نہیں، عملاً یہ رسول اللہ ؐ کی امت ہی نہیں۔ وہ ان کے لیے نمونۂ عمل ہی نہیں، وگرنہ یہ اس قدر خوار، اس قدر رسوا کیوں ہوتی؟
کچھ اقوال اور کچھ واقعات دہرانا پڑتے ہیں۔ قائد اعظم نے یہ کہا تھا: آدھی جنگ موزوں لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ ان کی مراد یہ نہ تھی کہ دوسروں سے بڑھ کر وہ قیادت کے مستحق ہیں۔ چالیس برس تک مسلم برصغیر جذباتی خطیبوں اور مذہبی شعبدہ بازوں کے چنگل میں پھنسا رہا۔ وہ اس کا لہو گرمایا کرتے۔ منزل کی نشاندہی ان کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ داڑھی منڈے اقبالؔ تھے، جو امان اللہ خان کی بجائے ملّا عمر کے افغانستان گئے ہوتے تو جیل میں ڈال دیے جاتے یا ملک بدر۔ انہوں نے یہ کہا تھا ؎
اندھیری شب میں، میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
یہ سچے اور کھرے نواب بہادر جنگ تھے، جنہوں نے حیدر آباد میں درسِ اقبال کا آغاز کیا اور محمد علی جناح کو دل و جان سے لیڈر مانا۔ قائد اعظم کی زندگی کے اداس ترین ایام میں سے ایک وہ تھا، جب سری نگر میں انہیں اس صاحبِ حکمت جانباز کے مرنے کی خبر ملی۔ محمد علی جوہر تھے، جذباتی مگر باون تولے، پائو رتّی۔ دنیا کو الوداع کہنے سے قبل انہوں نے دو عدد وصیتیں کیں۔ اوّل یہ کہ غلام ہندوستان کی بجائے، انہیں بیت المقدس میں دفن کیا جائے۔ ثانیاً یہ کہا: میرے پاس کیا لینے آئے ہو، محمد علی جناح کے پاس جائو۔ گمان یہ کہتا ہے کہ پاسِ ادب سے مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ کی خاک میں آسودہ ہونے کی آرزو نہ پالی۔ صاحبانِ صدق و وفا میں گاہے تلوار کی سی تیزی بھی ہوتی ہے مگر خلوص کے ساتھ انکسار کا جوہر بھی۔ اللہ کی بارگاہ میں صرف تین سکّے خالص ہیں۔ خلوص، صبر اور عاجزی۔ باقی سب زائد۔
خودستائی سے محمد علی جناح عمر بھر گریزاں رہے۔ کہا تو یہ کہا: میں تمہارا وکیل ہوں۔ بولے تو یہ بولے: تمہارے ایما پر میں شطرنج کھیلتا ہوں۔ اس قدر خالص تھے کہ لفظ کم پڑتے ہیں۔ 1937ء میں مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا: دنیا کی سب نعمتیں میں دیکھ چکا۔ اب اس کے سوا کوئی آرزو باقی نہیں کہ دنیا سے اُٹھوں تو ضمیر مطمئن ہو کہ مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ یہی بات ایک بار علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جب کانگریسی غلبے کے بعد بیداری بالآخر پھوٹ پڑی تھی۔ آبِ زر سے لکھنے کے قابل یہ جملہ بھی اسی روز ارشاد کیا تھا: ''جب آدمی کے دن پھرتے ہیں تو امیر رشتہ دار اسے یاد کرنے لگتے ہیں‘‘۔
گراں بار ذمہ داریوں کا احساس کتنا تھا؟ لارڈ ویول نے دوسری عالمگیر جنگ کے دوران یہ کہہ کر اشارۃً وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی کہ اگر ایک ہندوستانی گورنر جنرل بن سکتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں؟ چشم زدن میں اٹھے، ہیٹ اٹھایا اور چل دیے۔ وائسرائے لپک کر گیا "What happened Mr. Jinnah?"۔ فرمایا: "I am not here to sell my nation"۔ اگر یہ پیشکش قبول کر لی ہوتی تو مسلم برصغیر کا کھیون ہار کون ہوتا؟
وزارتِ عظمیٰ کی باقاعدہ پیشکش بھی ہوئی۔ پورے ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ۔ امریکی اخبار نویس انٹرویو کرنے آیا تو حیرت سے اس نے کہا ''اس سے بڑھ کر آپ کو اور کیا چاہیے؟‘‘ فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش کیا جائوں تو وہ مجھ سے کہے: "Well done Muhammad Ali"
نصف صدی کے بعد، ایک دوسرے امریکی سٹینلے والپرٹ نے لکھا: تاریخِ انسانی کا واحد لیڈر، بیک وقت جس نے تین کارنامے انجام دیے۔ ایک قوم تخلیق کی اور اس کی آزادی کے لیے ایک نیا ملک وجود میں لائے۔ خیرہ کن کارنامے اپنا سیاق و سباق اور اسباب و عوامل رکھتے ہیں۔ ایک قوم جب کسی عظیم مقصد کے لیے متحد ہو جائے۔ اللہ کی رحمت سے پھر ایسا لیڈر اسے نصیب ہوتا ہے، جو سونے کی طرح سچا ہو کر تیر بہدف ہو جائے۔ محمد علی جوہر نے کہا تھا ؎
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
اب ایک لمحے کو رکیے۔ 1946ء کے مسلم عوام کا موازنہ آج کی پاکستانی قوم سے کیجیے۔ پھر دو ممتاز لیڈروں ''آخری امید‘‘ عمران خان نیازی اور قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کا محمد علی جناح سے۔ ایک وہ ہے کہ دو کروڑ ووٹ لے کر جیت رہا تھا مگر کوڑے مار مار کے اپنے ووٹروںکو اس نے بھگا دیا۔ بدترین امیدوار پیش کیے اور اس گمان کے ساتھ کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ایک ہے۔ سمجھانے بجھانے کے باوجود ''سونامی‘‘ کا ورد کرتا رہا اور ''جنون‘‘ کی وکالت۔ سوات آپریشن شروع ہونے سے پہلے، میں اسے پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس لے گیا۔ میں ہی جانتا ہوں کہ کس مشکل سے۔ اس آدمی کو درندوں کے بارے میں انہوں نے نصیحت کی، جس کا خاندان تحریکِ پاکستان کا حامی تھا۔ مان گیا کہ اپنی رائے پر نظرِ ثانی کرے گا۔ دل میں مگر فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد اس آدمی کا سامنا ہی نہ کروں گا، جس کی دلیل کا جواب میں دے نہیں سکتا۔ اب ایک جعلی پیر اس کا نصیب ہے۔ کئی سال گزر جانے کے بعد پارٹی کے اندر سے ابھر آنے والے دبائو نے مجبور کیا ہے تو تھوڑی سی بات سمجھ میں آئی ہے‘ مگر تھوڑی ہی۔
آج یوں آیا ہے غمِ جاں، غمِ دوراں کی طرف
جانبِ شہر چلے دخترِ دہقاں جیسے
ادھر نواز شریف ہیں۔ معلومات کا پورا خزانہ جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل راحیل شریف نے ان کے سامنے رکھ دیا۔ قاتلوں کے عزائم اور تنظیم و تعلقات کی ایک ایک تفصیل۔ تینوں صاف ستھرے، شائستہ سپاہی۔ ان کے تحقیر آمیز طرزِعمل کے باوجود جو ردعمل کا شکار نہ ہوئے۔ اس پر بھی حال یہ ہے کہ آٹھ مہینے ضائع کر دیے۔
بہترین لوگوں نے تلقین کی کہ مذاکرات بجا۔ خوں ریزی کے بغیر ہی مقصود حاصل ہو تو اور کیا چاہیے۔ تین چیزیں مگر یاد رکھیے گا۔ اوّل یہ کہ مذاکرات آئین کی حدود میں ہونے چاہئیں، ثانیاً مولوی صاحبان پر بھروسہ نہ کیجئے گا کہ بات چیت کو وہ ہائی جیک کر لیں گے، ثالثاً وقت طے کیجیے گا کہ اس سے زیادہ مہلت ممکن نہیں۔ تینوں کی خلاف ورزی کی۔ آئین کی پابندی تسلیم کرائے بغیر بات چیت شروع کی۔ اوّل مولانا فضل الرحمٰن، پھر حضرت مولانا سمیع الحق کے ذریعے بات چیت کا آغاز کیا۔ باقی تاریخ ہے۔
تحریکِ انصاف کے کارکن مجھے بہت عزیز ہیں مگر وہ مجھے معاف کر دیں، نواز شریف کی دیانت پر اگرچہ بھروسہ نہیں لیکن تجربہ کار ہیں۔ عمران خان جس طرح کے المناک مغالطے میں مبتلا تھے، شاید وہ اس سے بڑھ کر حماقت کا ارتکاب کرتے۔ قیادت نہیں، یہ معاشرے کی ناکامی ہے۔ اس قوم پر افسوس، جو اوّل آصف علی زرداری، نواز شریف اور عمران خان ایسے لیڈر چنتی ہے اور پھر انہیں خوشامدیوں کے سپرد کر کے تاریخ کے چوراہے پر سو جاتی ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے یہ کہا تھا: ابوذر، ہم مانگنے والوںکو منصب نہیں دیا کرتے۔
افتخار عارف کا شعر یہ ہے۔
رحمتِ سیّدِ لولاکؐ پہ کامل ایماں
امّتِ سیّدِ لولاکؐ سے خوف آتا ہے
نہیں، عملاً یہ رسول اللہ ؐ کی امت ہی نہیں۔ وہ ان کے لیے نمونۂ عمل ہی نہیں، وگرنہ یہ اس قدر خوار، اس قدر رسوا کیوں ہوتی؟