ان عمارتوں کے سامنے مسافر کچھ دیر کھڑا رہا۔ حسنِ تعمیر کے نادر نمونے۔ کہر اور دھوپ کے ان گنت موسم جن پہ رقم ہیں۔ ان کے مکین کیا ہوئے‘ کہاں گئے ؎
یہ بے سبب نہیں خالی گھروں کے سناٹے
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
آٹھ دن تک کی مسلسل مسافرت تکان‘ کم خوابی۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے‘ جس قدر جلد ممکن ہو‘ گھر لوٹ آیا کرو۔ آدمی کی جائے امان اس کی اپنی چار دیواری ہے۔ وہاں جس شخص کو پناہ نہیں ملتی‘ کہیں نہیں ملتی۔
الم کے اس شاعر فانی بدایوانی نے ایک دوست کو لکھا: دنیا میں سکون کہیں نہیں‘ شاید صحرائوں میں ہو۔ جی نہیں‘ صحرائوں میں وحشت اور تنہائی ہوا کرتی ہے۔
یاس یگانہ چنگیزی نے کہ بالکل ہی منفرد تھے‘ غالبؔ سے حسد نہ پالتے تو اور بھی جگمگاتے‘ یہ کہا تھا ع
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
افتخار عارف کو گھر بہت یاد آیا کرتا ؎
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
کہ جس مکان میں رہتا ہوں‘ اس کو گھر کر دے
اور یہ کہ ؎
ہمارے سچّے سائیں‘ مہر علی شاہ
بابا گھر نہیں دیکھا‘ بہت دنوں سے
گھر بہت یاد آیا۔ کالم ابھی لکھنا تھا‘ اخبار ابھی پڑھنے تھے‘ مشورہ ابھی کرنا تھا لیکن ریسٹ ہائوس کے آرام دہ کمرے سے نکلا کہ ریشم گلی جائوں۔ حیدرآباد کی ریشم گلی‘ جسے Bangle capital of the world کہنا چاہیے۔ فرصت ہوتی تو ظہیر
صاحب کو ڈھونڈتا۔ خدا کی پناہ۔ 35 برس ہو گئے‘ ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ دل پہ پتھر رکھا کہ اگلی بار۔ اگر آنے کا موقعہ ملا۔ برسات کے بعد جب پھول کھلتے ہیں اور صحرا مسافروں کا سواگت کرتا ہے۔ اب کی بار ریشم گلی سے ملاقات ہی غنیمت ہے۔
برسوں پہلے‘ ایک فلم دیکھی تھی‘ چوڑیاں بنانے والوں کے بارے میں۔ ننھے بچوں اور لاچار عورتوں کے وہی جلتے ہوئے ہاتھ‘ ٹھیکیداروں کی وہی سفاکی‘ جو بھٹہ مزدوروں کے ساتھ‘ دیہی سندھ کے محنت کشوں‘ اندرونِ بلوچستان کے چرواہوں اور سرائیکی وسیب کے افتادگان خاک سے روا رکھی جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے گھروں پر جاتا یا ا ن کارخانوں میں‘ جہاں محنت کشوں کا پسینہ رنگ و نور میں ڈھلتا ہے۔ چاند رات جب کوئی الہڑ دوشیزہ‘ اگلی صبح کے سنگھار کی آرزو میں‘ چوڑیوں کے رنگ جانچتی ہے‘ شربتی‘ دھانی‘ گلابی‘ چمپئی تو اسے کیا خبر کہ ان میں کبھی نہ بہنے والے پیازی آنسوئوں کا رنگ بھی شامل ہے۔ یہی ہے‘ زندگی یہی ہے۔ جنید بغداد نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ انسانیت کی ساری تاریخ زخم آلود پیکروں اور ان پر مرہم لگانے کی تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں۔
زندگی اور کچھ بھی نہیں‘ تری میری کہانی ہے
اتنا وقت کہاں تھا۔ اگر کوئٹہ‘ گوادر‘ لیاری اور تھر کی داستان لکھ سکوں تو یہی غنیمت ہے۔ اخبار نویس کا رزق زخم گننے اور بیچنے میں لکھا گیا۔ یہ بھی غنیمت ہے‘ لہو نچوڑنے والوں کا ہم رکاب ہونے میں رقم ہوتا تو وہ کیا کرتا؟
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں‘ کشتِ دہقاناں خراب
''یہ ہمارے بھائی ہیں‘‘ جنرل انعام الحق نے‘ مریضوں کی مختصر سی قطار کو ہمدردی سے دیکھا اور پتھر کا چہرہ موم ہو گیا۔ عرض کیا: میں اور آپ بھی ہو سکتے تھے۔ ہماری تقدیر کیا اپنے ہاتھ میں ہے؟ کیا اپنے والدین ہم نے خود چنے؟ اپنے استاد؟ اپنا دیار؟ کچھ بھی تو نہیں۔ میر صاحب سچے تھے ؎
جو لکھا قسمت میں ہو‘ سو ہو رہا
خطِ پیشانی کوئی کیونکر مٹائے
شاعر کی بات دوسری ہے۔ عارف نے کچھ اور کہا: جدوجہد‘ جہاں نہ ہو‘ مقدرات وہاں حکومت کرتے ہیں۔ انسان کو ارادہ و اختیار بخشا گیا۔ اب یہ اس پر ہے کہ شکر کرے یا اپنے پروردگار تک کا انکار کردے۔ ارشاد کیا: ادبی جمالیات ایک چیز ہے ا ور زندگی کے حقائق دوسری۔ ادیب اور شا عر اکثر نرگسیت کے مارے ہوتے ہیں۔ اخبار نویسوں کی طرح‘ سیاستدانوں کی طرح وہ بھی زخموں کی تجارت کرتے ہیں۔
پلٹ کر دیکھا اور پلٹ کر ان کے سوا‘ کس کی طرف دیکھیں؟ فرمایا: ''میں مساکین میں سے ہوں‘ اللہ قیامت کے دن‘ مجھے انہی میں سے اٹھانا‘‘(مفہوم)۔ انہی کو سنبھالا‘ انہی کو بالا کیا۔ محبت بلالؓ سے کی‘ زیدؓ سے کی اور اس کے فرزند اسامہ سے۔ عرب سرداروں نے جب جواں سال اسامہ کو سپہ سالار بنانے پہ اعتراض کیا تو فرمایا: اس کے باپ پر تمہیں ایسا ہی اعتراض ہوا کرتا۔ زید شہید ہوئے تو اس کے بچوں کو سینے سے چمٹا کر روئے۔ ان کی امت کو کیا ہوا؟ حلوہ کھانے کی سنت اسے یاد ہے‘ یہ مگر یاد نہیں کہ اصحاب صُفہ کو‘ آرزو مندانِ علم کو‘ اپنی بیٹی فاطمہ پر ترجیح دیا کرتے۔
پلٹ کر دیکھا اور پلٹ کر اِس کے سوا‘ کیا دیکھیں۔ آیت یہ ہے: یہ ہے‘ وہ کتاب‘ جس میں ہرگز کوئی شبہ ممکن نہیں۔ رہنما ہے‘ ان پاک بازوں کی‘ جو غیب (اللہ) پر ایمان رکھتے‘ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے‘ اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ ''ہم نے دیا ہے‘‘۔ ''دوسروں پہ خرچ کرتے ہیں‘‘۔ سید قائم علی شاہ صاحب! آپ سرکار کا پیسہ بھی ان پر خرچ کرنے کے روادار نہیں اور فرماتے یہ ہیں کہ آپ کے خلاف سازش کی گئی۔ تھر کے بے اماں صحرا نے آپ کے خلاف سازش کی؟ بھوک اور پیاس نے؟ شیر شاہ سوری صاحب! سرکار کا پیسہ آپ خرچ کرتے ہیں‘ اپنی ذاتی پسند سے اور مطالبہ آپ کا یہ ہے کہ صرف آپ کے نہیں‘ آپ کی اولاد کے بھی ہم احسان مند ہوں‘ حمزہ شہباز کے بھی۔
فرمایا: جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا‘ اللہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔ کل سے دوستوں کے‘ قارئین کے پیغامات چلے آتے ہیں‘ لاکھوں کے عطیات کی پیشکش۔ ڈاکٹر امجد ثاقب‘ ہارون خواجہ اور احسن رشید کی ملاقات ہو پائے۔ کوئی ادارہ تشکیل پا سکے تو عطیات کی بات بھی ہو۔ زیادہ نہیں‘ صرف پچیس‘ تیس کروڑ درکار ہیں۔ تھر میں پیاسا کوئی نہ رہے گا۔ اتنا ہی روپیہ اور مل جائے تو بے روزگار بھی کوئی نہیں‘ مگر یہ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ہارون خواجہ ہی کر سکتے ہیں۔ ہم بیچارے نہیں‘ ہم گریہ کر سکتے ہیں؛ قائم علی شاہ‘ جسے سازش کہتے ہیں۔
گھر یاد آیا۔ امجد اسلام امجد یاد آئے ؎
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل‘ لوٹ کے گھر جانا ہے
موہن داس کرم چند گاندھی نے پہلی بار حیدرآباد کے خوش حال‘ خوش خصال ہندو امرا کو دیکھا تو یہ کہا تھا: اب یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہندوستان آزاد کیوں نہ ہو سکا۔ ان عمارتوں کا اشتیاق بھی تھا۔ میاں محمد خالد حسین سے کہا‘ خاندان کی سب لڑکیوں کے نام لکھوا دیجیے‘ کہ ان کے لیے چوڑیاں خرید لوں۔ گھر یاد آئے تو بیٹیاں پہلے اجاگر ہوتی ہیں‘ انہی سے ہے‘ بخدا مہرو محبت انہی سے۔ بیٹے بھی اچھے مگر بیٹیاں سب سے اچھی۔ گلاسکو میں نہیں‘ وہ باپ کے دل میں بستی ہے۔ دکاندار کو کچھ تعجب ہوا۔ میں نے کہا: بھائی چوڑیوں کی دکان کھولنی ہے اور وقت کم ہے۔
زخم اس وقت ہرا ہوا‘ جب اس نے بتایا کہ کانچ کی چوڑیاں اب کوئی نہیں خریدا کرتا۔ پناہ بخدا‘ چوڑیاں بھی اب لوہے کی بننے لگیں۔ کس طرح خریدیں‘ باپ کا دل ہی جانتا ہے‘ مگر اپنی نورنظر کے لیے کانچ کی بھی۔ وہ اپنے باپ کی بیٹی ہے‘ انگلستان کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں تعلیم پانے کے باوجود‘ آج بھی ویسی ہی۔ پھر ان عمارتوں کے سامنے کچھ دیر کھڑا رہا۔ ان عمارتوں کے سامنے مسافر کچھ دیر کھڑا رہا۔ حسنِ تعمیر کے نادر نمونے۔ کہر اور دھوپ کے ان گنت موسم جن پہ رقم ہیں۔ ان کے مکین کیا ہوئے‘ کہاں گئے ؎
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا؟