عنوانات پہ مگر تشنگی کا احساس ہوتاہے ۔ یوں تو عارف نے یہ کہاتھا کہ نفس کے فریب اور مصطفیؐ کے مقامات شمار نہیں ہو سکتے مگر ذاتی زندگی پر لکھنے والوں نے کم ہی لکھا۔ ایک مارٹن لنگز ہیں ، ابوبکر سراج، جنہوں نے سیّدہ خدیجہ الکبریٰؓ اور سید الشہدا جناب حمزہؓ کے حوالے سے کچھ تھوڑی سی روشنی اپنی تصنیف میں ڈالی ہے۔ اصل اور بنیادی ماخذ سے انہوں نے اکتساب کیا۔ ختم المرسلینؐ تو وہ تھے اور حسنِ کردار کا ایسا معجزہ کہ اللہ نے ان پر فخرکیا مگر بشر تھے ، خیر البشر۔ نور بھی ، آدم زاد بھی ۔ بھوک اور پیاس، انتظار اور آرزو، رشتہ و پیوند ۔ نسبت اور تعلق سرکارؐ کو بہت عزیز رہتی ۔
احد کے دن جب ایک قیامت گزر چکی اور شہرِ نبیؐ میں گریہ کی آوازیں سنائی دیں تو عالی جناب ؐ گلی میں تشریف لائے اور سوال کیا: حمزہ کو رونے والے کہاں ہیں ؟
سبھی سے محبت کی، سبھی پر عنایات کیں ، حتیٰ کہ خون کے پیاسے دشمنوں پر ۔ جس سے جتنا تعلق تھا، عمر بھر ایک کمال سے اسے نبھایا۔ کتنی بے شمار احادیث ہیں مگر خود ستائی کا کہیں شائبہ تک نہیں ؛ با ایں ہمہ عدل کے خوگر ۔ ایک بدقسمت نے جب یہ کہا ''محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) انصاف کرو‘‘ تو چہرہ سرخ ہوا اور فرمایا: محمد انصاف نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔ اسی عدل کا ایک تقاضا یہ تھا کہ اعزہ و اقارب پہ کرم زیادہ ۔ انداز یہ تھا کہ انہیں ذمہ داری کا احساس بھی زیادہ ہی دلایا کرتے ۔ قریش سے کہا، اہلِ بیت سے کہااور اصحابِ رسولؓ سے ۔ فرمایا: دس میں سے تم ایک چھوڑو گے تو پکڑے جائو گے اور آنے والے زمانوں کے لوگ دس میں سے ایک کو پکڑ لیں گے تو بچ رہیں گے (مفہوم)۔
علم کا ورثہ ان کے توسط سے چھوڑ جانا تھا ۔ گاہے گمان ہوتاہے کہ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کا اس اعتبار سے بھی لحاظ تو یقینا ہوگا کہ سیدنا ابو بکرؓ کی نورِ نظر تھیں ؛با ایں ہمہ ایک بار کہا: یا اللہ عائشہ ؓ کے معاملے میں مجھے معاف فرمادے ۔ امہات المومنینؓ سے ایک بار ارشاد کیاتھا : عائشہ کے باب میں مجھے تنگ نہ کیا کرو، اس کی چاد رمیں مجھ پر وحی اترتی ہے ۔ خود ام المومنینؓ سے کہا تھا: خدیجہ کے بارے میں مجھے تنگ نہ کرو۔ اس قدر اکرام ان کا تھا کہ صدقے کا جانور ذبح کیا جاتا تو نام لے کر بتاتے کہ فلاں اور فلاں ان کی سہیلیوںکو گوشت پہنچایا جائے۔ کوئی نہ تھا، جس کی ایک ذرا سی مہربانی کبھی بھولے ہوں ۔ وہ غلام انہیں یاد رہا ، طائف کے دن، جس نے انگوروں کا ایک گچھا پیش کرنے کا اعزاز پایا۔ جب یہ فرمایاتو امّت کے لیے پیغام چھوڑ گئے کہ محبت کرنے والے کو ہر حال میں عزیز رکھنا چاہیے ''ابو بکرکے سوا ، سبھی کا حق میں نے ادا کر دیا‘‘۔
اس طرح ان کا ذکر کرتے کہ سننے ، دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ واعظ کے خطاب سے ہم انہیں سمجھ نہیں سکتے ۔ تکلفات اور ریا سے اس بستی کے لوگ پاک تھے ۔ بحث ہوتی رہی ، فاروقِ اعظمؓ اور سیدنا ابوبکرؓ میں اور اس میں کچھ تندی آگئی۔ خطاب کے عالی قدر فرزند کو اپنی رائے پہ اصرار تھا ۔ آخر کو ان کی بات مان لی گئی مگر اب طبیعت میں قدرے ناگواری تھی ۔ آنجناب ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس مفہوم کے الفاظ کہے کہ عمرؓ کی بات میں نے مان لی، اس پر بھی وہ ناخوش ہیں ۔ سر اٹھایا او ر ارشاد کیا: کیا یہ ممکن نہیں کہ لوگ میرے لیے ابوبکرؓ کو معاف کر دیں...
احد کے دن حمزہ ؓپر زہریلے نیزے کا وار کرنے والے حبشی کو معاف کر دیا تھا۔ اسلام میں اسے قبول کیا اور جاہلیت کے سارے گناہ اس کے دھل گئے ۔ اس سے مگر یہ کہا کہ الگ ہی رہا کرے۔ اس قدر حسّاس،کیا زخم ہرے ہونے لگتے؟ انؐ سے پہلے نہ بعد ، تاریخ نے کبھی نہ دیکھا کہ احساس کی شدّت ایسی ہو اور ضبط میں ایسا کمال۔ ایک جملہ بھی عمر بھر ایسا نہ کہا کہ کسی کا دل دکھے۔ ساری زندگی مرہم لگاتے رہے ، مرہم لگانے کی تلقین کرتے رہے ۔ فرمایا: نرمی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے ۔ فرمایا:نرمی جس میں نہیں ،ا س میں کوئی خیر نہیں ۔
اب وہ لمحہ یاد آتاہے تو حیرت کا ایک جہان جاگ اٹھتا ہے۔ اگر وہ سب اس قدر عزیز تھے تو سیّدہ فاطمہ الزہرا ؓ ؟ نگہبانی وہی کیا کرتیں ۔ سب سے بڑھ کر وہی ان کے لیے فکر مند ہوا کرتیں۔ زخم انہی نے دھوئے تھے ۔ ظالم اور جاہل درپے ہوتے تو آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں ۔ درد کی جیسی متاع اللہ نے انہیں بخشی ، کسی کو شاید ہی عطا ہوئی ہو۔ عربوں نے انہیں ''ام ابیہا‘‘کا لقب دیا۔ باپ سے ماں جیسی محبت کرنے والی بیٹی۔ ہفتے میں ایک بار لگ بھگ تین میل پیدل چل کر ان سے ملنے جایا کرتے۔ تشریف لاتیں تو ان کے لیے چادر بچھاتے۔ دو ایک بار ہی یہ اعزاز کسی اور کو حاصل ہوا۔
یا للعجب ، پھر اس روز دوسروں کو ان پر ترجیح دی ۔ تنگ دستی کی شکایت کی اور ظاہر ہے کہ جلد شکایت کرنے والی وہ ہرگز نہیں تھیں۔ فرمایا: فاطمہ ، میرے پاس تو اصحاب صفہؓ کے لیے بھی کچھ نہیں ۔
اللہ اللہ، یہ تھا طالبانِ علم کا اعزاز۔ عارف نے کہا : اے کاش لوگ یہ جان لیں کہ حصولِ علم کی مسرّت ہوتی کیا ہے ۔ کوئی جائے اور جا کر طالبانِ عصر کے ہم نوائوں کو بتائے ۔ خاص طور پر ان مولوی صاحب کو ، شریعت کو جنہوں نے تلوار بنا رکھا ہے ۔