"HRC" (space) message & send to 7575

دل بھی تھا دھواں دھواں ‘ شام بھی تھی اداس اداس

وہی، جو عرض کیا تھا ، بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔پولیس کے باب میں حکمرانوں کی کم عقلی ، بے حسی اور بے رحمی پر لکھنے کا ارادہ تھا مگر آخر کو وہی ہوا۔ کچھ کہانیاں یاد آگئیں ؎ 
دل بھی تھا دھواں دھواں، شام بھی تھی اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں 
امن انصاف سے ہوتاہے اور انصاف کے لیے عزم درکار ۔ جی ہاں ! سو فیصد یکسوئی اور دو سو فیصد مصمّم ارادہ۔ زائد ایک سو فیصد ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے ، جو طرح طرح کی محبوب اور قابلِ نفر ت شکلوں میں آتی ہیں ۔ بھیڑیے بن کر، پارسا ہو کر ، دشمنوں کی طرح تلوار اٹھائے اور ہاتھ چومتے مدّاح ۔ خوف ، محبت ، لالچ اور خیر خواہی کے سبھی ہتھیار ۔ 
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے 
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے، نہ ملّا، نہ حکیم 
خود سرکار ؐ کے راستے میں رکاوٹ آئی تھی۔ ''چوری کرنے والی بیچاری فاطمہ کو معاف کر دیجیے‘‘۔ سب جانتے ہیں کہ کیا جواب رحمتہ اللعالمینؐ نے دیا تھا۔ آج بھی وقتِ قضا ، یعنی فیصلہ صادر کرتے وہ جواب ان کے امّتی کو یاد رہے تو مظلوم کا دامن مراد سے کیوں نہ بھر جائے ؟ ہمارے زمانے میں مگر جسٹس رفیق تارڑ جیسے جج ہوتے ہیں ، جو قاضی کی کرسی پر بیٹھ کر زرداروں سے مراسم استوار کرتے اور قادیانیوں کے خلاف خطبے دے کر پارسائی کا پیرہن پہن لیتے ہیں ۔خود کو غلام اسحٰق خان سے زیادہ کفایت شعار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جسٹس لون جیسے ہوتے ہیں ، نون لیگ نے جنہیں ، سینیٹر بنا دیا تھا۔ظاہر ہے ،شریف خاندان کسی 
کو مفت تو نہیں بناتا۔ زیادہ سے زیادہ جسٹس افتخار چوہدری جیسے۔ بہادر تھے، جنرلوں سے بھڑ گئے اور پیپلز پارٹی کے خلاف پانچ برس تک تلوار سونت کر کھڑے رہے ۔ اب ان کی خود نوشت چھپنے والی ہے اور جلد ہی ان کے تمام کارنامے زیادہ مربوط صورت میں عالمِ انسانیت کے روبرو ہوں گے ۔ بیٹے کی باری آئی تو عدل کیاخاک، پانچ کروڑ روپے قربان نہ کر سکے ، جو اس کے ذمّے واجب الادا تھے۔ اس وقت قرآنِ کریم کی کوئی آیت انہیں یاد نہ آئی ۔ یہ بھی نہیں کہ اولاد اور مال ہی فتنہ ہوا کرتاہے ۔ نتیجے میں سرکاری خزانے کو ڈیڑھ سو ارب روپے سے محروم ہونا پڑا، مستقل طور پر ڈیڑھ سو ارب روپے سالانہ سے ۔ ارسلان نے تو مرغے کی ایک ٹانگ چوری کی تھی ، جن کے دانت لمبے اور منہ بڑے تھے ، موقعہ سے فائدہ اٹھا کر وہ پورے کے پورے بیل ہضم کر گئے ۔ چچوڑی ہوئی ہڈیاں حاشیہ نشینوں کے حصے میں ۔
بدل کے بھیس وہ آتے ہیں ہر زمانے میں 
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
عالی جناب ؐ کے اسوہ پر غور کرنے کی توفیق کسے ، عمل کی توفیق کسے ۔ کبھی کوئی ٹیپو سلطان ہوتاہے ، جو عدالتوںکو اختیار بخش دیتاہے کہ بیروزگاروں کو سود کے بغیر قرضے جاری کریں ۔ اگر طوفان ہریالی چاٹ لے تو اس کا کچھ حصہ معاف بھی کر دیں۔ ایک اموی بادشاہ سپین میں تھا ۔ نام اب اس کا بھولتا ہوں ۔قاضی سعید کو اس نے عدالت سونپی ۔نیا محل استوار ہوا۔ فوّارے گیت گانے لگے تو بادشاہ کا جی بے تاب ہوا ۔وزرا اور گورنروں کے علاوہ قاضی سعید کو ساتھ لیا کہ گنبد پر جگمگاتے پگھلے سونے کو داد دیں ۔کیوں نہ دیتے مگر قاضی نے یہ کہا : سلطان ، تم پہ شیطان سوار ہے ۔ چاروں جانب سنّاٹا تھا اور اس میں بادشاہ کی آواز ابھری ''بے سبب لوگ قاضی سعید کو سلطنت کا ضمیر نہیں کہتے‘‘۔ 
ترکی کے مراد ، ہندوستان کے بلبن اور سپین کے اس بادشاہ سے تو نواز شریف ، پرویز خٹک اور قائم علی شاہ کیا سیکھیں گے ، جہانگیر ہی سے جان لیا ہوتا۔ ہیرالڈلیم نے لکھا ہے کہ سری نگر میں وہ بادہ نوشی کے بعد افیون گھول کر پیا کرتا۔اس حال کو پہنچا کہ بیٹے نے بغاوت کردی اور جہلم تک آپہنچا۔ مہابت خان اگر نہ ہوتا تو انجام ہارون الرشید کے فرزند امین سے مختلف شاید نہ ہوسکتا، سونے کی نلکیوں میں ڈال کر خانہ کعبہ میں رکھا گیا معاہدہ جس نے توڑ دیا تھا۔ اپنے بھائی مامون الرشید سے خراسان کا چھوٹا سا صوبہ بھی جس نے ہتھیانے کی کوشش کی ۔ تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ نور جہاں کے ہاتھوں ایک عامی قتل ہوا تو اس کے عاشق زار نے کٹہرے میں اسے کھڑا کر دیا۔ وارثوں نے معاف کر ڈالا تو شہنشاہ نے روکر کہا : دیت کی بجائے اگرقصاص تجھ پہ نافذ ہوتا تو میرا کیا بنتا؟ 
حکمرانی سہل نہیں ، دل کو پتھر کرنا پڑتا ہے ۔ رشتہ داروں ، بیٹیوں اور فرزندوں کو اقتدار سونپ کر ملک نہیں چلائے جاتے۔ اس طرح تو کاروبار نہیں چلتا مگر میاں صاحب کو یہ بات کون سمجھائے ؟ہوائی اڈے ، شہر یا موٹر وے کے کسی ریستوران میں جب کوئی یہ کہتاہے : تم لوگوں کی سب ریاضت بے ثمر ، حکمران تمہاری سنتے ہی نہیں تو عرض کرتا ہوں کہ ہم آپ کے لیے لکھتے ہیں، ان کے لیے نہیں ۔اس لیے کہ بالعموم سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے ، نہ آنکھ میں حیا۔ اہلِ علم سے ہم سیکھتے اور آپ کے لیے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر تم جاگ اٹھے تو ملک کی قسمت جاگ اٹھے گی ۔سلطانیٔ جمہور کے ادوار میں ،ملکوں اور قوموں کی حفاظت بادشاہ نہیں ، عوام کرتے ہیں ۔ افواج نہیں عامی۔ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک آج بیچاری ہے ۔ غلطیاں اس نے بھی بہت کیںمگر اتنی مفلس وہ بہرحال نہیں ۔ اگر عوام اور حکومت یعنی پولیس، عدلیہ اور میڈیا پورے دل سے اس کی مدد کرے تو چند ماہ میں دہشت گردوں کو وہ خاک چاٹنے پر مجبور کر دے ۔ مولانا سمیع الحق کے سب تجزیے کوڑے دان میں ڈال دیے جائیں ۔ ان کاوہ عالم ہو ، جو 1946ء کے الیکشن میں ان کے اجداد کا ہوا تھا۔عرب شاعر کے بقول سب جام اور نیزوں کے کتنے ہی بھرپور وار دھرے کے دھرے رہ جائیں۔تنہا تو کبھی کوئی کچھ نہ کر سکا۔ کوئی چرچل ، کوئی ڈیگال اور کوئی جارج واشنگٹن بھی نہیں؛حتیٰ کہ کوئی عبیدہ بن ابو جراح ؓ اور خالد بھی ولیدؓبھی نہیں ۔
لیجیے ، آج پھر کالم تمام ہوا ۔ آج پھر جدید پولیس کی جدید تشکیل کے ان اداروں پر بات نہ ہو سکی، جو 2002ء کے پولیس آرڈر میں تجویز ہوئے تھے ۔ جو صرف اس لیے سمیٹ دیے گئے کہ جنرل پرویز مشرف کی سیاسی داشتائیں الیکشن جیت سکیں ۔ 1861ء کے بعد یہ اس بدنام اور بظاہر بے حس ادارے کو مہذب اور جدید تربنانے کی پہلی کوشش تھی۔ آج بھی جس میں ناصر درّانی اور ذوالفقار چیمہ جیسے افسر موجود ہیں ۔یہ ایسے ہی اجلے پولیس افسروں مثلاً افضل شگری اور ڈاکٹر شعیب سڈل کے علاوہ جنرل نقوی اور جنرل معین الدین حیدر ایسے لوگوں کا کارنامہ تھا۔ ریکارڈ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یاللعجب ہمارے ایاز امیر اور اکرام سہگل بھی شریک تھے ۔ بعد میں ایّاز امیر کو کیا ہوا کہ چکوال میں اپنی پسند کے پولیس افسر لگوانے کے لیے ایڑیاں رگڑا کرتے ۔ ایک اور آدمی تھا ، عجیب و غریب آدمی جمیل یوسف۔ اس کی کہانی کچھ تفصیل چاہتی ہے؛ چنانچہ پھر کبھی ۔وہی، جو عرض کیا تھا ، بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ پولیس کے باب میں حکمرانوں کی کم عقلی ، بے حسی اور بے رحمی پر لکھنے کا ارادہ تھا مگر آخر کو وہی ہوا۔ کچھ کہانیاں یاد آگئیں ؎ 
دل بھی تھا دھواں دھواں، شام بھی تھی اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں