آسمان دور ہے اور اللہ بے نیاز۔ آسمان مگر اتنا بھی دور نہیں اور اپنے التجا کرنے والے بندوں سے اللہ بے نیاز ہو نہیں سکتا۔
اس وقت میں وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے بات کر رہا تھا‘ جب دھماکہ ہوا۔ محتاط انداز میں وہ پُرامید تھے اور ایک ایک شعبے کا حوالہ دے کر اعدادو شمار بیان کرتے تھے کہ کس کس شعبے میں کس قدر بہتری۔ ملاقاتیوں کے کمرے میں تشریف فرما تھے اور ان کے ایک دو مددگار بھی۔ اتنے میں چیف سیکرٹری بابر یعقوب اور آئی جی مشتاق سکھیرا آ پہنچے۔ پہلی اطلاع میں شہدا کی تعداد تین تھی‘ پھر آٹھ ہو گئی اور آخر کو گیارہ۔
سوالات کا مرحلہ آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ اس کابینہ کے ساتھ وہ امید کا دامن کس طرح تھامے رکھتے ہیں‘ جو ان کے در پے ہے۔ یہ بھی‘ کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں۔ جواب ملا: امید کی وجوہات ہیں اور وہ میں بتا چکا۔ پھر وہ ہنسے اور بولے: مجھے اپنی حالت تین بیویوں کے شوہر جیسی لگتی ہے۔ اتنی ہی بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے اخبار نویس نے عرض کیا: ہیں تو چھ سات مگر آپ چھپانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ پے در پے اب سوالات کا آغاز ہوا تو کچھ دیر میں وہ اٹھے۔ دونوں خوش اخلاق افسروں کو وہیں چھوڑ کر‘ جن سے تبادلۂ خیال جاری رہا‘ وہ ایک ہنگامی اجلاس کے لیے چلے گئے۔ قطار در قطار‘ دل میں وسوسے پیدا ہوئے کہ شاید وہ سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ ایک جونیئر افسر نے بھی بعدازاں یہ کہا: وہ پریشان ہوئے۔
مگر یہ بدگمانی تھی۔ واقعہ مختلف نکلا۔ اہم افراد سے متعدد ملاقاتوں کے بعد‘ جن میں سے ایک‘ شب آٹھ بجے سے صبح چھ بجے تک جاری رہی‘ معلوم یہ ہوا کہ جرائم کی سطح 33 فیصد گر چکی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے‘ جہاں انتظامیہ کی اعلیٰ ترین شخصیات میں تعاون ہی نہیں‘ ہم آہنگی جنم لے چکی اور فروغ پذیر ہے۔
وزیراعلیٰ‘ چیف سیکرٹری‘ آئی جی ایف سی‘ کور کمانڈر ناصر جنجوعہ‘
خلق خدا کے سامنے ہی ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے بلکہ غیاب میں بھی۔ زیادہ نہیں تو کرپشن 40 فیصد گھٹ چکی۔ بھارتی اور افغانی سازشوں میں کوئی کمی نہ آنے کے باوجود‘ امریکہ‘ برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ کی طرف سے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے باوجود علیحدگی پسند کمزور ہوئے ہیں۔ امن کی شاہراہ پر جاری سفر ہوائی جہاز پر نہیں‘ ریل گاڑی اور کار پر بھی نہ سہی مگر موٹر سائیکل پر ضرور جاری ہے... سب سے اہم یہ کہ جاری رہنے کی امید بھرپور ہے۔ قوم پرستوں کی بغاوت جاری ہے اور مذہبی فرقہ پرستی کا عفریت بروئے کار‘ لیکن اب آکٹوپس کی ٹانگوں سے الجھنے کی بجائے‘ اس کا سر کچلنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی امداد ناکافی ہے اور توجہ بھی۔ اس کا طرزِ عمل مگر مثبت ہے‘ منفی بہرحال نہیں۔ میرے اور آپ جیسے ہر شخص نے وزیراعظم نوازشریف کا ذکر احترام سے کیا۔ ان سب اعتراضات کے باوجود جو اپنی جگہ قائم ہیں‘ بلوچستان میں قوم پرستوں کی صوبائی حکومت کے قیام کو مدبرانہ فیصلہ قرار دیا۔ اعتدال اور ہوش مندی غالب ہے اور خوش فہمیوں سے بچنے کی کوشش بھی۔ دیا روشن ہے‘ روشن رہا تو کیا عجب کہ ایک دن چراغاں ہو جائے۔
پرنس روڈ پر جس وقت دھماکہ ہوا‘ ہاکی گرائونڈ میں جماعت اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمود احمد لدھیانوی ایک جلسہ عام سے خطاب فرما رہے تھے۔ انہوں نے کچھ خوش کن باتیں کیں مگر مظلوم ہزارہ برادری کو مطعون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی‘ برسوں سے جو بھیانک قاتلانہ حملوں کا ہدف ہے۔ اگلے دن کے اخبارات میں شیعہ مکتب فکر کے ترجمانوں کا جو جواب سامنے آیا‘ اس میں بڑی حد تک احتیاط روا رکھی گئی۔
بائیسکل کے پائپوں یا شاید قریب کھڑے رکشہ میں نصب بارود سے اتنا زیادہ نقصان کیوں ہوا؟ اس لیے کہ جلسے کی بنا پر‘ ٹریفک کا رخ نسبتاً کم کشادہ سڑک کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔''یہ تو بڑی افسوسناک بات ہے‘‘۔ میں نے کہا: آپ نے جلسے کی اجازت نہ دی ہوتی۔ تب مجھے بتایا گیا کہ صوبائی حکومت کی مجبوریاں کیا ہیں۔ انہی کو نہیں‘ ان کے حریفوں کو بھی اجازت دی جاتی ہے۔
بہت سی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ان ذرائع نے جن کی صلاحیت اور معلومات پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے‘ یہ بتایا کہ سب سے بڑھ کر بھارت‘ جس کے آٹھ قونصل خانے‘ ایران اور افغانستان کی 2000 کلو میٹر سے زیادہ طویل سرحد کے ساتھ ایک قطار میں پھیلے ہیں۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی جو دہشت گردوں کی پشت پناہ ہے اور ''را‘‘ سے‘ جس کے مراسم قدیم ہیں۔ بعض عرب ممالک جو گوادر کو برداشت نہیں کر سکتے۔ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6‘ جو موقعہ ملنے پر گوادر سے کراچی تک کی پٹی کو الگ کرنے کے منصوبے سے کبھی دستبردار نہیں ہوئی۔
سبھی کو‘ سبھی متعلقہ افسروں اور منتظمین کو شکایت ہے کہ میڈیا ان کا مددگار نہیں۔ حل کا نہیں‘ وہ مسئلے کا حصہ ہے۔ مقامی پریس غیر تربیت یافتہ اخبار نویسوں کے ہاتھ میں ہے۔ بڑے اخبارات اور ٹی وی چینل بھی منفی پہلوئوں کو نسبتاً زیادہ اُجاگر کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ بلوچستان کو ہرگز وہ اہمیت نہیں دی جاتی‘ جس کا وہ مستحق ہے۔ میں ششدر رہ گیا‘ جب رات گئے‘ ٹیلی ویژن کے خبرنامے سنے اور پروگرام دیکھے۔ بلوچستان کے دھماکے کا ذکر آخر میں۔ لاہور کی نرسوں کے اجتماع سے دسواں حصہ بھی نہیں۔ ایک چینل نے خبر ہی گول کردی۔ لاہور کی نرسیں مظلوم ہیں مگر بیچارہ پاکستان اور اس کا مستقبل۔ ناکافی علاج کے ساتھ کسمساتا بلوچستان اور کنفیوژن کے بارے‘ اس کے عوام؟
ماما عبدالقدیرکا قصہ بالکل ہی مختلف نکلا۔ ان کے صاحبزادے باغیوں میں شامل تھے۔ بغاوت کو ہوا دینے پر تلے ہوئے۔ خطاب فرماتے اور یہ زہر آلود خطاب سوشل میڈیا پر سنے جا سکتے ہیں۔ ماں باپ تو اولاد کو معصوم ہی گردانتے ہیں مگر وہ پھنے خاں قسم کے اخبار نویس کیوں؟ کوئٹہ میں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ اسلام آباد میں بھی نہیں۔ ایک اعلیٰ اور ذمہ دار افسر نے زچ ہو کر کہا: فرض کیجیے‘ ہمارے ہی لوگوں نے اسے مار ڈالا ہو مگر انہوں نے کس کو مارا؟ ایک فوجی افسر نے یہ کہا: یہ صرف ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جوان کس قدررنجیدہ ہیں۔ کس طرح ہم نے انہیں تھام رکھا ہے۔ عدالت کسی مجرم کو سزا نہیں دیتی۔ تحقیق کرنے والے ہر غیر جانبدار اخبار نویس کو‘ جس میں دیانت کی ایک رمق بھی تھی‘ بالآخر ماننا پڑا کہ لاپتہ افراد میں سے 99 فیصد دہشت گرد تھے۔کیا ہمارے شہدا آدم زاد نہ تھے؟ کیا ان کے ماں باپ اور بہن بھائی نہیں؟ ان کا ذکرکیوں نہیں‘ احترام اور محبت سے کیوں نہیں۔ آزادی کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے 1600 پنجابیوں‘ اردو اور سرائیکی بولنے والوں کو قتل کر ڈالا ۔ ان کا ماتم کیوں نہیں؟ ان سرداروں اور نوابوں کا کیوں نہیں‘ جو بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ جو افتادگانِ خاک کے خون پر جیتے ہیں۔
دھڑلے کے ساتھ‘ پاک افغان اور پاک ایران سرحد سے سمگلنگ جاری رہتی ہے‘ گویا کوئی سرحد ہی نہیں۔ کتنے ہی علاقے ہیں‘ جہاں کوئی پٹرول پمپ نہیں اور ہزاروں گاڑیاں فراٹے بھرتی ہیں۔ سبھی حرام کھاتے ہیں‘ سب کے سب۔ اس لیے کہ صرف 6 فیصد علاقہ پولیس کے پاس ہے‘ باقی سرداروں کی مرضی سے بروئے کار لیویز کے سپرد۔ سڈل فارمولے کے تحت تمام بی ایریا کو پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا مگر... وزیراعلیٰ رئیسانی کی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کر کے‘ پھر سے 94 فیصد رقبے کو لیویز کو سونپ دیا۔ اب ایک بار پھر اسے پولیس کے حوالے کرنے کا پروگرام ہے‘ مرحلہ وار۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا: چند برس درکار ہیں‘ کم از کم پچاس فیصد علاقے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کردیئے جائیں گے۔ ان کے چہرے پر لکھا تھا: ہماری مجبوریوں کا ادراک کرنے کی کوشش کرو‘ ہم زخمی ہیں اور میدانِ جنگ میں ان دشمنوں سے بروئے کار ہیں‘ جن میں سے اکثر کے چہرے پہچانے نہیں جاتے۔ اس کے باوجود‘ کامیابیوں سے زیادہ‘ ہماری ناکامی پر واویلا ہے۔ صاف صاف انہوں نے کہا: گزشتہ ایک عشرے کے دوران‘ سب کے سب سرکاری اداروں کی باقی ماندہ قوت بھی تقریباً مکمل طور پر تحلیل کر دی گئی۔ تعمیر نو کے لیے مہلت درکار ہے۔ کتنی مہلت؟ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ تین برس‘ پانچ سال یا اس سے بھی زیادہ۔ تجزیے کا سلسلہ جاری رہے گا‘ کالم نہیں‘ تو انشاء اللہ خبری صفحات پر۔ یہ ایک طویل داستان ہے اور آسانی سے سمٹ نہیں سکتی۔
یہی کیا کم ہے کہ سفر کا آغاز ہوا۔ یہی غنیمت ہے کہ مرض بگڑنے کی بجائے روبہ اصلاح ہوا۔ آنے والا کل اپنے ساتھ کیا لائے گا؟ تمام تر انحصار اس پر ہے کہ امید کی مشعل فروزاں رکھی جائے۔
آسمان دور ہے اور اللہ بے نیاز۔ آسمان مگر اتنا بھی دور نہیں اور اپنے التجا کرنے والے بندوں سے اللہ بے نیاز ہو نہیں سکتا۔